آر یا پار کی جانب بڑھتے معاملات

جس طرز کی سیاست کو میں رپورٹ کرنے کا عادی رہا ہوں اس میں الیکشن کمیشن کسی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کو نااہل قرار دیتا ہے تو وہ عدالتوں سے سٹے لے کر ایوان ہی میں براجمان رہتا ہے۔ مذکورہ تناظر میں اہم ترین مثال ہمیں حالیہ تاریخ میں عمران حکومت کے دوران ملی۔ اس دور میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کو انتخابی "ہیراپھیری" کے الزام میں نااہل قرار دیا گیا تھا۔ وہ مگر عدالتی سٹے کی بدولت سابقہ حکومت کے آخر ی دنوں تک قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے۔
عمران خان کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد انہوں ہی نے "قومی سلامتی" کے خلاف ٹھہراتے ہوئے ردی کی ٹوکری میں پھینک دی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے فیصلے کے خلاف رات گئے سپریم کورٹ کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ اس نے مذکورہ فیصلے پر نظرثانی کے عمل کا آغاز کیا اور بالآخر یہ قرار پایا کہ کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف اگر تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں باقاعدہ جمع ہوجائے تو اسے صرف ایوان میں ہوئی گنتی کے ذریعے منظور یا رد کیا جاسکتا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پر لہٰذا گنتی ہوئی۔
عمران حکومت اس کی بدولت ایوان میں اکثریت ثابت نہ کرپائی۔ وزارت عظمیٰ سے اس بنیاد پر فارغ ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں موجود رہنے کے بجائے تحریک انصاف نے وہاں سے مستعفی ہونے کو ترجیح دی۔ وہ اگر یہ فیصلہ نہ کرتی تو غالباََ قاسم سوری 2018ء میں منتخب ہوئی اسمبلی کے رکن اس کی پانچ سالہ آئینی مدت ختم ہونے تک ہی رہتے۔
فروری2004ء کے بعد سے تاہم ہمارے قوانین میں بے شمار تبدیلیاں متعارف کروائی گئی ہیں۔ آئین کی 26ویں ترمیم نے تو بلکہ آئین میں ایک نیا باب ہی شامل کردیا ہے۔ قومی اسمبلی میں تفصیلی مباحث کے بغیر ہوئی تبدیلیوں کی وجہ سے مجھ سمیت کئی پاکستانی اس بارے میں قعطاََ لاعلم ہیں کہ مختلف ترامیم اور 26ویں ترمیم کے ذریعے پہلے سے موجود قوانین میں کیا تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ اپنی لاعلمی کے باوجود میں یہ جان کر بہت حیران ہوا کہ الیکشن کمیشن نے 9مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزام میں سینیٹر اعجاز چودھری کے علاوہ قومی اسمبلی کے رکن احمد چٹھہ اور پنجاب اسمبلی کے رکن اور اس ہاؤس میں قائد حزب اختلاف احمد بھچر کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے سزائیں سنانے کے فوراََ بعد ہی ان ایوانوں کی رکنیت سے محروم کردیا جن کے وہ رکن تھے۔
میری دانست میں سنگین ترین جرم میں بھی نچلی عدالت سے سزا سنائے جانے کے باوجود ملزم کو اس کے خلاف اپیل کا حق میسر ہوتا ہے۔ عدالت سے اپنی سزا پر نظرثانی کی درخواست سنے جانے کے بعد وہ سٹے آرڈر کی بدولت اس ایوان میں اپنی نشست پر براجمان رہ سکتا ہے جس کا وہ رکن تھا(ہے)۔ سینیٹر اعجاز چودھری لاہور کوٹ لکھپت جیل میں ہیں۔ احمد چٹھہ اور احمد خان بھچر کی "روپوشی" کی خبریں گردش میں ہیں۔
مجھے خبر نہیں کہ "روپوشی" کے دوران وہ عدالتوں سے اپنے لئے ریلیف کی کوشش کس انداز میں سرانجام دیں گے۔ تحریک انصاف کے حامی اگرچہ تواتر سے یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایک مختلف معاملے کی وجہ سے الیکشن کمیشن سے نااہل ہوئے جمشید دستی بارہا کاوشوں کے باوجود لاہور ہائی کورٹ میں اپنی نااہلی کے خلاف اپیل کو باقاعدہ سماعت کی درخواست سمیت اب تک جمع ہی نہیں کرواسکے ہیں۔ ان کی "نااہلی" کی وجہ سے خالی ہوئی نشست پر انتخابی شیڈیول کا دریں اثناء اعلان ہوچکا ہے۔
سینیٹر اعجاز چودھری، احمدچٹھہ اور احمد بھچر کی الیکشن کمیشن کے ہاتھوں نااہلی کے بعد پنجاب اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن کے مابین باقاعدہ دھینگامشتی ہوئی۔ قائم مقام سپیکر کو ماحول پرامن رکھنے کے لئے کارروائی معطل کرنے کے علاوہ سکیورٹی سٹاف سے بھی مدد لینا پڑی۔ اپوزیشن کے کم از کم دو اراکین پنجاب اسمبلی کو بطور سزا چند دنوں کے لئے پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے۔ قصہ مختصر اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں حکومتی اور اپوزیشن بینچ مسلسل "تخت یا تختہ" والے معرکوں کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہونے کی وجہ سے میرا مشاہدہ خبردار کرتا ہے کہ "تخت یا تختہ" کے عالم میں ہوئے "ضمنی انتخابات" سیاسی فضا میں ہلچل مچاتے ہیں۔ اپنی صحافت کی ابتداء میں لاہور کے حلقہ نمبر 6 سے صوبائی اسمبلی کا ضمنی انتخاب دیکھا تھا۔ کسی زمانے میں ذوالفقار علی بھٹو کے قریب ترین تصور ہوتے غلام مصطفیٰ کھر پیرپگاڑا کی مسلم لیگ میں شامل ہوکر اس انتخاب میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کے مقابل پیپلز پارٹی کے تقریباََ گمنام کارکن شیر علی بھٹی کھڑے تھے۔
مذکورہ الیکشن کی انتخابی مہم کے دوران لاہور کے وسن پورہ اور شادباغ کے درمیان قائم ایک پارک میں جلسہ ہوا۔ وہاں ایک "سانپ" برآمد ہوا۔ اسے پکر کر مصطفیٰ کھر کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے اسے مٹھی میں پکڑکر ماردیا۔ سانپ کو اپنے سابق قائد سے تشبیہ بھی دی۔ اس کے بعد جلسے میں بھگدڑ مچ گئی۔ شیر علی بھٹی الیکشن تو جیت گئے مگر پیپلز پارٹی کے لاہور پر کامل کنٹرول کا بھرم ٹوٹ گیا۔ اس جلسے کے تقریباََ دو سال بعد جنرل ضیاء کا 5جولائی 1977ء والا مارشل لاء بھی لگ گیا۔
1988ء میں جنرل ضیاء کی فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد انتخاب ہوئے تو بھٹو کی بیٹی وزیر اعظم بن گئیں۔ انہیں اقتدار سنبھالتے ہی لاہور سے قومی اسمبلی کے ایک حلقے میں ضمنی الیکشن میں حصہ لینا پڑا۔ پیپلز پارٹی کے بھاری بھر کم وزراء کی اکثریت لاہور میں موجود رہ کر اس انتخاب میں جیت یقینی بناتی رہی۔ اس کے نامزد کردہ گھرکی صاحب بالآخر جیت بھی گئے۔ لاہور شہر میں سنٹرل پنجاب مگر اس ضمنی انتخاب کے بعد سے اب تک پیپلز پارٹی کیلئے انتخابی اعتبارسے جیتنا مشکل ہورہا ہے۔
عمران حکومت کو اصل دھچکہ بھی ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کی بدولت لگا تھا۔ پنجاب کی موجودہ حکومت کو سوچنا ہوگا کہ میاں اظہر مرحوم کی رحلت کی وجہ سے لاہور سے قومی اسمبلی کی ایک نشست خالی ہوچکی ہے۔ سیاست میں کامل بحالی کے لئے اس کے لئے لازمی ہے کہ صاف، شفاف اور کھلے طریقے سے یہ نشست جیتتی نظر آئے تاکہ فارم 45اور 47کا تنازعہ ختم ہوسکے۔ ابھی اس ایک الیکشن کو ٹھوس انداز سے لڑنے کی تیاری ہی نہیں ہوپائی کہ الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (نون) کو انتہائی جذباتی ماحول میں وزیر آباد اور بھکرکے انتخابی نتائج میں جھونک دیا ہے۔
یاد رہے کہ احمد چٹھہ حامد ناصر چٹھہ کے فرزند ہیں۔ وہ محمد خان جونیجو کے تاحیات وفادار رہے اور ان کی وفات کے بعد نواز شریف کی مخالفت میں بے نظیر حکومت کا ڈٹ کر ساتھ دیا۔ "مقتدر" حلقے بھی ان کے بارے میں معاندانہ محسوس نہیں کرتے۔ فرض کیا اپنے بیٹے کی گرفتاری اور نااہلی کا بدلہ لینے وہ خود خالی ہوئی نشست پر کھڑے ہوئے تو پنجاب حکومت کیلئے بھی ایک "ڈسکہ" ہوسکتا ہے۔ معاملہ آر یا پار کی جانب یقیناََ بڑھ رہا ہے۔

