معیار زندگی نہیں، زندگی چاہیے
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے تین سال مکمل ہونے پر کہا ہے کہ غریب طبقات کا معیار زندگی بلند کرنا، ان کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان غریب طبقات کو ماضی میں نظرانداز کیا گیا۔ وزیر اعظم نے اپنے ایک ٹویٹ میں کباڑ جمع کرنے والے ایک بچے کی تصویر شیئر کی ہے جس کی سائیکل پر قومی پرچم لہرا رہا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس میں شایع شدہ وزیر اعظم کی خبرکے اوپر لاہور کی ایک خبر میں کہا گیا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کے سرکاری نرخ بڑھ گئے۔ سبزیاں اور پھل چالیس فیصد تک مہنگے ہوئے، لاہور کے ماڈل بازاروں میں اشیا مہنگی، عام بازاروں میں وہی اشیا 25 سے 40 فیصد اضافے سے فروخت ہو رہی ہیں۔
متعدد سبزیاں سنچریاں مکمل کرچکی ہیں۔ ایکسپریس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نرخ بڑھنے سے شہری سخت پریشان ہیں اور اشیائے ضرورت کی بڑھتی قیمتیں ان کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں۔ ایکسپریس کی پشاورکی ایک رپورٹ کے مطابق ادویہ کی قیمتوں میں سو فیصد اضافے سے مریضوں کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ بے جا ٹیکسوں کے باعث دواؤں کی قیمتیں بڑھی ہیں اور جعلی ادویات پر حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
جب کہ مسابقتی کمیشن نے ایکٹ کی خلاف ورزی پر شوگر ملز ایسوسی ایشن اور ممبر ملز کو چینی مہنگی کرنے پر چوالیس ارب روپے جرمانہ کیا ہے جو دو ماہ میں ادا کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ حکومت شوگر ملز مالکان کے گٹھ جوڑ پر جرمانے کر رہی ہے اور ملک میں چینی سو روپے سے ایک سو دس روپے مہنگی ہوگئی ہے۔
کراچی کی انتظامیہ دو سالوں سے دودھ کی قیمت پر بھی عمل نہیں کراسکی۔ کراچی انتظامیہ کا دودھ کا مقررہ سرکاری نرخ 94 روپے لیٹر سے ایک سو تیس روپے سے ایک سو چالیس روپے لیٹر اور دہی دو سو روپے کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔
سبزیاں، پھل، گھی، آئل، چاول، آٹا و دیگر اشیائے ضرورت کو مسلسل پر لگے ہوئے ہیں اور انڈوں نے موجودہ حکومت میں مہنگائی کا پہلی بار ریکارڈ دو سال سے قائم کر رکھا ہے اورکوئی بھی چیز اب غریب تو کیا متوسط طبقے کی قوت خرید میں نہیں رہی ہے۔ تین سالوں سے حکومت خود بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر مہنگائی بڑھا رہی ہے اور 18 ویں ترمیم کے تحت مہنگائی کنٹرول کرنے کی ذمے دار پنجاب وکے پی کے کی پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتیں اور سندھ میں پی پی کی حکومت ستو پی کر سو رہی ہیں۔
سندھ حکومت کا سونا تو سمجھ میں آتا ہے مگر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں کا بھی مہنگائی پر خاموش رہنا سمجھ سے بالاتر ہے اور وفاقی حکومت بھی اپنی صوبائی حکومتوں سے مہنگائی کنٹرول کرانے میں لگتا ہے، کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتی بلکہ خود اس کا زور قیمتیں بڑھانے پر ہے۔
اپنی حکومت کے تین سالوں میں وزیر اعظم نے غریب طبقات کا معیار زندگی بلند کرنے کو اپنی اولین ترجیحات میں اب شامل کیا ہے جب کہ ملک کے غریب غربت میں خود کشیاں کر رہے ہیں کیونکہ وفاقی حکومت کی پالیسی غریب ختم کرنے پر مرکوز ہے تاکہ نہ غریب باقی بچیں گے نہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر غریبوں کی مہنگائی پر دی جانے والی دہائیاں منظر عام پر آئیں گی جس کا وزیر اعظم کوتو کوئی علم نہیں اور حکومت اس بات پر مطمئن ہے کہ اس کے تین سالوں میں کوئی بھوکا نہ سوئے پروگرام کے تحت ملک کے تقریباً بیس کروڑ غریبوں میں سے اب تک سات لاکھ 4269 مستحقین کو دو وقت مفت کھانا کھلایا جا رہا ہے۔
مہنگائی و غربت ختم کرنے کی دعویدار تبدیلی حکومت نے آتے ہی مہنگائی بڑھانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ رک نہیں رہا بلکہ مہنگائی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ جس کو بنیاد بنا کر عمران خان سابق حکومتوں پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے وہ مہنگائی کنٹرول کرنے میں پانچوں حکومتیں مکمل ناکام نہ جانے کیوں ہیں اس پر عوام حیران اور روزانہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ حکومتوں سے تنگ لوگ مسجدوں میں اپنی تعداد بڑھا رہے ہیں کیونکہ انھیں اب اللہ ہی کا سہارا درکار ہے اور وہ جب مساجد سے باہر آتے ہیں تو بڑی مساجد کے تمام دروازوں پر جوان، بوڑھے، خواتین اپنے بھوکے رہنے، دواؤں کی ضرورت کے ڈاکٹری پرچے لیے فریاد کرتے نظر آتے ہیں۔
کوئی راشن مانگتا ہے کوئی دوائی ان کی حالت زار اور بے بسی نمازی نہیں صرف حکومت دور کرسکتی ہے، مگر حکومت کو غریب طبقات کا معیار زندگی بلند کرنے کی بجائے سنجیدگی سے غریبوں کو درپیش اہم مسائل مہنگائی و بے روزگاری پر فوری توجہ دینی ہوگی۔