الاسکا میں ٹرمپ، پوٹن متوقع ملاقات

لاکھوں اموات، سینکڑوں گھرانوں کی تباہی اور نقل مکانی کے بعد بالآخر ہٹلر کے جرمنی کو دوسری جنگ عظیم میں شکست دے کر "فاتح" ممالک کریمیا کے شہر یالٹا میں جمع ہوئے تھے۔ یالٹا یاد رہے کہ بحیرہ اسود کے کنارے پر واقع یہ شہرکریمیا کا حصہ ہے۔ یہ خوش گوار اور خوب صورت جزیرہ یعنی کریمیا بنیادی طورپر آزاد منش تاتار قوم کا مرکز تھا۔
قدیم روس اورسلطنت عثمانیہ کے درمیان "آزاد قبائل" پر مشتمل ویسا ہی "بفرزون" شمار ہوتا تھا جیسے کسی زمانے میں ہمارے قبائلی علاقہ جات روس اور برطانوی سامراج کی بنائی ایمپائر کے دوران تصور ہوتے تھے۔ اس جزیرے کو مگر تین سو سال تک خلافت عثمانیہ کا حصہ رہنے کے باوجود روس نے ترکی سے 1783میں کیتھرین نام کی ملکہ کے دور اقتدار میں ہتھیالیا۔ تاتاریوں کی ترکی کے زیر نگین "آزادی" لہٰذا سلب ہوگئی۔
بات مگر وہاں ختم نہ ہوئی۔ "افغان جہاد" کی برکتوں سے جب سوویت یونین پاش پاش ہوکر دوبارہ روس تک محدود ہوا تو کریمیا یوکرین کا حصہ تھا۔ اس پر مگر پوٹن کے روس نے 2014ء میں دوبارہ قبضہ کرلیا اور آج بھی اسے یوکرین کو لوٹانے پرآمادہ نہیں۔ تاتاریوں کی "آزادانہ منش" کو اپنے لئے دائمی خطرہ محسوس کرتے ہوئے کسی دور کے کٹر انقلابیوں کے ہیرو "سٹالن" نے انہیں زور زبردستی کریمیا سے قافلوں کی صورت بیدخل کرنے کے بعد ازبکستان اور قزاقستان جیسے دور دراز خطوں میں پھینک دیا تھا۔ یوکرین سے زبردستی جلاوطن ہوئے تاتاری موسم کی سختیوں کی وجہ سے سفر کے دوران ہی ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے تھے۔ ان کے ساتھ ہوئے ظلم کے بارے میں مجھ جیسے "انسان دوست" ہوئے "سوشلسٹ" بھی اپنے بڑھاپے تک اس المیے کی بابت بے خبررہے۔
کالم کا آغاز البتہ ایک کانفرنس سے ہوا تھا جوکریمیا کے شہر یالٹا میں منعقد ہوئی تھی۔ اس میں"فاتح اقوام" کے تین رہ نما شریک ہوئے: امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اورروس کا "کمیونسٹ" بادشاہ جوزف سٹالن۔ فروری 1945ء میں ہوئی اس کانفرنس کے دوران اِن تینوں نے دنیا کواپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کرلیا۔ ایسا کرتے ہوئے سب سے زیادہ ظلم جرمنی کے ساتھ ہوا۔ اسے مغربی اور مشرقی جرمنی میں تقسیم کردینے کے بعد درمیان میں دیوار برلن کھڑی کردی گئی۔ یہ دیوار "افغان جہاد" کی برکتوں سے 1990ء کی دہائی میں گری تو جرمنی دوبارہ متحد ملک بن گیا۔ اس کی دو حصوں میں تقسیم کے دوران دوملکوں میں بٹی ایک قوم جن نفسیاتی صدموں سے گزری اس کے بارے میں ہماری اکثریت لاعلم ہے۔
یالٹا کانفرنس کی بدولت دنیا کواپنے اپنے حلقہ اثر میں تقسیم کرنے کے باوجود اینگلوامریکن بلاک امریکہ کی سربراہی میں کمیونسٹ سوویت یونین اور اس کے زیرنگین ملکوں کے خلاف سردجنگوں میں مصروف رہا۔ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں لڑی بے شمار خانہ جنگیوں کا سبب یہ ہی سردجنگ تھی۔ تیسری دنیا کے "جاہل اور گنوار" تصور ہوتے عوام کو "کمیونزم" سے بچانے کے لئے دنیا بھر میں جمہوریت پھیلانے کا خود ساختہ دعوے دار امریکہ ان ملکوں میں جابر فوجی آمروں کی سرپرستی بھی فرماتا رہا۔ ہمارے ہاں بھی اس تناظر میں ایوب خان، جنرل یحییٰ اورجنرل ضیاء کے بعد جنرل مشرف کا "سیزن"لگا۔
رواں مہینے کی 15اگست کو اب امریکہ کی ریاست الاسکا (Alaska)میں میری دانست میں ایک اور "یالٹا کانفرنس" منعقد ہورہی ہے۔ اس میں شرکت کے لئے روس کے صدر پوٹن امریکی صدر ٹرمپ کی دعوت پر وہاں موجود ہوں گے۔ نظر بظاہر مذکورہ کانفرنس کا مقصد روس اور یوکرین کے مابین جنگ بندی ہے۔ تلخ حقیقت مگر یہ ہے کہ یوکرین جوگزشتہ3برسوں سے روس کی فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے ہزاروں شہری مروابیٹھا ہے۔ جس کی بے تحاشہ آبادی دیگر ملکوں میں جنگ سے گھبرا کر پناہ گزین ہے، الاسکا میں ہوئی ملاقات میں اپنے صدر کے ذریعے موجود نہیں ہوگا۔ ٹرمپ اور پوٹن خود ہی فیصلہ کرلیں گے کہ یوکرین کے صدر کوکن شرائط پر جنگ بند کرنا ہوگی۔ فرانس کے صدر یوکرینی صدر زیلنسکی کے الاسکا کانفرنس میں مدعونہ کئے جانے کے سبب سخت خفا ہیں۔ یورپ کے اکثر رہنما بھی ایساہی سوچ رہے ہیں۔ اپنی خفگی کے اظہار سے مگر گھبرائے ہوئے ہیں۔
جرمنی کی خاموشی مذکورہ تناظر میں معنی خیز ہے۔ روس-یوکرین جنگ شروع ہونے سے قبل ہی وہ اپنی ضرورت کی گیس کا بیشتر حصہ سستے داموں روس کے ساتھ بچھائی پائپ لائن کے ذریعے خریدتا تھا۔ روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکہ نے فیصلہ کیا کہ روس کے تیل کی عالمی منڈی میں فروخت ناممکن بنادی جائے۔ جرمنی نے امریکہ کا اتحادی ہوتے ہوئے اس پر فی الفور عمل کیا۔ چین مگر روس کے برآمد کردہ تیل کا کم ازکم 50فی صد سستے داموں خریدتارہا۔ بھارت نے بھی اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ روسی تیل خریدنا شروع کردیا۔ یورپ کی جانب تیل سے لدے جہاز گہرے سمندروں میں بھارت کی جانب مڑجاتے۔ بھارت روس کے خام تیل کو صاف کرتے ہوئے اس میں سے موٹر انجن اور ڈیزل وغیرہ الگ کرلیتا۔ صاف ہوا تیل دیگر پٹرولیم پراڈکٹس سمیت یورپ کو "میڈاِن انڈیا" بناکر بیچ دیا جاتا۔
بالآخر ٹرمپ کو تپ چڑھ گئی۔ اس نے بھارت سے اپنے ہاں آنے والی مصنوعات پر 50فی صد ٹیکس عائد کردیا۔ مودی کا بھارت لیکن ٹس سے مس نہ ہوا۔ سفارتی قاصدوں کے ذریعے بلکہ روس کے صدر کو اپنے ہاں آنے کی باقاعدہ دعوت دے ڈالی۔ شاید اگلے سال کے شروع کے تین مہینوں میں کسی دن پوٹن بھارت جاسکتے ہیں۔ پوٹن کو دعوت دینے کی وجہ سے ٹرمپ مودی سے مزید ناراض ہوا ہے۔
پوٹن کی 15اگست الاسکا آ مد پر البتہ صدر ٹرمپ بہت خوش ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ انکی روسی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد نہ صرف روس-یوکرین جنگ بند ہوجائے گی بلکہ باقی دنیا بھی امن کی راہ پر چل پڑے گی۔ دنیا بھر میں امن کی امید کرتے ہوئے امریکی صدر البتہ غزہ کا ذکر نہیں کرتے۔ غزہ کی پٹی کو دوبرسوں سے مسلسل فضائی بمباری کے بعد اب کاملاََ اسرائیلی فوج کے قبضے میں دینے کے ارادے ہیں۔
الاسکا سے پہلے گزشتہ جمعرات تک امید تھی کہ امریکی اور روسی صدر متحدہ عرب امارات میں ملیں گے۔ روس کے صدر کی جانب سے مگر الاسکا کو ترجیح دی گئی۔ الاسکا امریکی ریاست ہونے کے باوجود طویل عرصے تک روس کا "حصہ" رہا ہے۔ روس کے تاجر الاسکا کو اس کے قریبی سمندر کے ساحل پر موجود اود بلائوجیسے جانور جسے انگریزی میں Ottersکہا جاتا ہے کی کھال کے بہت دیوانے تھے۔ یہ کھال انتہائی گرم ہوتی ہے۔ آج سے تقریباََ تین سو برس قبل اس کی ایک کھال کے بدلے سوڈالر بیچنے والے کو مل سکتے تھے۔ بتدریج مگر الاسکا کے ساحلوں سے جانور کی یہ نسل تقریباََ معدوم ہوگئی۔ الاسکا پر قبضہ برقرار رکھنا روس کے گھاٹے میں چلاگیا۔ امریکہ سے 1867ء میں دوسینٹ (جی ہاں دوسینٹ)فی ایکڑ کے حساب سے 7اعشاریہ 2ملین لے کر روس نے الاسکا اس کے حوالے کردیا۔
الاسکا میں ٹرمپ سے ملاقات کے لئے رضا مند ہوکر پوٹن نے نہایت مہارت سے دنیا کویہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ آج سے تین سوبرس قبل بھی امریکہ اس کی "پہنچ" سے بہت دور نہ تھا۔ ایک حوالے سے روسی صدر امریکی سرزمین پر نہیں اسی علاقے پر پائوں رکھ رہا ہے جو کبھی اس کا "حصہ"تھا۔
ایک "باریک" واردات اور بھی ہے۔ نام نہاد بین الاقوامی عدالت برائے انصاف ICCنے پوٹن کے خلاف یوکرین پر حملے کے بعد وہاں کے بچوں کو گرفتاراور زبردستی جلاوطنی کے الزام میں"وارنٹ" جاری کررکھے ہیں۔ دنیا بھر کے انسانی حقوق کا خودساختہ چمپئن ہوا امریکہ آئی سی سی کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ نیتن یاہو کے خلاف جنوبی افریقہ کی فریاد پر جنگی جرائم کی وجہ سے آئے فیصلوں کی بھی اس نے پرواہ نہیں کی۔ وہ آئی سی سی کارکن ہی نہیں ہے۔ امریکی سرزمین پر پوٹن کی موجودگی اسے آئی سی سی کے "وارنٹ" سے محفوظ رکھے گی۔
یہ کالم ختم کرتے ہوئے اگرچہ میں اصرار کروں گا کہ پوٹن آئی سی سی کے خوف سے براہ راست امریکہ نہیں جارہا۔ اصل بات امریکہ کوالاسکا کا ماضی یاد دلاتے ہوئے روس کے (فوجی اور تجارتی)حلقہ اثر کواجاگر کرنا ہے۔

