اہل روایت اور کار تجدید
دین کے باب میں، روایت کی تجدید اور اسے اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنے کا اعتراف اہل روایت کے سب گروہ کرتے ہیں لیکن یہ اعتراف آج تک کسی سنجیدہ حکمت عملی میں نہیں ڈھل سکا۔ دین میں غلو، بدعات کا شیوع اور دین کی تجدید کا عندیہ خود شارع نے دیا تھا۔ یہ مفہوم مختلف احادیث میں وارد ہوا ہے۔ فرمایا اللہ اس امت کے لیے ہر سو سال کے سرے پر کسی مجدد کو بھیجے گا جو اس دین کا تجدد کرے گا۔
تجدید کا معنی و مفہوم یہ نہیں کہ دین میں کوئی نئی چیز نکالی جائے یا دین کے باب میں ایسی انوکھی تشریحات کی جائیں جو آج تک کسی نے نہ کی ہوں۔ تجدید کا مفہوم یہ ہے کہ دین میں در آنے والے بگاڑ کو دور کرکے دین کو اپنی اصل شکل میں پیش کیا جائے اور اس کے ساتھ دین کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرکے پیش کیا جائے۔ آج اہل تجدد اور ان سے وابستہ فکری منحرفین سمجھتے ہیں کہ تجدید دین کو ماڈرنائز کرنے کا نام ہے۔ ان کے نزدیک صرف عقائد ابدی ہیں باقی دین عصری اور زمانی ہے۔ بالفاظ دیگر ان کے نزدیک شریعت بازیچہ اطفال ہے۔ یہ تجدید نہیں تجدد ہے اور کارتجدد ضال اور مضل ہے۔
اہل روایت کے ہاں اول تو تجدید کی ضرورت کا ادراک نہیں اور اگر کہیں ادراک ہے تو اس کے لیے عملاً کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ مثلاً آج کی دینی روایت مختلف مسالک اور ان مسالک کے اندر مختلف جماعتوں میں منقسم ہے۔ صرف اہلسنت مسلک کی بات کی جائے تواس میں مزید دو مسلک موجود ہیں، دیو بندی اور بریلوی۔ پھر ان دونوں مسلکوں میں مزید جماعتیں نظر آتی ہیں۔ مثلاً ہم دیوبندی مسلک کی بات کریں تو اس میں صرف ختم نبوت کے حوالے سے تین چار جماعتیں سرگرم عمل ہیں۔
اسی طرح دفاع صحابہ کے لیے بھی مختلف تنظیمیں متحرک ہیں۔ پچھلے تیس چالیس سال میں جہاد کے عنوان سے نصف درجن سے زائد جماعتیں موجود رہیں۔ دعوت و تبلیغ کے لیے الگ سے جماعتیں اور حلقے موجود ہیں۔ سیاست کے میدان میں بھی کئی جماعتیں متحرک ہیں۔ یہی صورت حال بریلوی مسلک کی ہے۔ وہاں بھی ختم نبوت، سیاست اور دعوت و تبلیغ کے لیے متنوع جماعتیں اور پلیٹ فارم موجود ہیں۔ کیا یہ اتنی ساری جماعتیں دین کی تجدید کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں؟ آئیے اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دیو بندی مسلک میں صرف ختم نبوت کے حوالے سے تین سے چار جماعتیں میدان عمل میں ہیں۔ پہلے تو ایک سے زائد جماعتوں کا وجود از خود سوالیہ نشان ہے کہ ختم نبوت کے مسئلے پر ایک سے زائد جماعتوں کی ضرورت کیوں؟ ختم نبوت کا تعلق عقائد کے باب سے ہے اور عقائد کے باب میں تمام مسالک ایک نکتے پر ہیں۔ پھر ایک مسلک کے اندر ختم نبوت کے نام پر تین چار جماعتوں کا وجود چہ معنی دارد؟ ممکن ہے کہ کسی استدلال سے ایک سے زائد جماعتوں کا وجود ثابت کر دیا جائے۔ لیکن کیا ان جماعتوں نے ختم نبوت کے مسئلے پر کوئی سنجیدہ پیش رفت کی؟
کارکنان کی فکری تربیت کی ہو۔ کوئی سنجیدہ اور فکری لٹریچر تیار کیا ہو۔ قانون توہین رسالت پر اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات دیئے ہوں۔ ایسے وکلا تیار کیے ہوں جو عدالت میں قادیانیوں کے حوالے سے ہونے والے حالیہ فیصلوں میں غلطی کی نشاندہی کر سکیں؟ جو سوشل میڈیا پر مختلف حلقوں کی طرف سے ہونے والی تنقید کا جواب دے سکیں؟ صرف شبان ختم نبوت کے پاس ہر سال کروڑوں روپے کا فنڈ اکٹھا ہوتا ہے، کروڑوں کے فنڈ سے کوئی ایک علمی و فکری شخصیت تیار کی ہو؟ مجھے شبان کے شعبہ مبلغین کے بارے کچھ معلومات دستیاب ہیں۔
پنجاب بھر میں تیس چالیس کے لگ بھگ مبلغین موجود ہیں، ہر مبلغ کو ایک ضلع کا امیر بنایا گیا ہے۔ ان مبلغین میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو قادیانیت کے حوالے سے ہونے والے حالیہ فیصلوں اور ان کے پس منظر سے آگاہ ہو۔ شاید ہی کسی نے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ وزٹ کی ہو اور اس سے اصل فیصلوں کو ڈاؤن لوڈ کرکے پڑھا اور سمجھا ہو۔ جو سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید سے واقف ہو اور ان کے جوابات دے سکے۔ وہی روایتی لٹریچر اور طریقہ کار۔ جدید طبقہ میں بات کرنے کی صلاحیت اور زبان و بیان کے اسلوب سے یکسر نابلد۔ ہر سال شعبان کے مہینے میں شبان کے پلیٹ فارم سے آٹھ دس روزہ ختم نبوت کورس منعقد کیا جاتا ہے۔ اس بار چند گھنٹوں کے لیے مجھے بھی اس کورس میں بطور سامع شریک ہونے کا موقع ملا۔
واپسی پر میری آنکھوں میں آنسو اور دل میں درد تھا۔ کورس کے نام پر ایک ہزار کے لگ بھگ مجمع جمع کیا گیا تھا۔ سنجیدگی کی جگہ عامیانہ پن تھا۔ ہوش کے بجائے جوش تھا۔ معیار کے بجائے مقدار تھی۔ علمی و فکری گفتگو کے بجائے خطیبانہ آہنگ تھا۔ تفکر و تدبر کے بجائے نعرے تھے۔ سوال کے بجائے غیر مشروط اطاعت تھی۔ زبان و بیان تکلیف دہ تھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کے ٹٹی خانے مرنے کے نعرے تھے۔ اسکی قبر پر پیشاب کرنے کا شوق تھا۔ کتا کتے کی موت مرا کا کتبہ لکھوانے کا مطالبہ تھا۔ بے غیرت اور کافر کے لفظ کا کثرت سے استعمال تھا اور من سب نبیا فاقتلوہ کا ورد تھا۔
میں وہاں دیکھتا رہا اور پشیمان ہوتا رہا۔ اس دس روزہ سرگرمی اور لاکھوں کروڑوں روپے لگانے کا حاصل سوائے ہیجان پیدا کرنے کے اور کیا ہو سکتا تھا۔ یہ استدلال کہ ان طلبا کو مسئلہ ختم نبوت سے روشناس کرایا گیا بجائے خود ایک سوال ہے کہ کیا دینی مدارس کے طلبا کو بھی مسئلہ ختم نبوت سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے؟ اس سے تو کہیں بہتر تھا کہ کام کے چند افراد تیار کر دیے جاتے جو جدید نہج پر مسئلہ ختم نبوت کو آگے بڑھاتے۔ یہ صرف شبان ختم نبوت کی کارکردگی ہے۔
عالمی مجلس کی غیر ذمہ داری کے حوالے سے جو حالیہ مسائل پیدا ہوئے وہ بھی سامنے ہیں۔ عالمی مجلس، مجلس احرار اور دیگر جماعتوں کی کارکردگی کیا ہو سکتی ہے اس کے لیے بس اتنا کہنا کافی ہے کہ شبان اس لیے وجود میں آئی تھی کہ دیگر جماعتیں کام نہیں کر رہی تھی اور نوجوانوں کی جماعت قائم کرکے میدان میں کام کرنے کی ضرورت تھی۔ شبان کے کام کی یہ نوعیت ہے تو پہلی جماعتوں کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ دفاع صحابہ کے حوالے سے کام کرنے والی جماعتوں کا تکلیف دہ رویہ بھی حالیہ انتخاب میں سامنے آ چکا اور سیاسی جماعتوں کی صورتحال بھی خوش کن نہیں۔
رہے دینی مدارس تو یہاں بھی صورت حال کچھ اچھی نہیں۔ روایت کو اپنے عہد سے ہم آہنگ کرنا تو درکنار یہ روایت کی ٹھیک سے تفہیم بھی نہیں کرا پا رہے۔ سوائے چند مدارس کے محض سطحیات کو ہی سب کچھ سمجھا جا رہا ہے۔ یہ وہ منظر نامہ ہے جس نے اہل تجدد کو روایت اور اہل روایت پر طعن و طنز کا موقع فراہم کیا ہے اور اپنے متجددانہ افکار کو سماج میں بطور دین پیش کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔ آج کار تجدید اسی صورت میں بارآور ہو سکتا ہے جب اہل روایت کے اندر سے ایسے لوگ جنم لیں گے۔
اہل تجدد اہل روایت پر طعن و طنز تو کر سکتے ہیں لیکن یہ امت ان کے تجدد کو تجدید ماننے کے لیے تیار نہیں۔ عام مسلمانوں کا روایت و اہل روایت کے ساتھ یہ تعلق اور اعتبار غنیمت ہے اور اہل روایت کو یہ تعلق اور اعتبار ٹوٹنے سے قبل اپنی اداؤں پر غور کر لینا چاہیے۔ انہیں اپنے رویوں، حکمت عملی، کام کی ترتیب، افراد سازی اور ترجیحات پر نظر ثانی کر لینی چاہیے۔ میں نے جو لکھا یہ کسی غیر کے طعنے یا دشنام نہیں بلکہ کسی اپنے کا دکھ ہے اسے اسی تناظر میں دیکھنے کا حوصلہ پیدا کیجیے۔