مویشی منڈی ، ٹیکس میں اضافہ کیوں؟
کراچی کی سب سے بڑی مویشیوں کی منڈی میں اس سال قربانی کے جانور پر ٹیکسوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ مویشی منڈی میں ملک بھر سے جانوروں کی آمد جاری ہے۔
منڈی میں جانور خریداری کے منتظر ہیں اور منڈی میں مویشیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے مگر خریداروں کی تعداد نہیں بڑھ رہی۔ منڈی کے وی آئی پی ٹینٹوں میں فربہ مگر مہنگے جانور بھی حسب سابق لائے گئے ہیں مگر وی آئی پی ٹینٹوں میں جانوروں کو دیکھنے والے شوقین افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اور خریدنے والے امیروں کی تعداد کم۔ اور وہ مخصوص اوقات میں اپنے گارڈوں کے پہرے میں آتے ہیں۔
قیمتی اور فربہ جانور منڈی میں لائے بغیر اب فارموں پر ہی فروخت ہونے لگے ہیں جہاں امیر خریدار خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اور فارم مالکان مویشی منڈی کے اضافی اخراجات سے بھی بچ جاتے ہیں۔ ایشیا کی سب سے بڑی منڈی سرکاری ادارے کی نگرانی اور اس کے مقررہ قواعد کے مطابق لگائی جاتی ہے۔
منڈی میں ملک بھر سے مویشی مالکان اپنے مویشی لاتے ہیں۔ منڈی میں مویشی کھڑے کرنے کی جگہ مہنگے داموں حاصل کرتے ہیں مالکان مویشی ٹرکوں اور دیگر نجی گاڑیوں کو منہ مانگا کرایہ دے کر کراچی کے لیے نکلتے ہیں تو انھیں جگہ جگہ علاقہ پولیس کو نذرانہ دینا پڑتا ہے اور نہ دینے پر پولیس انھیں مختلف طریقوں سے پریشان کرتی ہے۔ پولیس اور سرکاری اداروں کے ہاتھوں پریشانی سے محفوظ رہنے کا واحد آسان طریقہ رشوت ہے۔
جگہ جگہ سرکاری ٹولز پر ٹیکس اور رشوتیں دے کر مویشی مالکان منڈی پہنچتے ہیں تو انھیں ہر سال پہلے سے زیادہ رقم ادا کرکے داخلہ ملتا ہے۔ بلدیاتی ادارے بھی اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ ٹریفک پولیس مویشی لانے والوں سے اپنا حصہ لیے بغیر انھیں آگے بڑھنے نہیں دیتی، اس طرح مویشی لانے والے یہ لوگ کراچی میں مہنگے داموں فروخت کے جانور لے کر آتے ہیں۔ مویشی منڈی میں مویشی کھڑے کرنے کی جگہ مہنگے داموں حاصل کرکے جانوروں کے بجائے سخت گرمی میں دھوپ سے خود کو بچانے کے لیے شامیانے مہنگے کرائے پر لیتے ہیں جہاں روشنی اور پنکھے کے لیے مہنگی بجلی، جانوروں کے لیے گھاس، دانہ اور پانی مذکورہ ٹھیکے داروں سے ان کے منہ مانگے داموں اور کرائے پر حاصل کرتے ہیں۔
مویشی منڈی میں ہر سہولت کی فراہمی کے ٹھیکے منڈی انتظامیہ اپنی مرضی سے دیتی ہے جس کے بعد ٹھیکیدار بھی اپنی مرضی کے نرخوں پر سہولتیں فروخت کرتے ہیں جس کی انھیں مکمل آزادی ہوتی ہے اور ان کی لوٹ کھسوٹ پر منڈی کی انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ منڈی میں مویشی مالکان اور آنے والوں کے لیے عارضی ہوٹل، کھانے پینے اور جانوروں کی آرائش و دیگر اسٹال بھی پہلے سے زیادہ نرخوں پر ملتے ہیں تو وہ بھی گاہکوں سے منہ مانگے نرخ وصول کرتے ہیں۔
جو سرکاری ادارہ مویشی منڈی لگاتا ہے وہ زمین اس کی ہو نہ ہو وہ ہر ٹھیکہ ماضی کے برعکس مزید مہنگا دیتا ہے اور آنے والوں کو کوئی سہولت مفت یا رعایت سے نہیں دیتا کیونکہ اس کا سال کا کمائی کا یہی سیزن ہوتا ہے جہاں اس کی کوئی رقم خرچ نہیں ہوتی۔ ہر کام کے ٹھیکے دے کر سنت ابراہیمی کو سرکاری کمائی کا ذریعہ بنانے والوں کو یہ احساس کبھی نہیں ہوا کہ مویشی قربان کرنا شوق نہیں سنت ابراہیمی ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے انفرادی قربانی کم ہو رہی ہے اور لوگ مجبوری میں اجتماعی قربانیوں میں زیادہ حصہ لینے لگے ہیں۔
اجتماعی قربانی بڑے دینی مدرسوں کے علاوہ بعض مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی سالوں سے کر رہی ہیں جو خود ہی ملک بھر سے جانور اپنے اداروں میں لا کر ضرورت مندوں کو حصے فروخت کرتی ہیں اور وقف قربانی بھی کی جاتی ہے جو حصوں سے کم نرخوں پر ہوتی ہے جس میں گوشت نہیں دینا پڑتا۔
مویشی منڈی لگانے والے سرکاری ادارے کی کوئی اجتماعی قربانی نہیں ہوتی جب کہ دینی ادارے اور مدارس مختلف نرخوں پر مویشیوں کے حساب سے حصے فروخت کرتے ہیں جو لوگوں کو سستے پڑتے ہیں۔ مویشی منڈی میں جانور مہنگے اور شہروں میں پولیس اور بلدیاتی اداروں کی ملی بھگت سے فروخت ہونے والے جانور سستے ہوتے ہیں اور شہریوں کو سہولت بھی ملتی ہے جو سرکاری اداروں کو پسند نہیں اس لیے وہ آبادیوں میں جانور فروخت کرنے پر سرکاری پابندی لگوا دیتے ہیں جو ان کی عوام دشمنی ہوتی ہے اور دوسروں کا مفاد انھیں پسند نہیں کیونکہ ان کے لیے مویشی منڈی کمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔
مویشی منڈی کو میلہ سمجھنے والے سنت ابراہیمی کو بھی کمائی کا ذریعہ بنائے بیٹھے ہیں اور ہر سال ٹھیکوں کی رقم بڑھا کر جانور مہنگے کرا رہے ہیں انھیں صرف اپنی کمائی سے غرض ہے۔ قربانی کے خواہش مندوں کا انھیں کوئی احساس نہیں جس کی وجہ سے قربانی اب متوسط طبقہ کے لیے بھی آسان نہیں رہی۔