بلوچستان کیسا ہے؟
سوشل میڈیا کی ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئی پوچھے کہ بلوچستان کیسا ہے؟ تو بتانا کہ خوبصورت ہے، غمزدہ ہے، دھوکا و خیانت زدہ ہے۔ یہ پوسٹ سو فیصد بلوچستان پر صادق آتی ہے جو معدنی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود سب سے غریب، بے شمار بنیادی مسائل ہی نہیں بلکہ حکومتی ناانصافیوں اور دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہے۔
بلوچستان بلاشبہ خوبصورت ہے جس کے بعض علاقے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے عوام واقعی انتہائی غمزدہ چلے آ رہے ہیں اور صوبے کی تعمیر و ترقی میں زیادہ تر کرپشن عروج پر رہی ہے اور بہ مشکل کوئی ایسا منصوبہ ہوگا جس میں کوئی کرپشن نہ ہوئی ہو اور معیاری کام ہوا ہو۔
راقم کو ایک سرکاری دورے کے علاوہ اپنے آبائی شہر شکارپور سے متعدد بار بذریعہ سڑک اور ریلوے اور کراچی سے دو بار بائی ایئرکوئٹہ جانے کا موقعہ ملا۔ سڑک اور ریل کے سفر میں بلوچستان کے ویران علاقے ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سبی کے بعد پہاڑی سفر شروع ہوتا ہے اور راستے میں پانی کی کمی اور غربت ہی غربت نظر آتی ہے۔ کوئٹہ صوبے کا سب سے بڑا اور حب اہم صنعتی شہر ہے جہاں کراچی سے بھی ملازمت کے لیے بڑی تعداد میں لوگ آتے جاتے ہیں۔
گوادر کو گزشتہ کئی سالوں سے اہمیت ملی ہوئی ہے اور گوادر سی پیک میں بھی شامل ہے جس کی ترقی میں چین کا اہم اور حکومت پاکستان کا تو بس برائے نام ہی کردار ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں کوئٹہ سمیت بعض علاقوں کو گیس ملی تھی اور ترقی بھی ہوئی تھی جس کے بعد جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان میں ترقی کم اور ناانصافیاں اور مظالم زیادہ ہوئے۔ سیاسی حکومتوں میں بلوچستان کی ترقی و عوام کی خوشحالی کے دعوے تو بہت ہوئے مگر عمل کم ہوا جو ہوا وہ سیاست کی نذر ہو گیا۔ اکبر بگٹی اور نوروز خان کی شہادت بالاتروں کے دور کا سیاہ باب ہے۔
بلوچستان میں حکومتی مظالم سے تنگ آ کر رہنما پہاڑوں پر یا پھر افغانستان جاتے رہے۔ ماضی کے حکومتی دعوے پورے نہ ہونا شرم ناک رہا، سابق گورنر غوث بخش بزنجو کے دور میں کچھ تعلیمی ترقی ہوئی تھی کیونکہ وہ اساتذہ کے قدردان تھے، سیاسی گورنر اور وزرائے اعلیٰ بھی ہر دور میں رہے اور فوجی گورنر بھی رہے مگر چند ایک کے سوا کسی نے بلوچستان پر خلوص سے توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے بلوچستان کرپشن کی نذر رہا اور عوام میں احساس محرومی ہر دور میں موجود رہا۔ جن سویلین حکمرانوں نے بلوچستان کے عوام کے لیے کچھ کرنا چاہا تو انھیں کام نہیں کرنے دیا گیا اور ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔
آصف زرداری نے اپنے دور میں معافی مانگنے کے سوا بلوچستان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے تیسرے دور میں صوبے کی دو اہم آبادیوں بلوچوں اور پختونوں کو اپنا حلیف بنا کر بلوچستان کے لیے کچھ کرنا چاہا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کو وفاقی حکومت کی حمایت حاصل تھی مگر بالاتروں نے ان کی مکمل حمایت اور تعاون نہیں کیا اور بعد میں مختصر عرصہ وزیر اعلیٰ رہنے والے ثنا اللہ زہری کو آصف زرداری، عمران خان اور بالاتروں نے باپ پارٹی بنا کر ہٹا دیا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ سابق وزیر عبدالقادر بلوچ اور سابق وزیر اعلیٰ مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں کسی کے اشارے پر آنے پر مجبور ہوئے۔ بلوچستان کے اکثر سیاسی حکمران مفاد پرست، بے اصول اور صوبے سے مخلص نہیں رہے۔ وہاں اکثر مخلوط حکومتیں رہیں جس کی وجہ سے کبھی سیاسی استحکام بلوچستان کو نصیب نہیں ہوا۔
بلوچستان کے عوام ہر دور میں ہی غم زدہ رہے اور انھیں جھوٹے دلاسے اور وعدے ہی ملے۔ بلوچستان میں لوگوں کا لاپتا ہونا اہم مسئلہ ہی رہا۔ بلوچستان کے حقوق ہر دور میں پامال کیے گئے، ناانصافیاں کم زیادہ ضرور ہوئیں مگر ختم نہیں ہوئیں، اور ان کے دکھوں کا مداوا کبھی نہ کیا جاسکا۔ حکومتی دعوے بہت ہوئے مگر نہ جانے کس نے عمل نہ ہونے دیا۔
منتخب حکمران ہوں یا مسلط اور مختلف سیاسی رہنما اکثر نے اپنے ذاتی، مالی اور سیاسی مفاد کو ہمیشہ عوام پر ترجیح دے کر عوام کو دھوکا دیا اور حضرت یوسف کے بھائیوں کا ہی کردار ادا کیا۔ گوادر کی ترقی کا بڑا ڈھنڈورا ہے جہاں پینے کا پانی ہے نہ بجلی اور جدید سہولیات کا تصور ہی محال ہے۔ بلوچستان کے حق داروں کو ملازمتیں نہ ملنے کی شکایات ہمیشہ رہیں اور بلوچستان کی زمینیں غیر علاقائی تاجروں اور افغانوں نے ہتھیائیں۔ غربت، پسماندگی و بے روزگاری بلوچستان کا اب بھی نصیب بنی ہوئی ہے مگر خوشنما دعوے ختم ہونے میں نہیں آرہے۔