Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Nusrat Javed
  3. Ba Yak Waqt Rulane Aur Hansane Wali Kahani

Ba Yak Waqt Rulane Aur Hansane Wali Kahani

بیک وقت رْلانے اور ہنسانے والی کہانی

تھا تو وہ ایک مضمون جو گزشتہ جمعے کے نیویارک ٹائمز میں چھپا۔ اسے پڑھنے کے بعد مگر میرا عالم داستانوں کی اس شہزادی جیسا ہوا جو کسی داستان کے مرکزی کردار سے اس کی زندگی کے اہم واقعات سن کر ہنستی بھی ہے اور روتی بھی۔ یہ بات اگرچہ میں آج تک دریافت نہیں کر پایا کہ بیک وقت کسی واقعہ کے بارے میں ہنسا اور رویا کیسے جاسکتا ہے۔ "دل تو پاگل ہے" کے مصرعہ سے شروع ہوئے فلمی گیت میں اگرچہ دل کو کبھی ہنسانے اور کبھی رلانے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔

موضوع سے بھٹک جانے کی فکر سے گھبرا کر اصل بات کی طرف لوٹتا ہوں۔ نیویارک ٹائمز میں جو مضمون چھپا اسے چارلس انگلش نامی کسی صاحب نے لکھا تھا۔ وہ ایک کتاب کے مصنف بھی ہیں نام ہے جس کا "دی سی آئی اے بک کلب"۔ اپنے مضمون میں چارلس نے یہ انکشاف تو نہیں کیا کہ وہ بذاتِ خود خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے لئے کام کرتا رہا ہے یا نہیں۔ اس کی دی معلومات مگر "اندر کا آدمی" ہونے کا احساس دلاتی ہیں۔

جو مضمون موصوف نے لکھا اس کا عنوان تھا: "1984ء" تو نہیں بدلا مگر امریکہ بدل گیا ہے"۔ "1984ء" یاد رہے کہ اسی مضمون کے تناظر میں ایک مخصوص برس کا ذکر نہیں ہے۔ یہ درحقیقت ایک ناول کا عنوان ہے جسے معروف برطانوی ناول نگار جارج آرول نے اپنی موت سے چند ہی دن قبل مکمل کیا تھا۔ اس ناول کو شہرت اس کی موت کے کئی برس گزرجانے کے بعد ملی۔

جارج آرول کی اپنی کہانی بھی بیک وقت رلاتی بھی ہے اور ہنساتی بھی۔ اس کی عجیب زندگی کا احساس فقط یہ حقیقت جاننے ہی سے ہوجاتا ہے کہ جارج آرول اس کا حقیقی نہیں بلکہ قلمی نام تھا۔ اس کے والد -رچرڈ بلیئر-برطانوی سامراج کے ملازم تھے۔ غلام ہندوستان کے بنگال میں قیام پذیر تھے تو ان کے ہاں "جارج" پیدا ہوا۔ اس کا نام ایرک آرتھر بلیئررکھا گیا۔ ایرک ایک حساس بچہ تھا جس نے برطانوی سامراج کی محکوم ہندوستان پر جبر وظلم پر مبنی حکومت کے غاصبانہ رویوں کو شدت سے محسوس کیا۔ یہ حقیقت بھی آپ کو لطیفہ لگے گی کہ غلام ہندوستان پر حکومت کرنے کے لئے برطانیہ سے آئے افراد کو ان کے "مادرِ وطن" میں کم تر طبقات میں شمار کیا جاتا تھا جو دولت کمانے سرکار کی نوکری کے لئے ملک چھوڑ کر سمندر پار چلے گئے۔

"کم تر طبقات" میں دھکیلے جانے کے باوجود برطانوی سامراج کی نوکری کی خاطر ہندوستان آئے سرکاری افسروں کے بچے ابتدائی تعلیم مکمل کرلیتے تو انہیں ماؤں اور دیگر بہن بھائیوں سمیت "مادرِوطن" بھجوادیا جاتا۔ برطانیہ واپس لوٹ کر یہ بچے وہاں کے ان کالجوں میں داخلے کی کوشش کرتے جو اعلیٰ طبقات کے لئے مختص تھے۔ ایرک بھی ایسے ہی کالجوں میں داخل ہوا۔ امیر طبقات کی اولادوں نے مگر اسے دوستی کے قابل ہی نہ جانا۔ اس کا تمسخر اڑاتے رہے۔ اپنے ہم جماعتوں کی رعونت نظرانداز کرتے ہوئے ایرک نے کتابوں پر توجہ مرکوز کرلی۔ اسی باعث وہ بالآخر مسابقتی امتحان دے کر برطانوی اشرافیہ کے حتمی تعلیمی ادارہ گردانے اٹیان (Eton)میں داخل ہوگیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مقابلے کا امتحان دے کر برطانوی پولیس میں افسر بن کر برماپوسٹ ہوا۔ 5سال تک اس ملک میں پولیس افسر کے طورپر وہ سامراجی ظلم کا کارندہ رہا۔ بالآخر اس کردار سے تھک کر استعفیٰ دے دیا اور وطن لوٹ آیا۔

برطانیہ لوٹنے کے بعد اس نے لندن کے غریب محلوں میں رہائش اختیار کی۔ گزارے کے لئے بڑے ہوٹلوں میں برتن دھونا شروع کردئے۔ خود اختیار کردہ غربت کے تجربات کو اس نے ایک کتاب میں سمیٹا تو اس خوف سے کہ اس کے والد اور خاندان کی بدنامی نہ ہو اپنا قلمی نام "جارج آرول" رکھ لیا۔ غریبوں کی محبت نے اسے کمیونسٹ اور سوشلسٹ خیالات اپنانے کو اکسایا۔ ان ہی خیالات سے متاثر ہوکر وہ سپین میں فسطائیت کے خلاف برپا گوریلا جنگ میں عملی حصہ لینے چلا گیا۔ دوران جنگ زخمی ہوا۔ زخمی حالت میں طویل عرصہ تک غور کرتے ہوئے اسے ان دنوں سوویت یونین کہلاتے روس کے چند کٹرحامیوں کے رویے بہت منافقانہ لگے۔

وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ مساوات کے نام پر جو کمیونسٹ "جنت" تشکیل دی جارہی ہے وہاں انفرادی آزادی گناہ تصور ہوتی ہے۔ ریاست انسانوں کو جانوروں کا ایک ریوڑ تصور کرتے ہوئے ایک خوابی مگرمصنوعی دنیا کی جانب دھکیلنے کا ڈرامہ رچاتی ہے۔ "مساوات" کے نام پر قائم ہوئے معاشرے میں معدودے چند افراد بادشاہی اختیارات کے مالک بن جاتے ہیں اور ان کی عیش بھری زندگی عامیوں کو قابل رشک محسوس ہوتی ہے۔ کمیونسٹ نظام کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار کیلئے اس نے "انیمل فارم(جانوروں کی بستی) کے نام سے ایک ناول لکھا جو بہت مشہور ہوا۔ اس دور کے کمیونسٹوں کو یہ ناول جائز بنیادوں پر "سازشی" محسوس ہوا۔ جارج آرول کو لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کا ایجنٹ ٹھہرادیا گیا۔

1949ء میں اپنے مرنے سے چند ہی روز قبل مگر اس نے "1984ء"کے عنوان سے ایک اور ناول لکھ ڈالا۔ اس کا بنیادی تصور یہ تھا کہ فقط کمیونسٹ دنیا ہی نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ "آزاد خیال" دنیا بھی بتدریج ایسے مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہے جہاں ہر شخص ریاست کی کڑی نگاہ تلے زندگی بسر کرے گا۔ وہ صرف ان خیالات کا حامل ہوگا جو ریاست کی "وزارتِ حق" اس کے دماغ میں سموئے گی۔ جس انداز میں لیکن اس ناول کا پلاٹ اور کردار مرتب ہوئے اس کی وجہ سے 1984ء پڑھتے ہی پہلا خیال یہ آتا ہے کہ اس ناول میں روس کے کمیونسٹ نظام کی بھد اڑائی گئی ہے۔ دنیا بھر کے کمیونسٹ لکھاریوں نے اس کی مذمت کی۔ اس کے ناول کے کمیونسٹ ملکوں میں داخلے پر پابندی لگادی گئی۔

لمبی تمہید کے بعد آتے ہیں گزشتہ جمعے کے نیویارک ٹائمز میں چھپے مضمون کی جانب۔ اس کے مصنف چارلس انگلش نے انکشاف کیا ہے کہ نیویارک کے وسط میں قائم ایک دفتر میں بیٹھے سی آئی اے کے کارندے سردجنگ کے دنوں میں کمیونسٹ ملکوں میں بین ہوئے ناولوں اور دیگر کتابوں کو ان ممالک میں سمگل کرنے کے انتظامات کرتے تھے۔ "1984ء"کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ اپنایا گیا۔ اس کا بلکہ فرانس میں پناہ گزین ہوئے پولینڈ کے ایک مشہور لکھاری سے پولش زبان میں ترجمہ بھی کروایا گیا۔ اس ترجمے کی کثیر تعداد پولینڈ سمگل کردی گئی۔ وہاں اس کی کاپیاں تقریباََ ہر دوسرے گھر پہنچ گئیں۔ چارلس انگلش کا اصرار ہے کہ کمیونزم کو شکست دینے میں "افغان جہاد" جیسی جنگوں نے یقیناََ اہم کردار ادا کیا ہے۔ کمیونسٹ نظام تلے دبے اذہان کو "آزا د" کروانے میں تاہم "1984"ء جیسے ناولوں کی کمیونسٹ ملکوں میں سمگلنگ نے بھی اہم حصہ ڈالا ہے۔

اب آتے ہیں مکدی گل کی طرف۔ امریکہ کی ایک ریاست ہے Iowa، اس کا گورنر ٹرمپ جیسا قدامت پرست ہے۔ اس نے File 496 جیسے احمقانہ نام کے ساتھ اپنی ریاستی اسمبلی سے ایک قانون پاس کروایا ہے۔ اس قانون کے مطابق فقط بچوں کے والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ ان کے بچوں کو کونسی کتاب پڑھنا چاہیے اور کونسی نہیں۔ "بچوں کے ذہن خراب کرنے والی" کتابوں میں مذکورہ قانون کی منظوری کے بعد "1984" کا نام بھی شامل کردیا گیا ہے۔ اس ناول کو اب Iowaریاست کے سکولوں اور کالجوں کی لائبریریوں سے ہٹایا جارہا ہے۔

جو ناول کبھی کمیونزم کے لئے "خطرہ" تصور ہوتا تھا اب امریکہ کے نام نہاد "کھلے ڈلے" نظام کے لئے "غیر اخلاقی" اور "بچوں کے ذہن بگاڑنے" والاشمار ہورہا ہے۔ آئیواکی نقالی میں فلوریڈا نے بھی 4,561 کتابوں پر سکولوں اور کالجوں میں رکھنے پر پابندی لگادی ہے۔ ٹیکساس اور ورجینیا کی ریاستوں میں بھی چند کتابوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہورہا ہے۔ "انفرادی آزادی" ٹرمپ کے امریکہ کا اب حتمی خواب نہیں رہا۔ "دنیا کی سب سے طاقتور جمہوریت" کہلاتا امریکہ بتدریج جارج آرول کی بیان کردہ "جانوروں کی دنیا" میں تبدیل ہورہا ہے جہاں سوشل میڈیا کے فیس بک، ٹویٹر اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارم انسانوں کو "بھیڑچال" کی جانب دھکیل رہے ہیں۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan