1.  Home/
  2. Muhammad Saeed Araeen/
  3. Khud Se Moahida Karen

Khud Se Moahida Karen

خود سے معاہدہ کریں

وزیر اعظم عمران خان نے تین سال بعد اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں گے، یہ کسی وزیر اعظم کا اپنی ماتحت کابینہ کے ساتھ دنیا میں منفرد معاہدہ ہے۔ وزرا کی کارکردگی معاہدوں پر دستخطوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہم اگلا الیکشن کارکردگی پر جیتیں گے۔

انھوں نے اعتراف کیا کہ آیندہ انتخابات میں اصل معرکہ پنجاب میں ہوگا اور وہاں ہم اپنے اتحادیوں سے مل کر آیندہ بھی کامیابی حاصل کریں گے۔ وزیر اعظم عمران خان سے قبل پاکستان میں وزیر اعظم اور ان کی کابینہ میں کوئی ایسا معاہدہ ماضی میں ہوا نہ کہیں دنیا میں سنا۔ دیکھا تو یہ گیا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی اگر وزیر اعظم اپنی کابینہ کی مجموعی یا انفرادی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوں تو ذمے داری قبول کرکے کابینہ ختم کرنے کے لیے خود بھی مستعفی ہو جاتے ہیں یا وزیر برطرف کردیے جاتے ہیں۔

وزیر اعظم بلاناغہ ہر منگل کو اپنی تقریباً 57 رکنی کابینہ کا اجلاس منعقد کرتے ہیں۔ تین سالوں میں انھوں نے کبھی کسی وزیر کو اس کی خراب کارکردگی پر سزا دی نہ خود برطرف کیا۔ یہ ضرور دیکھا گیا کہ خراب کارکردگی اور شکایتوں پر ہٹائے گئے وزیر کو اپنی پارٹی میں مرکزی عہدہ دے دیا۔ وزیر اعظم نے اپنی کابینہ میں رد و بدل کا بھی ریکارڈ قائم کیا ہے حکومتی پبلسٹی کے لیے سب سے زیادہ پریس ترجمان مقرر کیے۔

وزیر اطلاعات کا عہدہ ایک وزیر سے واپس لے کر دو مزید تجربے کیے اور پھر پہلے والے وزیر واپس آگئے۔ پنجاب میں بھی یہی ہوا۔ متعدد وزیر خزانہ تبدیل ہوئے۔ کئی وزیروں کی بار بار وزارت بدلی جائے تو وہ کارکردگی کیسے دکھا سکتے ہیں۔ کارکردگی نہ دکھانے والوں کی سزا برطرفی ہوتی ہے دوسری وزارت دینا سزا نہیں اسے پھر نوازنا ہوتا ہے۔

عمران خان ملک کے واحد سیاستدان ہیں جنھیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے میڈیا نے جتنی زیادہ بلکہ گھنٹوں لائیو کوریج دی اتنی ماضی میں بھٹو سمیت کسی کو نہیں ملی۔

وزیر اعظم بن کر انھیں میڈیا کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا مگر میڈیا کی توقعات کے بالکل برعکس ہوا پھر بھی انھیں شکایت بھی میڈیا سے ہے کہ میڈیا ان کے متعلق فیک نیوز چلا رہا ہے اور انھوں نے میڈیا کو جتنی آزادی دی ہے اتنی مغربی دنیا میں بھی نہیں ہے۔ میڈیا کے 70 فیصد پروگرام اور خبریں ہمارے خلاف چلائی جا رہی ہیں جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے میڈیا پر حکومتی سنسر اتنا ہے کہ جو ماضی میں کسی بھی جمہوری دور میں نہیں رہا۔ ملک میں میڈیا بالکل آزاد نہیں بلکہ نواز شریف حکومت میں عمران خان کے دھرنوں کے دنوں میں تھا۔

لگتا ہے حکمران قیادت کو میڈیا سے متعلق غلط رپورٹیں دی جا رہی ہیں اور ان سے حقائق چھپائے جا رہے ہیں اسی لیے وہ کہہ رہی ہے کہ آزاد عدلیہ اور میڈیا سے اسے کوئی مسئلہ نہیں اگر ایسا ہی ہے تو دونوں کے خلاف آزاد رہنے پر حکومتی کارروائیاں بند کیوں نہیں ہو رہی ہیں؟

تحریک انصاف کی قیادت کو حکومت میں آنے سے قبل کے تمام اعلانات اور دعوے ضرور یاد رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ میڈیا تو انھیں وہی یاد دلا رہا ہے جو وہ بھول چکے ہیں۔ ان کی یادداشت کمزور نہیں بلکہ وہ خوشامدیوں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ حکمران قیادت کو میڈیا سے شکوہ کرنے کے بجائے سوچنا چاہیے کہ یہ وہی میڈیا ہے جس نے اس کے لیے اقتدار میں آنے کی راہ ہموارکی تھی اور وہی میڈیا اب اس کی حکومت میں اذیت سے دوچار ہے۔ تحریک انصاف کے ماضی کے حامی اینکر اب اس کے خلاف کیوں ہوئے یہ تحریک انصاف کی قیادت کے سوچنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ ماضی میں میڈیا پر ایسا وقت جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں آیا تھا۔

ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کو زیادہ ووٹ ملنا اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام ابھی ان سے مکمل مایوس نہیں ہوئے ہیں اور اب بھی عمران خان سے اچھی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں اس لیے اب بھی وقت ہے کہ وزیر اعظم اپنے وزیروں سے ان کی کارکردگی دکھانے کا معاہدہ کرنے کے بجائے اب خود سے اپنا معاہدہ کریں کیونکہ آیندہ الیکشن میں انھوں نے عوام کے پاس جانا ہے۔ وہ سوچیں کہ پی ٹی آئی کے بانی ارکان انھیں کیوں چھوڑ گئے تھے جس کے بعد سے حکمران قیادت خوشامدیوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔

وزیر اعظم بننے کے 3 سالوں کے بعد حکمران خود سے معاہدہ کریں کہ وہ اپنے ماضی کے اعلانات اور دعوؤں پر عمل کریں گے اور اب سیاسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر ناقص کارکردگی کے حامل وزیروں کو فارغ کرکے کابینہ کی تعداد اپنے اعلان کے مطابق لے آئیں۔

میڈیا کی شکایات براہ راست سن کر حقائق جانیں اور ان کے حقیقی مسائل کا مداوا کریں اور اپنے مخلص ساتھیوں اور ہمدردوں کو پہچانیں اب بھی وقت ہے اب کارکردگی دکھانے کا وقت باقی نہیں رہا بلکہ وزیروں کی گمراہ کن باتوں میں آنے کے بجائے عوام کے قریب جائیں اور عوام سے کیے گئے وعدے پورے کریں انھیں اقتدار بہت کچھ سمجھا چکا ہے جس کا وہ اعتراف بھی کر رہے ہیں اب بھی ان کے سنبھلنے کا موقعہ موجود ہے۔

Check Also

Terha Laga Hai Qat, Qalam e Sarnavisht Ko

By Nasir Abbas Nayyar