1.  Home/
  2. Najam Wali Khan/
  3. Hafiz Salman Batton Ki Zaroorat

Hafiz Salman Batton Ki Zaroorat

”حافظ سلمان بٹوں کی ضرورت“

سیاسی تجزیہ نگاروں سے پوچھیں تو آج کی سیاست میں حافظ سلمان بٹوں کی ضرورت ہی نہیں ہے جن کی دبنگ کرشماتی شخصیت بھی ہو، الیکشن جیتنے کا ریکارڈ بھی ہو، اسلامی اور جمہوری نظریہ بھی ہو مگر ان کے پاس مال نہ ہو، کوئی لینڈ کروزر نہ ہو۔ یہ جماعت اسلامی کی ہی مہربانی ہے کہ اس کے مرکزی اور صوبائی عہدیداروں سمیت سب نے ان کا جنازہ پڑھا۔ امیر العظیم، حافظ ادریس، راجہ منور، شیخ انور مرد ہونے کے باوجود کھڑے عورتوں کی طرح آنسو بہاتے رہے ورنہ اکھڑ حافظ سلمان بٹوں کو سیاسی جماعتیں اٹھا کے باہر پھینک دیا کرتی ہیں، بھول جایا کرتی ہیں کیونکہ وہ باہر ہی نہیں بلکہ اپنی پارٹی کے اندر بھی رائے دیتے، اختلاف کرتے ہیں۔ مجھے جماعت اسلامی کے ایک رہنما نے کہا کہ حافظ سلمان بٹ کی خوبی یہ تھی کہ وہ تمام تر اختلافات کے باوجود جماعت کے نظم میں رہے جبکہ دوسری طرف اگر ان لوگوں کی لسٹ بنائی جائے جو جمعیت یا جماعت اسلامی سے بنیادی سیاسی تربیت کے بعدکسی دوسری مقبول سیاسی جماعت کو پیارے ہو گئے تو کالم کے لئے مختص جگہ ختم ہوجائے مگر لسٹ مکمل نہ ہو۔

سعدی کے زمانے میں کپڑوں لتوں کی عزت ہوتی ہو گی مگر اب لینڈ کروزروں اوران کے ساتھ چلنے والے ڈالوں کی ہے کہ جب تک یہ نہ ہوں پتا ہی نہیں چلتا کہ کوئی بڑا لیڈر آ رہا ہے مگر حافظ سلمان بٹ کے بارے یہ سنا کہ انہوں نے وفات بھی کرائے کے مکان میں ہی پائی تو حیران رہ گیا۔ مجھے یہ علم تھا کہ بٹ صاحب اندرون شہر رہا کرتے تھے، وہ جو سنٹرل ماڈل سکول کے ساتھ والی سڑک ہے اس پر ان کا آبائی گھر ہوا کرتا تھا مگر والدکی وفات کے بعد حصوں کی تقسیم ہوئی تو ان کے حصے میں ایک دکان آئی جس کے کرائے سے گزر بسر ہوتی تھی، حافظ صاحب علامہ اقبال ٹاون میں کرائے کے گھر میں آ گئے، بتایا جا رہا ہے کہ یہ مکان شہدا فاونڈیشن کی ملکیت ہے اور وہ اس کا کرایہ دیتے تھے مگر حافظ صاحب کی پرسنالیٹی سے لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ارب پتی نہ سہی تو کروڑ پتی بھی نہیں ہیں۔ خوبصورت کشمیری چہرہ اور جسم پر باوقار لباس، اس پر فلمی ہیرو جیسی شخصیت اور سب سے بڑھ کر دبنگ لہجہ۔ حافظ سلمان بٹ کی آواز اورللکار سے بڑے بڑے بدمعاش اور مافیا لرزتے تھے، دم دبا کے بھاگ جاتے تھے۔ میں بیٹھاسوچ رہا ہوں کہ حافظ صاحب چاہتے تو خود بھی بہت بڑے قبضہ گروپ بن سکتے تھے اور پھر ان کے دو چار قبضے ختم ہوتے تو مقبول قیادتیں ان سے اظہار یکجہتی کرنے کے لئے آتیں۔

ٍآج کے زمانے میں سوال ہوتا ہے کہ ایسی شخصیت کا کیا فائدہ اگر اس سے مال نہ بنایا جائے۔ میں بہت سارے موٹیویشنل سپیکروں کوکہتے ہوئے سنتا ہوں کہ تم غریب پیدا ہوئے تو یہ تمہارا قصور نہیں لیکن اگر تم غریب مرے تو یہ تمہارا قصور ہے مگر دوسری طرف میں نے دیکھا کہ حافظ سلمان بٹ جب اپنے رب سے ملاقات کے لئے جا رہے تھے تو ہر کوئی ان کے اعمال کے اثاثوں کی گواہی دے رہا تھا اور ساتھ مال نہیں صرف اعمال ہی جاتے ہیں۔ کیا حافظ صاحب کی جماعت اسلامی کی قیادت میں اوپر کے درجے پر نہ آنے کی وجہ ان کے پاس مال نہ ہونا تھا یا ان کا ہر دور کے حاوی گروپ سے اختلاف کرنا تھا یہ سوال مجھے طویل عرصے تک کنفیوژ رکھے گا۔ یہ بات نہیں کہ حافظ سلمان بٹ ہر وقت اور ہر جگہ اینگری ینگ مین کی طرح بی ہیو کرتے تھے بلکہ وہ تو یاروں کے یار تھے، عزتیں اورمحبتیں بانٹنے والے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، کہ یہ تین، چار برس پرانی ہی بات ہے، جب میں پاکستان ریلویز میں ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز خدمات سرانجام دے رہا تھا تو پریم یونین کا دفتر، ڈائریکٹوریٹ کے سامنے ہی تھا۔ میں سوچتا ہی رہ گیا کہ پتا کروں حافظ صاحب علالت کے باوجود کس وقت یونین آفس آتے ہیں تاکہ گپ شپ لگ سکے۔ مجھے شدید حیرانی ہوئی جب وہ ایک روز بغیر کسی تکلف کے اچانک میرے پاس دفتر آ گئے۔ اسی طرح ریلوے میں ایک برس پہلے حادثات خوفناک حد تک بڑھے تو سوچا کہ حافظ صاحب کو پروگرام میں بلاوں مگر علم ہوا کہ شوگر کی وجہ سے بینائی بھی متاثر ہو چکی اوراس کی وجہ سے چلنا پھرنا محا ل ہو گیا تو دوسری طرف گردوں کا مرض بھی لاحق ہو چکا مگر اس وقت بھی میری حیرانی کی حد نہ رہی جب شام کے وقت مجھے پیغام ملا کہ ہمارا تعلق ایسا ہے کہ وہ دعوت پر رہ نہیں سکتے اور وہ ضرور آئیں گے اور وہ آئے۔ ایک مرتبہ ہم گپ شپ کر رہے تھے تو بار بار مارشل لا لگنے کی بات پر کہنے لگے کہ ہمارے ملک میں اس وقت تک مارشل لا کا خطرہ موجود رہے گا جب تک ایک ایسا نوجوان موجود ہے جو بطورلفٹین بھرتی ہوا اور اس نے مارشل لا کامزا چکھا، اب وہ مزا اس کے ساتھ پوری ملازمت اورپوری زندگی رہے گالہٰذا ہم پر فرض ہے کہ ہم سب اس وقت تک جمہوریت کی حفاظت کریں اورغیر معمولی حفاظت کریں۔

یہ بات میرے ذہن سے نکلتی ہی نہیں کہ حافظ صاحب عشروں سے ریلوے پریم یونین کے صدر رہے، تین مرتبہ رکن قومی اسمبلی رہے، فٹ بال ایسوسی ایشن کے سیکرٹری رہے اور یہ تینوں مقام ایسے ہیں کہ جہاں تھوڑی سی کھدائی سے سونے کے ذخائر نکل آتے ہیں مگر کیا یہ حافظ سلمان بٹ کی نااہلی تھی کہ وہ کھدائی نہیں کر سکے جبکہ ان کے ساتھ والے بہت سارے لہریں گننے پر بھی لگائے گئے تو وہاں سے بھی ہیرے موتی جمع کر کے لائے شائد پیسہ کمانا ایک مختلف نوعیت کا کام ہے حالانکہ عزت اور شہرت کے ساتھ بھی کمانا ہی آتا ہے جو انہوں نے بہت کمائی۔ مجھے حافظ سلمان بٹ کی باتیں کرتے ہوئے ایپکا کے ایک پرانے صدر یاد آ گئے جو کئی برس پہلے نیوز نائیٹ، میں شرکت کے لئے جیل روڈ پرسٹوڈیو میں سائیکل پر آیا کرتے تھے اور پھر یوں ہوا کہ وہ ایپکا کے صدر نہیں رہے، نام ان کا غالباً افضل ہوا کرتا تھا اور پھر ایپکا میں دوسرے لوگ افضل ہو گئے جن کے پاس مال و دولت کی فضیلت تھی۔ میں نے ایک دو دوستوں سے افضل صاحب کے بارے پوچھا کہ وہ کہاں گئے تو دوستوں نے افضل صاحب کی بہت ساری خامیاں گنوا دیں۔ مجھے احساس ہوا کہ اگر آپ کے پاس دولت نہ ہو تو آپ کی خامیاں بہت نمایاں ہوجاتی ہیں۔

مجھے لگتا ہے کہ حافظ سلمان بٹ کی بھی بہت ساری خوبیاں دب کر رہ گئی تھیں جو کروڑ یا ارب پتی بن جانے کی صورت میں کھل کر سامنے آجاتیں۔ دوسرے ان کی اپنی پارٹی اورنظرئیے سے وفاداری کی خامی بھی انہیں لے ڈوبی حالانکہ وہ کسی دوسری پارٹی میں بہتر جگہ بنا سکتے تھے۔ وہ تو ایسے اول العزم نکلے کہ اپنے بیٹے بھی اسی جماعت اسلامی کے حوالے کر دئیے جس سے ان کے اصولی اختلافات بھی رہے اور جس نے قسم کھا رکھی ہے کہ کبھی پاپولر نہیں ہونا۔ حافظ صاحب کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ ایک سیاسی ذہن کے آدمی تھے اور ایسے لوگوں کو نیک اور اچھے لوگوں کی جماعت میں اچھو ت اورناپاک سمجھاجاتاہے اور اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو اب تک نکلتا آیا ہے۔ حافظ صاحب سے پیپلزپارٹی والے بوجوہ خار کھاتے تھے اور اب تک کھاتے ہیں مگروہ بہرحال لاہور کے سیاسی کارکنوں کی آن، بان اور شان تھے۔ پاکستان کاسیاسی دل لاہور ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ لاہور اپنے سیاسی دل سے محروم ہو گیا ہے۔ میں نے ان کے جنازے میں سیاسی رہنماوں، کارکنوں اور ریل مزدوروں کو اس بڑی تعداد میں دیکھا کہ منصورہ کا میدان ہی نہیں جامع مسجد اور سڑکیں بھی کھچا کھچ بھری ہوئی تھیں اور میں جماعت اسلامی کے پرچم میں لپٹے جسم کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ میرے وطن کو بہت سارے حافظ سلمان بٹوں کی ضرورت ہے۔

Check Also

Chand Baatein Apne Publishers Ke Baare Mein

By Ali Akbar Natiq