آئی ایم ایف اور پاکستان، نیا مگر شناسا منظر
احمد ندیم قاسمی ایک بلند پایہ شاعر، افسانہ نگار اور نثر نگار تھے۔ ان کے کئی اشعار ضرب المثل کی طرح آج بھی مشہور ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کا ایک مشہور شعر ہے۔
دل گیا تھا تو کوئی یہ آنکھیں بھی لے جاتا
میں ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
اسی غزل کا ایک اور مشہور زمانہ شعر ہے
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں ترا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں
احمد ندیم قاسمی کا پہلا شعر ہمیں یوں یاد آیا کہ جب سے ملکی معیشت کا دل آئی ایم ایف کے پاس ہے، عوام کو ہر نئے قرض پروگرام پر ایک ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب تک یہ مناظر 23 بار دیکھ چکے اور اب 24ویں منظر کی تیاری ہے۔ ایک سے مناظر دیکھتے کر آنکھیں تھک گئی ہیں، جمالیاتی حس بھی بے جان سی ہوگئی ہے۔ بے اختیار احمد ندیم قاسمی کا دکھ سمجھ میں آتا ہے کہ، میں ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں !
خیر سے پاکستان 24 ویں بار آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی آئی ایم ایف کا تقاضہ یہی ہے کہ اپنی چادر اور پاؤں میں مطابقت پیدا کریں، یعنی بے تحاشہ اخراجات کرنے کا شوق ہے تو اس کے مطابق وسائل بھی پیدا کریں۔ ہمیشہ کی طرح حکومتیں اخراجات کم کرنے سے معذور ہوتی ہیں۔ تاہم روتے دھوتے، عوام کو اپنی بے گناہی کا یقین دلاتے ہوئے آئی ایم ایف کا نام استعمال کرتے ہوئے نئے وسائل اور اضافی ٹیکسز کا بوجھ عوام پر لاد دیتی ہیں۔ اس روش سے ماضی کی کوئی بھی حکومت مستثنیٰ نہیں۔ دور کیا جانا گزشتہ 20 سال کا ریکارڈ گواہ ہے، پیپلز پارٹی کی حکومت تھی یا اس کے بعد نون لیگ کی، پی ٹی ائی کی حکومت، پی ڈی ایم، نگران حکومت اور اب ایک بار پھر نون لیگ پی پی پی اتحادی حکومت۔ کردار اور چہرے بدلے مناظر وہی رہے۔
تازہ ترین منظر کے مطابق آئی ایم ایف کا وفد جمعرات کے روز خاموشی سے اسلام آباد پہنچا۔ پاکستان دو مختلف قرض پروگرام چاہتا ہے، جن میں ایک بنیادی ڈھانچے کی اصلاحات کے لیے جبکہ دوسرا قرض موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نمٹنے میں استعمال ہوگا، وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے مطابق نئے قرض کے حجم اور اس کی مدت کے بارے میں ابھی حتمی معاملات طے نہیں ہوئے۔ آئی ایم ایف کا یہ 24واں قرض پروگرام ہوگا جسے پاکستان کے لیے اب تک کا سب سے مشکل ترین قرض پروگرام کہا جا رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے ایف بی آر کے محصولات میں اضافے کا مطالبہ ہے۔ ان مطالبات میں ایک مطالبہ پینشن لینے والے افراد پر ٹیکس کا نفاذ بھی ہے جسے شاید آنے والے بجٹ میں شامل کر دیا جائے گا۔ آئی ایم ایف کو 600 ارب روپے کے نئے محصولات کے لیے بریفنگ دی جائے گی۔
سال بھر پیچھے چلے جائیں، پی ڈی ایم کے وزیراعظم شہباز شریف کا فرمانا تھا آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کے لیے لکیریں نکلوا رہا ہے۔ دن رات محنت اور کوشش کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے۔ حکومت کو پورا احساس ہے کہ مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں عام ادمی کی زندگی مشکل میں ہے۔
اس سے دو سال مزید پیچھے چلے جائیں، اس وقت کے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ نون لیگ معیشت کو تباہی کے دہانے پر چھوڑ گئی تھی۔ اسحاق ڈار نے معیشت کا حشر نشر کر دیا تھا۔ نون لیگ کی غلط پالیسیوں کے باعث پیسوں کے لیے ہمیں آئی ایم ایف جانا پڑا، مجبوری میں مشکل شرائط مانیں تاہم ان کی حکومت نے معیشت کو سنبھالا دیا۔ کرونا صورتحال کے باوجود شرح نمو چار فیصد تک لے کر گئے۔
2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو بھی اسی طرح کی صورتحال درپیش آئی۔ اس نے بھی یہی انکشاف کیا کہ پچھلی حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے معیشت تباہی کے دہانے پر ہے اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط ماننے کے سوا چارہ کار نہیں۔ کچھ اسی طرح کے ملتے جلتے مسائل نون لیگ نے حکومت سنبھالنے کے بعد 2013 میں عوام کو پیش کیے۔ قصہ مختصر گزشتہ 20 سالوں میں یہی مناظر بار بار دیکھنے کو ملے، ایسے میں اب احمد ندیم قاسمی یاد نہ آئیں تو کون یاد ائے۔
بار بار قرض کے اس گھن چکر میں جانے کی وجوہات کیا ہیں؟ معروف ترین معیشت دانوں سے لے کر بازار میں مزدوری کرنے والے کو بھی معلوم ہیں۔ حکومت اپنے اخراجات اور اشرافیہ کے اللے تللے بند کرنے پر آمادہ نہیں۔ ہر آنے والی حکومت اشرافیہ کی مراعات اور اپنے لیے شاہانہ ٹھاٹھ میں اضافہ کرتی چلی گئی۔ اس کے برعکس ملکی معیشت کی ترقی نہ ہونے کے برابر رہی۔
جنوبی ایشیا میں گزشتہ 20 سالوں میں بھارت اور بنگلہ دیش نے معاشی ترقی کی رفتار قائم رکھی۔ ان کی معیشت مستحکم اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی معیشت بار بار سانس اکھڑنے کا شکار ہے۔
باربار سنی سنائی کہانیوں میں ایک کہانی یہ بھی ہے کہ ایف بی آر میں اصلاحات کا عمل ضروری ہے۔ ہزاروں ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں، انہیں حاصل کرنے کے لیے ایف بی آر میں اصلاحات ضروری ہیں، سن سن کر کان پک گئے، اصلاحات ہوئیں نہ وہ ہزاروں ارب روپے ہاتھ آئے۔
پچھلی دو دہائیوں سے بجلی اور گیس کے شعبے میں سرکلر ڈیٹ کی شکل میں نئی افتاد وارد ہوئی۔ اس سے پہلے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کا اژدہا موجود تھا، جو اب تک موجود ہے اور سالانہ 700 سے ایک ہزار ارب روپیہ ڈکار جاتا ہے۔ حکومت کوشش میں ہے کہ پی آئی اے سے جان چھڑا لے۔ پی آئی اے سے جان چھوٹ بھی گئی تو پبلک سیکٹر انٹرپرائزز کی درجنوں کارپوریشن کا کیا کرے گی! کوئی بھی حکومت ان مسائل کا شافی حل نہ کر سکی، آسان حل یہی تلاش کیا گیا، سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر یا پھر درآمدی سٹیج پر ٹیکس میں اضافہ اور سیلز ٹیکس کی شرح میں اضافہ۔ معیشت کے وہ تمام سیکٹرز جس میں کالا دھن زیر گردش ہے ٹیکس نیٹ سے باہر ہے، اس پر ہاتھ ڈالنے کا کسی کو حوصلہ نہ پڑا۔
امپورٹس دھڑا دھڑ بڑھتی چلی گیں، اس کے برعکس برآمدی شعبہ جمود کا شکار رہا۔ اس کا نتیجہ تجارتی خسارے کی شکل میں سامنے آیا، تجارتی اور مالیاتی خسارے کا دوہرا وزن روپے ڈالر کی شرح مبادلہ پر گرنا لازم ہوا اور یوں چل سو چل۔ بد قسمتی یہ ہے کہ یہی انداز 20 سال پہلے بھی تھا، 10 سال پہلے بھی، پانچ سال پہلے بھی اور اج بھی اسی طرح ہیں۔ کردار اور چہرے بدلے مناظر وہی ہیں۔
جی تو چاہتا ہے کہ حکومت کے بیانات پر اعتبار کریں کہ ان اصلاحات کے بعد ملک بھنور سے نکل ائے گا، لیکن ایک بار پھر احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے۔
ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسن انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں۔