بلدیاتی انتخابات میں تاخیر (2)
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ملک میں عام آدمی کے فائدے والا بلدیاتی نظام ہونا چاہیے۔ وزیر مملکت فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں کو چلانے کے لیے نیا بلدیاتی نظام نافذ کریں گے۔
علاوہ ازیں کے پی کے، کے اسپیکر مشتاق غنی کے مطابق حکومت نے بلدیاتی انتخابات آیندہ سال تک کے لیے ملتوی کردیے ہیں جو ستمبر میں کرائے جانے تھے۔ انتخابات ملتوی کرنے کا جواز افغان صورتحال اور کورونا کے کیسزکو قرار دیا گیا ہے۔
ادھر الیکشن کمیشن نے سندھ حکومت سے لوکل کونسلوں کی تعداد، نقشہ جات ودیگر ضروری ڈیٹا طلب کرلیا ہے جس پر چیف سیکریٹری نے چھ ماہ کی مہلت مانگی جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ سندھ حکومت کے موقف سے لگتا ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ سندھ سے ڈیٹا ملنے پر بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کا آغاز کریں گے۔ واضح رہے کہ مردم شماری کے نتائج پر سندھ حکومت کے اعتراضات کے باعث بلدیاتی حلقہ بندیاں اور بلدیاتی انتخابات زیر التوا ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے لاہورکے دورے کے دوران آیندہ سال مارچ میں بلدیاتی انتخابات صوبہ پنجاب میں کرائے جانے کا عندیہ دیا ہے اور اپنی پارٹی کو پی ٹی آئی کے بلدیاتی امیدواروں کی کامیابی کا ٹاسک دیا ہے۔
ایم کیو ایم کے کنوینئر ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا ہے کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک میں قائم ہونے والی نام نہاد جمہوری حکومتوں نے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی بجائے فیتہ کلچر کو تحفظ فراہم کیاہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ جب بھی ملک میں آتی ہے تو بنیادی جمہوریت ختم ہو جاتی ہے۔ ملک میں جمہوری حکومت ختم ہونے کے بعد نگران حکومت آتی ہے تو بلدیاتی حکومتیں ختم ہو جانے کے بعد قائم مقام میئرز کو ذمے داری ملنی چاہیے۔
علاوہ ازیں الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے معاونت نہ کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل سیکریٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر غور کیا گیا اور قائم کی گئی کمیٹی کو یہ ہدایت کی ہے کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کی وجہ معلوم کرے اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی آئینی و قانونی ذمے داریوں سے متعلق سفارشات پیش کرے۔ کمیٹی کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایسی تجاویز کا تعین کرے جس سے صوبائی حکومتوں پر بلدیاتی انتخابات کرانے کا انحصار کم کیا جاسکے۔
الیکشن کمیشن نے حکومتی رویے کے خلاف بڑا قدم اٹھاتے ہوئے جوڈیشل آرڈر جاری کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے تاکہ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ احکامات پر عمل درآمد کرایا جاسکے۔ الیکشن کمیشن کے حالیہ اجلاس میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کے حیلے بہانوں پر صوبائی حکومتوں پر خفگی کا اظہار کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں آئین و قانون سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا جائے گا اور اس ضمن میں الیکشن کمیشن کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کرے گا، نہ دباؤ میں آئے گا۔
الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ بہت اہم ہے جس پر عمل ہونے سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریز کرنے کے صوبائی حکومتوں کے بہانے ختم ہو جائیں گے کیونکہ بلدیاتی انتخابات میں مجرمانہ تاخیر کی ذمے دار چاروں صوبائی حکومتیں اور کنٹونمنٹس کے انتخابات میں تاخیر اور فنڈز فراہم نہ کرنے کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی ذمے دار وفاقی حکومت ہے۔ جہاں صرف ایک بار الیکشن ہوئے جن میں مسلم لیگ (ن) کا میئر منتخب ہوا تھا جو پی ٹی آئی حکومت کو برداشت نہیں ہو رہا ہے اور وہ سیاسی انتقام کے لیے میئر کو ہٹا بھی چکی ہے جسے ہائی کورٹ نے بحال کیا تھا۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں ارکان اسمبلی کی خوشنودی کے لیے بلدیاتی انتخابات کرانا ہی نہیں چاہتیں اور تمام سابقہ حکومتیں اس کی ذمے دار ہیں۔ گزشتہ بلدیاتی انتخابات بھی سپریم کورٹ کے حکم پر سیاسی بنیاد پر ہوئے تھے۔ اب تک تمام سیاسی جماعتوں کی حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات نہ کرانے یا تاخیر کا مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور یہ جان بوجھ کر کیا جاتا رہا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کرانے کا کریڈٹ فوجی حکومتوں کو جاتا ہے۔
جنھوں نے باقاعدگی سے ملک میں بلدیاتی انتخابات کرائے اور کبھی تاخیر نہیں کی اور اختیارات بھی دیے جب کہ سیاسی حکومتوں نے فوجی حکومتوں کے دیے گئے بلدیاتی اختیارات ہمیشہ محدود اور بلدیاتی اداروں کو اپنا محتاج رکھا اور انھیں کبھی بااختیار نہیں بنایا۔ بلدیاتی الیکشن نہ کرانے پر بروقت کارروائی ذمے دار حکومتوں کے خلاف ہوتی تو ان کے حیلے بہانے نہ چلتے اور ملک میں باقاعدگی سے بلدیاتی الیکشن ہوتے رہتے جن کا ہونا جمہوریت کی اصل بنیاد ہے۔