بجلی کا گردشی قرضہ ، ایک معاشی عفریت
پاکستان کی اقتصادی اصلاحات کی کوئی بھی بحث، بجلی کے شعبے کے گردشی قرضہ اور اس کے ملک کے مالی استحکام پرمضر اثرات کے ذکرکے بغیرمکمل نہیں ہو سکتی۔ ماضی میں اورحال میں اقتصادی اصلاحات یا استحکام کے پروگرام، چاہے وہ مقامی ہوں یا عالمی مالیاتی اداروں کے تجویزکردہ، گردشی قرضے سے نمٹنے کے منصوبے ان میں نظرآتے ہیں۔ البتہ کسی کامیابی کا دعویٰ ان منصوبوں کے بارے میں نہیں ملتا۔
اسی طرح موجودہ آئی ایم ایف کے فنڈ پروگرام کے پہلے سہ ماہی جائزے میں بھی گردشی قرضوں کا ذکر کیا گیا:
"بجلی کے شعبے میں اصلاحات کی حکمت عملی کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے تاکہ اس شعبے کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کیا جائے اور گردشی قرضوں میں اضافوں کو روکا جائے"
(8 نومبر2019)
مگر یہ کوئی نئی بات نہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے 2013کی مالی امداد کے آغاز سے پہلے ستمبر 2013کی اسٹاف رپورٹ میں بھی بڑھتے ہوئے گردشی قرضے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ 2013 سے 2016تک کے آئی ایم ایف پروگرام میں گردشی قرضے کو قابل قبول حد میں رکھنے کے اہداف دیے گئے۔ ان اہداف کو کس حد تک پورا کیا جا سکا، یہ دیکھنے سے پہلے گردشی قرضے کی حقیقت کو جاننا ضروری ہے۔
گردشی قرضہ، بجلی کے شعبے کی جمع شدہ ان عدم ادائیگیوں کا میزان، بہت سے ایسے بجلی کے صارفین کی طرف سے جو مسلسل نادہندگی کے باوجود بجلی کی سہولت سے مستفید ہو رہے ہیں، جس کی کچھ سماجی اور کچھ سیاسی وجوہات ہیں۔ اس میں ایک بڑا حصہ بجلی کی چوریوں اور محکمہ جاتی خرابیوں کا بھی ہے۔
جس کے نتیجے (IPPs) میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں بجلی بنانے والے اداروں، جن میں واپڈا، ایٹمی بجلی گھراور نجی بجلی گھروں کو اور ان کو ایندھن فراہم کرنے والے اداروں جن میں پی ایس او اور گیس کمپنیاں شامل ہیں، کو بر وقت ادائیگیاں نہیں کرتیں۔ بجلی سے وابستہ کمپنیوں اور اداروں میں گردش کرتے قرضوں اور عدم ادائیگیوں کے اس سیلاب کو ہم گردشی قرضہ کے نام سے جانتے ہیں جو نہ صرف ان کمپنیوں اور اداروں کو مالی بحران میں مبتلا رکھتا ہے بلکہ ملکی معیشت کے لیے بھی مسلسل عدم استحکام کا باعث بنا رہتا ہے۔ اسوقت گردشی قرضہ تقریباً اٹھارہ سو ارب روپے کے لگ بھگ ہے جو کل قومی آمدنی کا چھ فیصد اور بجٹ کا تقریبا پچیس فیصد ہے۔
ہر بار جب ہم اس اقتصادی بیماری کے علاج کے لیے مختلف نسخے سنتے ہیں۔ معیشت دانوں کی ایک بڑی اکثریت کو اس بات کا یقین ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل نجکاری ہے۔ سرکاری بجلی گھروں اور تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کے ساتھ ہی بجٹ پر سے یہ بوجھ ختم ہو جائے گا۔ ان تجزیہ کاروں کو کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی کی مثال پر غور کرنا ہو گا جس نے نجکاری کے چودہ سال بعد بھی گزشتہ سال (2018-19) تقریبا نوے (90) ارب روپے کی سبسڈی کا وفاقی بجٹ سے دعویٰ کیا ہے جو کہ اسے حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے دینی پڑیں۔ اس کا خسارہ (لائن لاسز اور عدم وصولیاں ) اب بھی چھ سرکاری تقسیم کار کمپنیوں سے ابھی تک زیادہ ہے۔
تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد اس بات پرمتفق ہے کہ نجی بجلی گھروں کو 1993اور اس کے بعد کی پالیسیوں کے تحت دی جانے والے بجلی کے بھاری نرخ گردشی قرضوں کی ایک اہم وجہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان پر نظر ثانی کی جائے۔
اکثر بجلی کے نجی اور سرکاری ادارے نیپرا پر ٹیرف کی غیرمناسب اور تاخیر سے فیصلوں کی ذمے داری عاید کرتے ہیں اور اس کو گردشی قرضوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف نیپرا اپنی رپورٹوں میں وقتاً فوقتاً بجلی کے مختلف اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتی رہتی ہے۔ قانونی طور پر نیپرا بجلی کے شعبے میں بہتری لانے کا ذمے دار اور بااختیار ادارہ ہے۔
ہم نے پچھلی دو دہائیوں میں یہ دیکھا کہ بجلی کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے درجنوں پروگرام عالمی مالیاتی اداروں نے شروع کیے جن کو آئی ایم ایف کے پروگراموں کے ساتھ نتھی بھی کیا گیا۔ جن کے تحت بجلی کے شعبے کی بہتری کے لیے دیدہ زیب اصلاحاتی پیکیجوں پر غیر ملکی اور مقامی ماہرین/ کنسلٹنٹس کے زیرنگرانی عمل درآمد کرنے کی کاوشیں کی گئیں مگر اس شعبے میں بہتری کی بجائے ابتری ہی آتی گئی۔
اگر مندرجہ بالا کہانی پر انحصار کریں تو گردشی قرضہ ایک ناقابل حل معمہ لگتا ہے جس کے لیے ایک طویل المیعاد اور پیچیدہ اصلاحاتی پروگرام کی ضرورت ہے اور تب تک ہماری معیشت اس مشکل سے اسی طرح دوچار رہے گی۔ اس طرح کی سوچ سے ہم بجلی کے شعبے کے ذمے داروں کو ایک راہ فرار مہیا کرتے ہیں۔
گردشی قرضے کی حالیہ تاریخ سے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ماضی قریب میں اس کو قابو میں رکھنے میں کافی حد تک کامیابی حاصل کی گئی جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب تک طویل اصلاحات پر کام کیا جائے اور کامیابی حاصل کی جائے، اس دوران گردشی قرضے کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔
مندرجہ بالا دو ملتے جلتے آئی ایم ایف کے تجزیوں (2013 اور 2019) سے بالکل مختلف، پاکستان کے بجلی کے شعبے کی کارکردگی کے بارے میں اس طرح کی مثبت رپورٹیں بھی آئی تھی جن میں کہا گیا:" بجلی کے شعبے میں بہتری آئی ہے۔ بلیک آوٹ کم ہوئے ہیں، لائن لاسز کم ہوئے ہیں، وصولیاں بڑھ گئی ہیں اور بجٹ سے سبسڈی کم ہو گئی ہیں "
" بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر ہونے سے اور تیل کی قیمت کم ہونے سے، گردشی قرضہ پر قابو پالیا گیا ہے۔ بجلی کے شعبے میں دیے گے اہداف کو ایک بڑے مارجن کے ساتھ حاصل کر لیا گیا"
" بجلی کے شعبے کے ذمے داروں کا تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ لائق تحسین ہے"
( 10 جون 2016، آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت گیارہویں جائزے سے اقتباسات)
آئی ایم ایف کے اس مثبت تجزیے کی وجہ ہر سال گردشی قرضے کے زوال کا رجحان تھا جو مسلسل تین سال تک برقرار رکھا گیا۔ ایسا تمام سرکاری تقسیم کار کمپنیوں اور بجلی کے کارخانوں کی کارکردگی میں مسلسل بہتری کے نتیجے میں ہوا۔ مجموعی خسارے (لائن لاسز اور عدم وصولیوں میں ) میں پانچ فیصد کی کمی ہوئی اور گردشی قرضے میں سو سے ڈیڑھ سو ارب روپے سالانہ کمی ہوئی جس سے عالمی مالیاتی اداروں میں اعتماد پیدا ہوا کہ پاکستان اس مسئلے سے باہر آ سکتا ہے۔
جب ہم 2012سے 2019 تک کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ 2014 سے2017 تک کے تین سالوں میں گردشی قرضے کو ایک حد میں رکھنے میں مسلسل کامیابی ہوئی۔ اس جائزے سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کی بجلی کے شعبے کی کارکردگی کو بہتر بنا کر گردشی قرضے کو قابو میں رکھنا نا ممکن نہیں اور اب بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔
ان سالوں (2014سے 2017) کے دوران جن باتوں کا اہتمام کیا گیا ان میں بجلی کی کمپنیوں کی کارکردگی کا مسلسل تجزیہ اور پیشہ ورانہ نگرانی اور ان کی مالی کارکردگی پر خاص نظر، غلط بلنگ اور کرپشن کی حوصلہ شکنی کے لے سستا مگر کارآمد(موبائل بلنگ) کا طریقہ متعارف کرایا گیا، فیلڈ میں متحرک ویجیلینس نظام اور ماہانہ کی کارکردگی کی بنیاد پر جزا اور سزا کا نظام، شامل ہیں۔ نتائج کو تمام بین الاقوامی اداروں نے سراہا۔
بنیادی نقطہ یہ ہے کہ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ کوئی ناقابل تسخیر مسئلہ نہیں جسے ہم قسمت کا لکھا سمجھ کراپنے قیمتی اور محدود مالی وسائل کا تیاپانچہ کرنے کی کھلی چھوٹ دے دیں۔ بلاشبہ ہم کسی بھی قسم کے اصلاحاتی پیکیج پر اپنا وقت صرف کریں مگر اس دوران گردشی قرضے کو عفریت بننے نہیں دیا جانا چاہیے۔
(مضمون نگار سابق وفاقی سیکریٹری برائے خزانہ، پانی و بجلی، تجارت اور ہاؤسنگ کی حیثیت میں خدمات انجام دے چکے ہیں )