ٹیکس کا ظالمانہ نظام

ہمارا شمار ان بدقسمت شہریوں میں ہوتا ہے جو ہر اس چیز پر اپنی کمائی سے ٹیکس دے رہا ہے، لیکن پریشانی یہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ اب بھی سرکار سے خوش نہیں ہے، اسکی تان ہمیشہ "ڈو مور" پر آکرٹوٹتی ہے، ماہرین معیشت نے فائلر اور نان فائلر کی اصطلا حات کا ایسا استعمال بتا یا کہ سوشل میڈیا پر ایک مذاق بن کر رہ گیا، کہنے والے کہتے کہ اگر ٹیکس وصولی کی یہی رفتار رہی تو عین ممکن ہے کہ شادی کرنے کی اجازت صرف فائلر ہی کا مقدر ٹھرے۔
سرکار نے ٹیکس نیٹ روک کو وسعت دینے کے لیے اب زرعی ٹیکس کی بھی منظوری دی ہے، کیونکہ جاگیر دار ہی وہ طبقہ ہے جسکی عیاشیاں سب پر عیاں ہیں، انکی غالب تعداد سرکار میں رہتے ہوئے بہت ہی سہولیات سے مستفید ہوتی رہتی ہے، ایک طرف سرکار کو غم کھائے جاتا ہے کہ ٹیکس دینے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے دوسری طرف جب بھی سالا نیہ میزانیہ پیش کیا جاتا ہے تو اندازے تفاخر سے کہا جاتا کہ یہ ٹیکس فری بجٹ ہے۔
اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ امیر ترین پانچ فیصد طبقہ ٹیکس دینے سے گریزاں ہے، صرف 12فیصد نے دس ارب سے زائد کی دولت ظاہر کی ہے، اصل مزہ تو ان کا ہے جو ٹیکس نیٹ ورک سے باہر ہیں، تاجروں نے بھی سرکار کی کمزوری بھانپ لی ہے، جب بھی ان سے ٹیکس کی وصولی کا ارادہ کیا جاتا ہے تو یہ "بڑے گھر" سے رجوع کرلیتے ہیں، سرکار نے آسان حل نکال لیا ہے، وہ ضروریات زندگی پر سیل ٹیکس عائد کرکے اپنی آمدنی بڑھا لیتی ہے، مہنگائی کے بوجھ تلے دبے شہری کا سانس لینا محال ہو رہا ہے۔
سابق چیرمین ایف بی آر نے برملا اعتراف کیا، کہ کسی سرکار کے پاس ملک بھر کی دوکانوں کا ڈیٹا ہی سرے سے موجود نہیں ہے، ہر عہد کی سرکارحتیٰ کہ باوردی صدر بھی ایسا رسک لینے سے گریزاں رہے، سب کو لاء اینڈ آڈر کا خدشہ نظر آنے لگتا ہے، یہ طبقہ نیٹ ورک سے ہی باہر ہے، اس کا ناجائز فائدہ دیگر شعبہ جات اٹھاتے ہیں جو انھیں بلیک میل کرتے ہوئے پیسے اینٹھ لیتے ہیں شنید ہے کہ، بعض اہلکاروں نے اس دھندہ کے لیے "جعلی رسیدیں" بنا رکھی ہیں۔
بہت سی کمپنیاں ایسی ہیں جو ملازمین کو آج بھی کیش میں تنخواہ دیتی ہیں، نہ ملازم ٹیکس دیتا ہے نہ ہی کمپنی ادا کرتی ہے، اس کے مقابلہ میں سرکاری ملازمین ٹیکس وصولی میں "گھڑے کی مچھلی" ہوتے ہیں جن کی تنخواہ سے پہلے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے، اس سرکاری "خدمت" کے بدلے کوئی غیر معمولی سہولت انھیں نہیں ملتی۔
دستاویزی معیشت کی عدم موجودگی کا سب سے زیادہ فائدہ منڈی میں کاروبار کرتا وہ آڑھتی اٹھا رہا ہے جن کے کاروبار کی تفصیل سے ایف بی آر قطعی لا علم ہے جس کے افسران ٹیکس وصولی کے لئے بڑی تعداد میں نئی او ر لگژری گاڑیاں خرید کے آرزو مند ہیں۔
اس سے قبل سرکار نے نان فائلرز کی بجلی منقطع کرنے اور سم بند کرنے کی دھمکی لگا کر بھی دیکھ لیا، اس کے باوجود ٹیکس کی وصولی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔
سول، ملٹری بیوروکریسی اور سرکارپر مشتمل نیا قومی ادارہ سرمایہ کاری کی سہولت کے بنایا گیا تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو اور زیادہ سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری ملک میں آئے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار بھی ٹیکس کے مربوط نظام پر ہے، جس میں شفافیت بنیادی عنصر ہے۔
اسلامی نظام معیشت کے آزمودہ طرز عمل زکوۃ اور عشر کے نفاذ سے نجانے حکومت کیوں گریزاں ہے، اگرچہ کچھ تاجر، کسان اسکی ادائیگی انفرادی طور پر تو کرتے ہیں مگر اجتماعی طور ایسا نظام وضع نہیں ہے، اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد اسکی وصولی کی ذمہ داری صوبہ جات پر عائد کی گئی ہے، اس مقصد کے لئے زکوۃ اور عشرکونسل بھی بنا دی ہے مگر وہ پوری طرح فعال نہیں ہیں، بڑالمیہ یہ بھی ہے کہ زکوۃ کی وصولی کی شفافیت پر آڈیٹر جنرل اور عدالت عظمیٰ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے، فی الوقت جو طریقہ کار رائج العمل ہے، اس میں ایک طبقہ اس بناء پر از خود باہر ہے کہ اپنے ہاتھ زکوۃ اور عشر ادا کرے گا۔
اسلامی تاریخ میں زکوۃ اور عشر کا ایک منظم اور قابل عمل نظام ملتا ہے جس سے ریاست کے مالی معاملات چلائے جاتے، سرکار کے اہلکار وصولی کرکے بیت المال میں جمع کرواتے، علماء کرام نے زکوۃ کی آٹھ مدآت اور مصارف کا تذکرہ کیا ہے، سرکار زکوۃ اور عشر کی کونسل کو یونین سطح پر منظم اور فعال کرے، تو اسکی وساطت سے بازار کے عام دوکان دار سے بھی وصولی ممکن ہے جس کا لینا سرکار کے لئے درد سر اس لئے بنا ہے کہ دوکان داروں کا ڈیٹا نہیں ہے، امکان غالب ہے کہ دوکان دار مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے ٹیکس کی بجائے زکوۃ دینے کو اپنی عاقبت کے لئے لازم خیال کریں گے۔
حال ہی میں زرعی آمدن کے اعتبار سے انکم ٹیکس کے نفاذ کی منظوری ہو چکی ہے، سرکار ملک بھر میں دوکانوں کی تعداد کا اگرشمار نہیں کر سکی ہے توزرعی انکم ٹیکس کا حصول ایک بڑا ہدف کیسے ممکن ہے، زیادہ بہتر ہے کہ سرکار عشر کونسل کی وساطت سے وصولی عشر کا ملک بھر نفاذ کرے، جس کا ا طلاق ایک ایکٹر پر بھی ہوگا، مذہبی فریضہ کی بابت کسانوں کو اس وصولی پر آمادہ کرنا بہت آسان ہے۔
ٹیکس کے امتیازی سلوک اور غیر شفافیت کی بدولت محصولیات کی وصولی میں جن مشکلات کا سرکار کو سامنا ہے، اس خلاء کو زکوۃ، عشر، جذیہ اور دیگر اسلامی مدآت سے پورا کیا جاسکتاہے، مختلف محکمہ جات کی زمین، معدنیات بھی لیز پر دے کر سرکار اپنی آمدن میں اضافہ کر سکتی ہے، جن سے عشر کی وصولی ہر صورت ممکن ہے۔
اشرافیہ اگر اپنی مراعات میں کمی پر راضی نہ ہو اس کی تکمیل کے لئے عوام کو ٹیکس کی ادائیگی پرمجبور کرے، تو پھر نہ تو غربت کا خاتمہ ممکن ہے نہ خوشحالی میسر ہوگی۔
بنی مہربان ﷺ کی ریاست مدینہ کا ماڈل ہی ہمارے دکھوں کا مداوہ کر سکتا ہے، طاقت کے زور پر ٹیکس وصولی کے نتائج کبھی بھی مثبت برآمد نہیں ہوں گے، غربت کے خاتمہ کے لئے اسلامی نظام معیشت کو ہی اپنانا ہوگا، اب تو مغربی دنیا بھی سود میں خاطر خواہ کمی لا رہی ہے، کیا یہ بد قسمتی نہیں کہ ایف بی آر زکوۃ اور عشر کے نظام کے نفاذ کی بجائے ٹیکس کا ایسا ظالمانہ پروگرام لانے کا خواہاں ہے جس کا فائدہ عوام کی بجائے عالمی مالیاتی فنڈ کو پہنچے گا۔