Saturday, 15 March 2025
  1.  Home
  2. Khalid Mahmood Faisal
  3. Zameer Ki Khalish

Zameer Ki Khalish

ضمیر کی خلش

دوست نے بتایا کہ جب وہ کالج میں زیر تعلیم تھے، تو ایک کلاس فیلو بڑا ہی شرارتی، لاابالی مزاج رکھتا تھا، ہر وقت کسی نہ کسی کو تنگ کرتا، ہر چند اس کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہ ہوتا، تعلیم کی تکمیل کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا، کسی پرائیویٹ ادارہ میں ملازمت اختیار کر لی، وہ کئی برس تک ملازم رہا، بعد ازاں بیرون ملک جانے کا موقع ملا، ماضی کے تجربہ کی بنیاد پر اچھی اور پرکشش تنخواہ پر اسے نوکری مل گئی۔

ایک روز اپنے بچوں کو سکول سے لینے گیا، آدھی مسافت پر جب گھر رہ گیا تو بیٹی نے کہا کہ بابا گاڑی کو سکول کی طرف موڑ دیں، بہن بھائیوں نے کہا کہ کیا کوئی چیز بھول آئی ہو، اس نے نفی میں سر ہلا دیا، باپ نے پوچھا ہوم ورک کی انفارمیشن لینی ہے، سب سوالوں کا جواب نفی میں دیا، گاڑی سکول کے گیٹ پر رکی، بیٹی سکول میں داخل ہوئی تواس نے دیکھا ٹیچر بڑی پریشانی میں تھی، وہ پرس میں رکھے پیسوں کو بار بار گن رہی تھی، یہ رقم ڈونیشن میں طلباء و طالبات نے دی مگر جاری کردہ رسیدیں اور وصول رقم سے طابقت نہ تھی ٹیچر کبھی رسید بک کو دیکھتی کبھی پیسے گنتی، جب طالبہ نے ٹیچر سے سوری کرتے ہوئے کہا کہ میم میں نے رسید تولے لی مگر غلطی سے آپ کو رقم دینا بھول گئی۔ مجھے راستہ میں یاد آیا، بلا تاخیر میں نے دوبارہ سکول آنے کا فیصلہ کیا آپ کی پریشانی دیکھ کر مجھے زیادہ شرمندگی ہورہی ہے کہ میری غلطی کی وجہ سے آپ کو بہت خفت اٹھانا پڑی۔

رقم کی ادائیگی کے بعد جب وہ گاڑی میں واپس خالی ہاتھ گئی تو سب نے اسے حیرت سے دیکھا اور پوچھا کونسا کام رہ گیا تھا، سب کو خاموش رہنے کا کہہ کر اس نے بتایا کہ وہ ڈونیشن کی مد میں مقررہ رقم دیئے بغیر رسید تو لے آئی مگر ٹیچر کو پیسے دینا بھول گئی، جب وہ کلاس میں داخل ہوئی تو ٹیچر کو پریشان دیکھ اسے بڑا دکھ ہوا۔

میں یہ پیسے اپنی ٹیچر کو اگر ادا نہ کرتی تو انھیں اپنی تنخواہ سے ادا کرنا پڑتے، ممکن ہے ان کے پاس نہ ہوتے تو انھیں انتظامیہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا، نجانے وہ ٹیچر کے بارے میں کیا سوچتے، میرے بارے میں کیا رائے قائم کرتے، جب ریکارڈ سے پتہ چلتا تو میرے کلاس فیلو مجھے "چیٹر" دھوکہ باز کہتے، میں کیسے ان کا سامنا کرتی۔

بابا میں نے آپ کو گاڑی موڑنے کا اس لئے کہا، شکر ہے مجھے جلدی یاد آگیا۔ بہن بھائیوں نے اس جذبہ کی تعریف کی، بابا بھی فرط جذبات سے پھول رہے تھے کہ انکی تربیت کا اثر ہے کہ بچوں نے پیسوں کے بارے میں ڈنڈی نہیں ماری، تاہم شوخی میں زمانہ طالب علمی کا واقعہ اپنے بچوں سے شیئر کرتے ہوئے بھول گئے کہ ان کا رد عمل کیا ہوگا۔ انھوں نے اس سوسائٹی میں آنکھ کھولی، جہاں جھوٹ کا شائبہ تک نہ تھا۔

والد گویا ہوئے کہ جب کالج میں پڑھتا تھا مجھے فیس جمع کروانا تھی، متعلقہ کلرک کے پاس طلباء کا رش لگا ہوا تھا، میں نے بھی اپنا رول نمبر اور شعبہ بتا کر رسید حاصل کر لی کلرک کی مگر عدم توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پیسے جمع نہ کروائے اور اپنی جیب میں ڈال لئے بعد ازاں اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ کھانا کھا کر انجوائے کیا، نجانے کلرک نے کس طرح یہ حساب پورا کیا ہوگا اور کتنا پریشان رہا والد کے قہقہ پر بچوں نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بابا معذرت کے ساتھ، آپ تو بڑے"چیٹر" نکلے، کلرک کو اپنی تنخواہ سے یہ رقم ادا کرنا پڑی ہوگی تو اس کے دل سے آپ کے لئے دعا تو نہیں نکلی ہوگی، آپ اکیلی توبہ ہی نہ کریں بلکہ کفارہ بھی ادا کریں۔

بڑے بچے نے کہا کہ بابا آپ نے شہاب نامہ میں واقعہ پڑھا ہے، جس مقام پر اب منگلا ڈیم ہے، وہاں پہلے میر پور شہر آباد تھا، جنگ کے دوران اس کا بیشتر حصہ ملبے کا ڈھیر بن گیا، ایک روز مقامی افسر کو جیپ میں بٹھائے قدرت اللہ شہاب اس کے گردونواح میں گھوم رہے تھے، راستہ میں ایک مفلوک الحال بوڑھا اور اسکی زوجہ گدھے کو ہانکتے ہوئے سڑک پر آہستہ آستہ چل رہے تھے، انکے کپڑے میلے، بوسیدہ اور جوتے بھی ٹوٹے ہوئے تھے، دونوں نے انکی جیپ روک کر پوچھا کہ بیت المال (دفتر خزانہ) کدھر ہے، قدرت اللہ شہاب نے پوچھا، بیت المال سے تمھارا کیا کام؟

بوڑھے نے سادگی سے جواب دیاکہ میں نے اپنی بیوی سے مل کر میر پور شہر کے ملبے کو کرید کرید کر سونے اور چاندی کے زیورات کی دو بوریاں جمع کی ہیں، اب انھیں لاد کر بیت المال میں کروانے جارہا ہیں، اس بیوروکریٹ نے ان کا گدھا پولیس کانسٹیبل کی حفاظت میں دیا انھیں جیپ میں سوار کر لیا کہ انھیں بیت المال لے جائیں۔

انھوں نے رقم کیا کہ نحیف اور مفلوک الحال بزرگ جوڑے کو آج بھی وہ یاد کرتے ہیں تو سر شرمندگی اور ندامت سے جھک جاتا ہے کہ جیپ میں ان کے برابر کیوں بیٹھا، مجھے چاہئے تھا ان کے گرد آلود پاؤں اپنی آنکھوں اور سر پر رکھ کر بیٹھتا، ایسے پاکیزہ سیرت لوگ اب کہاں ملتے ہیں۔

واقعہ کو بیٹے کی زبانی سننے کے بعد ضمیر پر دستک محسوس ہوئی میں نے فیصلہ کیا فیس کی اُس رقم کو آج کی شرح کے حساب سے ادا کروں گا، مفتی جی سے رابطہ کیا ڈالر اور سونے کی شرح کا موازنہ ماضی سے کیا۔

دوست نے بتایا کہ جتنی رقم ماضی کے حساب سے بنتی تھی وہ انھوں نے مجھے بھجوا کر ہدایت کی کہ متعلقہ کلرک، ادارہ یا متاثرہ خاندان تک پہنچا کر مطلع کریں تاکہ سرخ رو جاؤں یہ بھی بتایا کہ رقم کی ادائیگی کے محرک ان کے بچے ہیں جو مسلسل ادائیگی کا کہتے رہے۔

اعتراف کیا میری طرح نجانے کتنے لوگ اپنی شوخی میں یا جان بوجھ کر ایسی حرکت کرکے قومی خزانہ کو نقصان پہنچاتے ہیں، کسی بے گناہ کو اپنی غیر دانستہ غلطی کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتی ہے۔

علماء کرام کی حقوق العباد کے حوالہ سے متفقہ رائے یہی ہے جب تلک متاثرہ فرد آپ کو معاف نہ کرے جس کے ساتھ آپ نے دھوکہ کیا، یا لا قانونیت کے مرتکب ہو کرآپ نے ریاست کے معمولی سے معمولی اثاثہ جات کو نقصان پہنچایا جب تلک آپ اسکی قیمت ادا نہ کریں، اس کی تلافی ممکن نہیں، مقام شکر میرے ضمیر کی خلش نے مجھے بڑے اور ابدی نقصان سے بچا لیا، ورنہ موت کے بعد توہر در بند ہو جاتاہے۔

Check Also

Camera Ki Aankh

By Dr. Ijaz Ahmad