آرٹیکل 370 اور کشمیر
انھیں صفحوں پر تحریر کیا تھا جب مودی پہلی بار وزیراعظم بنے تھے کہ کس طرح ہٹلر نے جرمنی کو یرغمال بنایا تھا اپنے بیانیہ سے۔ وہ اس بار جیتنے سے پہلے بھی کشمیر کا کارڈ کھیلتے ہیں اور جیتنے کے بعد بھی۔ یہ جنگ نہ ان کی ہے نہ ہماری کہ جنگ کسی کی بھی نہیں ہوتی۔ وہ تو بس چھڑ جاتی ہے اور پھر تھمنے کا نام نہیں لیتی۔
مودی کو جنگ کا سماں کچھ بھاتا ہے، گلیوں میں لہو کی پچکاریاں ہوں، راستے دریا کا منظر پیش کریں، لاشوں کے ڈھیر لگے ہوں اور گدھ ان پر پھیرے دیں۔ ہم 1947 کے اس منظر سے ابھی نکلے نہیں، جس میں نقل مکانیاں ہوئی تھیں، خیمے تھے، مائیں بچوں سے اور بچے مائوں سے بچھڑے، ہر طرف آہ و فغاں، دھواں سا اٹھتا ہو کہیں، اسپتال زخمیوں سے بھرے اور سائرن کی دل دہلادینے والی آوازیں تھیں۔
ہمیں چوکس رہنا ہے، یہ ہم پر لازم تھا جب گھر کا بھیدی لنکا ڈھاتا ہے تو پھر دشمن کے لیے یہ نوید ہوتی ہے۔ ہم جب آپس میں الجھے تھے 1971 کے زمانے میں تو پھر کس طرح دشمن نے ہم پر وار کیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پھر یہ وہی الجھن ہے جو آج پھر دشمن کے لیے نوید ہے!
کشمیر کا دفاع کرے گا ایک مضبوط پاکستان، ایک بھرپور پاکستان، ولولہ انگیز پاکستان، نہ وہ ہمارے بغیر مکمل ٹھہرتے ہیں نہ ہم ان کے بغیر۔ کتنا آسان سا سودا ہے، یہ کہنا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہمیں کشمیر دیا تھا! تو پھر لے لیتے؟ ابھی تک کشمیر پھر لے کیوں نہ سکے ہو۔ چھ لاکھ فوجیں کھڑی کرنے کے بعد بھی۔ آرٹیکل 370 اور 35A ختم کرنے کے بعد بھی؟
مجھے پتہ ہے مودی اکیلا ہے اس طرح جس طرح تاریخ بتاتی ہے۔ وہ میسولینی ہو یا کوئی اور اپنے آہنی ہاتھوں سے انسانی حقیقتوں کو سلجھانا چاہتا ہے۔ یہ نہ مسئلہ پاکستان کا ہے نہ کسی اور کا یہ انسانیت کا معاملہ ہے۔ لگ جانے دیں ان ہزاروں ہندوستانیوں پر غداری کے بہتان۔ سج جانے دیں یہ تمغے ارندھتی رائے پر، گاندھی پر، نہرو پر کہ خود تم جس کے پیروکار ہو۔ جس کا اتنا بڑا مجسمہ تم نے سجایا ہے وہی ولبھ بھائی پٹیل کہتا تھا نہرو کو کہ ــ "نہرو کشمیر میں مت الجھوــ" اسے جانے دو، وہ ہمارا حصہ فطری طور پر نہیں ہو سکتا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا کلدیپ نیئر کہتا ہے اپنی سوانح حیات میں۔ مگر نہرو بضد تھا اس لیے کہ اس کے اجداد کشمیری تھے۔ وہ کشمیر کو گنوانا نہیں چاہتا تھا اور لارڈ مائونٹ بیٹن نہرو کا یار تھا۔ کشمیر کوئی زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔ صرف کھیت کھلیاں و حسین وادی نہیں، وہاں انسان بستے ہیں، ان کی تاریخ بستی ہے وہ ایک دیس ہے، ایک ثقافت ہے۔ اور اب کوئی اور نہیں مگرخود تمہار ا ولبھ بھائی پٹیل صحیح ثابت ہو رہا ہے کہ "نہرو مت الجھو کشمیر میں"۔
میرے والد 1948 کی جنگ میں اپنے خاکسار جتھوں کے ساتھ کشمیر کی جنگ میں لڑنے گئے تھے۔ ان کی وہ تصویر توپوں کے ساتھ اب بھی میرے ڈرائنگ روم کی دیوار پر آویزاں ہے۔ حوصلہ تھا جذبہ تھا۔ مگر انھوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا اور وزیرستان سے گئے اپنے مجاہدوں کو انتہا پرست پایا، ان سے نالاں ہوئے اور یہی کہتے رہے کہ ہم نے کشمیر کے مسئلے کو مزید بگاڑ دیا۔ ہم نے خود اس پر سیاست کی اور خود پرستی کا بازار لگایا۔
اقوام متحدہ کی قرار داد کہتی ہے کشمیر متنازع مسئلہ ہے۔ بین الاقوامی قانون ان دنوں کشمیر کے بیچ پڑی لکیروں کو سرحدیں نہیں مانتا۔ جب کہ شملہ معاہد ہ انھیں مانتا کہ یہ تمہارا ہے یا میر اہے۔ کشمیر، کشمیریوں کا ہے اور کشمیری فیصلہ کریں گے کشمیر کیا ہے، کشمیر کا وجود کیوں ہے اور کس کا حصہ ہے۔ نہ صرف نہرو بلکہ یہی زبان تھی آرٹیکل 370 کی۔ جس کو ہم نہیں مانتے کہ ہری سنگھ ہوتا کون تھا کشمیریوں کا فیصلہ کرنے والا۔ ہری سنگھ سے کشمیر لینے کے بعد پھر خود نہرو نے بیٹھ کر شیخ عبداللہ سے معاہدہ کیا۔ کیوں کیا۔ اس لیے ہری سنگھ کے پاس کوئی فطری و قانونی حیثیت نہیں تھی کہ کشمیر محض زمین کا ٹکڑا تو نہ تھا۔ کھیت وکھلیان اورکوئی حسین وادی نہ تھی۔
پھر شیخ عبداللہ کے ساتھ انتخابات کا ڈھونگ رچایا، ساری آئین ساز اسمبلی ہر طرف مسلمان ہی مسلمان ہی تھے۔ جو بھی تھے نہرو مگر سیاستدان تھے، گاندھی کے شاگرد تھے۔ جناح سے دشمنی اپنی جگہ مگر انسانیت کی کچھ قدریں تھیں جس کے وہ قدردان تھے۔ اس نے ولبھ بھائی پٹیل کو کشمیر سے دور رکھا اور کہا کہ باقی تمام نسلی ریاستیں تم تحلیل کرو مگر کشمیر سے دور رہو۔ یہ اتنی آسان بات نہیں جس طرح تم گردانتے ہو۔ دوسری طرف شیخ عبداللہ چاہے پاکستا ن کے قریب ہی نہیں تھے مگر وہ کشمیر کو سمجھتے تھے۔ اس نے آرٹیکل 370 کا معاہدہ کیا اور پھر وہ آئین کا حصہ بنا۔
وہ معاہدہ جس میں نہرو، پٹیل اور آزاد بھی شیخ عبداللہ کے ساتھ بیٹھے تھے جب جس کی شکل بنی اور آرٹیکل 370 کے روپ میں اور پھر اس طرح اس معاہدے کو آئینی گارنٹی ملی تھی کہ کشمیر کا اپنا آئین ہوگااور اپنی آئین ساز اسمبلی ہوگی۔ کہ کشمیر پر ہندوستان کا آئین لاگو نہیں ہوگا۔ کہ صدر ہندوستان آرڈر کے تحت مہاراجہ کے دیے ہوئے حکم نامے کو عملی شکل دے گا اور مہاراجہ کا حکم کوئی اپنا نہیں بلکہ وہی ہوگا جو کشمیر کی آئین ساز اسمبلی اسے کہے گی۔ یعنی صدر ہندوستان ایک تو ہے مگر اس کی حیثیت دو ہیں۔ ایک وہ ہندوستان کے آئین کے تحت آرڈر جاری کرنیوالے۔ اور دوسرا کشمیر کے آئین کے تحت، کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے تحت آرڈر جاری کرنے والے۔
آئین کا آرٹیکل 370 کہتا ہے کہ 370 پر آرٹیکل 368 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یعنی آئین میں ترمیم کرنے کا طریقہ کار اس میں وضع ہے وہ 370 پر لاگو نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب آرٹیکل 35A تو صدر نے آرڈر جاری کرکے ختم کیا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں وہ دو تہائی اکثریت سے پاس ہوا۔ مگر آئین کا 370 جوکہ بھلے عارضی ہو اس کا عارضی ہونا بھی اس وقت لاگو رہے گا جب تک جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی اس کے عارضی پن کو ختم نہیں کرتی اور یہ کہ ھندوستان کی پارلیمنٹ اس کو آرٹیکل 368 کے تحت ملے اختیار کے تحت بھی ختم نہیں کرسکتی۔ مگر مودی نے آرٹیکل 370 کو 368 کی رو سے ختم کیا۔ جو خود آرٹیکل 370 اپنے بارے میں کہتا ہے۔ اس طرح ختم نہیں کیا۔ اور اس طرح ہندوستان کے آئین کی خلاف ورزی ہوئی۔
میں نے بہت پڑھا ہے ہندوستان کا آئین، اس کے بنیادی ڈھانچے کی تھیوری جو سپریم کورٹ میں کیشوندا کیس میں وضع تھی میں اس کا طالب علم ہوں یہ تھیوری آرٹیکل 368 کے بارے میں ہے کہ آئین میں اس حد تک ترمیم کی جاسکتی ہے کہ اس سے کی بنیادی ڈھانچے میں بگاڑ نہ پیدا ہو۔ یہ تھیوری انھوں نے اندرا گاندھی کے بڑھتے ہوئے فاشزم کو روکنے کے لیے دی تھی اس کے پاس 1970 کے بعد اور 1971 کے سانحے کے بعد بڑی مقبولیت تھی دو تہائی اکثریت سے اس نے ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ کر دی تھی۔ کلدیپ نیئرسے لے کر بڑے بڑے سول سوسائٹی کے لوگوں کو جیلوں میں ڈال دیا تھا۔
آج پھر ہندوستان میں ایک نئی طرح کا فاشزم منڈلا رہا ہے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ کو بھی اس سے خطرہ لاحق ہے۔
لیکن مسئلہ یہ نہیں مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے۔ اس کا مضبوط ہونا کتنا اہم تھا کشمیر کے لیے، خود اپنے لیے اور وہ کیسے مضبوط ہو سکتا ہے یا وہ اگر کمزور ہے تو کیوں کمزور ہوا ْ؟ اگر ان سوالوں کے جوابات ہمارے پاس ہیں تو پھر یقینا کشمیر کے مسئلے کا حل بھی ہمارے پاس ہے!!!!