سَن، سِن اور سنہ و سال کی باتیں

کچھ خبر نہیں کہ وقت گزر رہا ہے یا ہم خود گزر رہے ہیں۔ ابھی کل ہی کی بات معلوم ہوتی ہے، جب "غلطی ہائے مضامین" کے مستقل عنوان سے کالموں کے اِس سلسلے کا آغاز کیا گیا تھا۔ پہلا کالم 27 نومبر 2020ء کو شائع ہوا تھا۔ اب 2025ء بھی اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور آج اِس سنہ عیسوی کا الوداعی جمعہ ہے۔ گویا دیکھتے ہی دیکھتے کامل پانچ برس بیت گئے۔ یہ سارا وقت شاید پر لگاکر اُڑ گیا، کیوں کہ
کسی دیوار سے ٹکرایا نہ در سے گزرا
وقت، حیرت ہے، خدا جانے کدھر سے گزرا
بہرحال گزر گیا۔ گزری ہوئی کچھ باتیں یاد آتی ہیں۔ ان کالموں میں ہم اکثر یاد آئی ہوئی باتوں کو دوہراتے ہیں۔ دوہراتے رہنا چاہیے، کیوں کہ تذکیر اور یاددہانی سے باسی باتیں تازہ ہوتی رہتی ہیں۔ خوشی بھی تازہ ہوجاتی ہے، غم بھی اور خوشی و غم سے ملا ہوا سبق بھی۔
اب سنہ 2026ء شروع ہونے کو ہے۔ صاحبو! ہم سنہ، لکھتے ہیں، مگر پڑھتے ہیں سَن۔ یہ لفظ اُس وقت لکھا جاتا ہے جب کسی سال کے اعداد لکھنا مقصود ہوں۔ مثلاً سنہ 2025ء۔ ہاتھ سے کتابت کی جاتی تھی توسنہ، کے سین کو اتنا لمبا کھینچا جاتا کہ سال کا پورا عدد سین کے اوپر ہی آجاتا تھا۔ جیسے 2026ء۔ یوں ن، کا نقطہ غائب ہوجاتا۔ سنہ عربی سے آیا ہے۔ عربی میں یہ لفظ سَنَۃٌ، ہے۔ اسے سنوۃ، بھی لکھتے ہیں۔ جمع سُنون، سِنین اور سَنوات ہیں۔ قرآنِ مجید میں سَنَۃ ً اور سَنَۃٍ کے الفاظ جا بجا ملتے ہیں۔ سِنین بھی کئی مواقع پر آیا ہے۔ جب ہم کسی سال کا ذکر کررہے ہوں، سال شمار کررہے ہوں یا کسی سال کا عدد لکھ رہے ہوں تو ایسے موقع پر سنہ، ہی لکھنا چاہیے، سَن لکھنا درست نہیں۔
سین پر زبر کے ساتھ سَن، کثیرالمعانی ہے۔ سَن ایک تو اُس چھال کو کہتے ہیں جس سے رسّی، سُتلی اور ٹاٹ بنایا جاتا ہے۔ کئی پودے ایسے ہیں جن سے یہ چھال حاصل کی جاتی ہے۔ ان پودوں کے سَنٹھوں یا خشک ڈَنٹھلوں (یعنی سوکھے تَنوں) کو تالاب میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب یہ تنے نرم پڑ جائیں تو آہستگی سے چھال اُتار لی جاتی ہے۔ یہی چھال سَن، کہلاتی ہے۔ اگر یہ چھال پٹ، یا پَٹوا، کے پودے سے حاصل کی جائے تو پٹ سَن، کہی جاتی ہے۔ اچھی سُتلیاں پٹ سَن ہی کی بنتی ہیں۔ جسم پر کوئی گندگی یا غلاظت لگ جائے تو ٹکسالی زبان میں اس کے لیے بھی سَن جانا، استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً: "پاؤں کیچڑ سے سَن گئے"۔
سَن کا ایک اور مطلب تیر اور نیزے وغیرہ کے تیزی سے گزر جانے کی آواز ہے۔ مثلاً: "گولی میرے کان کے پاس آکر سَن سے گزر گئی"۔ سَن سَناہٹ، اِسی آواز کے تسلسل کو کہتے ہیں۔ ہوا کی آواز بھی سنسناہٹ کہی جاتی ہے۔ سحرؔ کا شعر ہے:
ہائے کیا ابر ہے، کیا باغ ہے، کیا سبزہ ہے
بوندیاں پڑتی ہیں، چلتی ہیں ہوائیں سَن سَن
اُداسی اور خاموشی میں کانوں کے اندر سائیں سائیں، کی آواز آتی ہے۔ یہی آواز ناصرؔ کاظمی کے مقطعے سے بھی آرہی ہے، جس کا پہلا مصرع ہے: "دِل تو میرا اُداس ہے ناصرؔ"۔ اس کیفیت کو سنّاٹا کہتے ہیں۔ سنّاٹے کو خاموشی کی آواز، سمجھ لیجیے۔ دیکھیے میر انیسؔ نے اپنی مشہور غزل میں سین سے شروع ہونے والے دو الفاظ سُونے اور سنّاٹے، کو ایک ہی مصرعے میں سمو کر کیا عمدہ صوتی نقشہ کشی کی ہے:
بلا وجہ نہیں سُونے گھروں کے سنّاٹے
مکان یاد کیا کرتے ہیں مکینوں کو
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، سنّاٹے میں کانوں کے اندر سائیں سائیں، یا سَن سَن، کی آواز گونجتی ہے۔ پَس، سال یا برس کے معنوں میں سَن، لکھنا فصحا کے نزدیک مناسب نہیں۔ سَن کے دیگر معنوں سے فرق کرنے کے لیے سنہ لکھنا ہی احسن ہے۔ تاہم کچھ لوگ سنہ کو سَن بھی لکھتے ہیں۔ بحرؔ کا ایک دلچسپ شعر ملاحظہ فرمائیے۔ غالباً اضافت کی وجہ سے اس میں سنہ کا املا سَن لکھنا پڑا:
سبق میں نے پڑھا اُستاد سے جس روز ابجد کا
کھلا میمِ محمدﷺ سے سَنِ مبعوث احمدﷺ کا
(اعدادِ ابجد میں میم کا عدد چالیس ہے۔ رسول اللہﷺ پر پہلی وحی آپﷺ کی عمر مبارک کے چالیسویں سال میں نازل ہوئی تھی)
عمر کی مقدار کے لیے اُردو اور فارسی میں (سین کے نیچے زیر کے ساتھ) سِن، کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثنوی "سحرالبیان" (مولوی میرؔحسن) کا یہ شعربھی ضرب المثل بن چکا ہے:
برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن
جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دِن
سِن، کا اُردو محاوروں میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ بچہ سمجھ دار ہوجائے توکہتے ہیں: سِنِ تمیز کو پہنچ گیا۔ بالغ ہوجائے تو سِنِ بلوغ، کو پہنچا اور جوان ہوا تو سِنِ شعور، کو۔ عموماً چالیس برس یا اس سے اوپر کے لوگ سِنِ رُشد، (ہدایت پاجانے کی عمر) کو پہنچ جاتے ہیں۔ مگر یہی لوگ جب بڑھاپے کی طرف بڑھتے بڑھتے سِن رسیدہ، ہوجاتے ہیں، تب بھی محبوب کم سِن، ہی تلاش کرتے ہیں۔ امیرؔ مینائی کا یہ شعر پڑھیے اور دیکھیے کہ بزرگوار مالی چاچا کو کیا ہدایت فرما رہے ہیں:
باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کم سِن کے لیے
سَن، سِن، سنہ اور سال کا ذکر ہورہا ہے تو لفظ دِن، کے استعمال پر بھی امیرؔ مینائی کی اسی غزل کے ایک اور شعرسے لطف اُٹھا لیجیے:
وصل کا دن اور اتنا مختصر؟
دن گنے جاتے تھے اِس دن کے لیے؟
دن گننا، انتظارکی مدّت کاٹنا ہے۔ اس انتظار میں ہر اِمروز (یعنی آج کا دن) فردا (یعنی آنے والی کل کا دن) بنتا چلا جاتا ہے۔ مگر وعدۂ فردا کے پورا ہونے کا انتظار ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ حتیٰ کہ مجنوں ؔ گورکھپوری کو چِلّا چِلّا کر فریاد کرنی پڑتی ہے:
پسِ فردائے آخر بھی الٰہی کوئی فردا ہو
قیامت آگئی وہ بے وفا اب تک نہیں آیا
محاوروں کے استعمال کی بات چلی ہے تو ایک اور محاورہ ہو جائے۔ "کسی کی دُھن میں" پڑجانے کا مطلب ہے کہ کسی شخص یا کسی مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش، جدوجہد اور سعیِ پیہم میں اس طرح کھو جانا کہ کسی بات کا ہوش ہی نہ رہے۔ اسی طرح "اپنی دُھن" کا ہو رہنے کے معنی یہ ہیں کہ جس بات کی لگن لگ جائے، اس مقصد کے سوا دنیا و ما فیہا کی کسی چیز سے کوئی تعلق باقی نہ رہے۔ لہٰذا اسی غزل میں دیکھیے کہ مجنوں ؔ گورکھپوری نے تیری دُھن اور اپنی دُھن، کے متضاد محاوروں سے کیا حسن پیدا کیا ہے۔ زبان کا شعر اِسے کہتے ہیں:
تِری دُھن میں گیا تھا سوئے صحرا تیرا دیوانہ
وہ شاید اپنی دُھن کا ہو رہا، اب تک نہیں آیا
اب آپ اس شعر پر(اپنا) سر دُھنتے رہیے۔ ہم تو چلے۔

