Friday, 26 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Namoos e Risalat Ki Pukar Aur Kubar Sahaba Ki Khamosh Baseerat

Namoos e Risalat Ki Pukar Aur Kubar Sahaba Ki Khamosh Baseerat

ناموسِ رسالتﷺ کی پکار اور کبار صحابہ کی خاموش بصیرت

تاریخ کے طالب علم کے طور پر جب میں ان اوراق کو الٹتا ہوں جو نبی کریمﷺ کی وفات کے فوراً بعد کے دور سے تعلق رکھتے ہیں، تو ایک سوال میری روح کو بے چین کر دیتا ہے۔ وہ ہستیاں جن کی پوری زندگی عشقِ رسولﷺ کا استعارہ تھی، وہ کبار صحابہ جو سائے کی طرح نبوت کے ساتھ رہے، یمامہ جیسے فیصلہ کن معرکے میں صفِ اول میں کیوں دکھائی نہیں دیتے؟ وہ معرکہ جو براہِ راست ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے تحفظ کی جنگ تھی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عشرہ مبشرہ اور کبار صحابہ اس پکار پر خاموش رہے ہوں؟

جب میں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے تاریخ کے دبیز پردوں کو ہٹایا، تو حقائق کے اوراق خود بخود اپنے راز اگلنے لگے اور ایک ایسی عظیم الشان اسٹریٹجی سامنے آئی جس نے اسلام کے مستقبل کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔

تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ یہ کوئی خاموشی نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی مدبرانہ اسٹریٹجی تھی جس پر خلافتِ راشدہ کی بنیادیں کھڑی تھیں۔ خلیفہ وقت حضرت ابوبکر صدیقؓ نے یہ بھاری ذمہ داری بانٹ دی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ اس وقت مدینہ میں بیٹھ کر ان گیارہ (11) مہمات کی نگرانی کر رہے تھے جو پورے جزیرہ نما عرب میں فتنہ ارتداد کو کچلنے کے لیے بھیجی گئی تھیں (الفاروق، شبلی نعمانی)۔ وہ ایک ایسے "وار روم" کے نگران تھے جہاں سے نوجوان کمانڈروں جیسے حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عکرمہؓ کو قدم قدم پر ہدایات دی جا رہی تھیں۔ اگر یہ مرکزی دماغ میدان میں نکل جاتا، تو مرکزِ خلافت کا نظم و ضبط ایک ہی جھٹکے میں بکھر سکتا تھا۔

جب یمامہ کے میدان میں سینکڑوں صاحبِ جائیداد صحابہ شہید ہوئے، تو مدینہ میں ایک ایسے علمی قد آور شخص درکار تھا جو وراثت کے پیچیدہ مسائل کو حل کر سکے۔ حضرت علی بن ابی طالبؓ کا مدینہ میں رکنا اسی ضرورت کا پیش خیمہ تھا۔ آپؓ اس وقت یتیموں کی کفالت، بیواؤں کے حقوق اور نئی مفتوحہ جائیدادوں کی قانونی تقسیم کے سب سے بڑے امین تھے (المستدرک، ج 3)۔ اس کے ساتھ ساتھ، سیدہ فاطمہ الزہراءؓ کی وفات کا جانکاہ صدمہ اور حسنینِ کریمین کی پرورش جیسے انسانی و خانگی معاملات بھی آپؓ کے مدینہ میں قیام کا اہم جواز بنے (صحیح بخاری، کتاب المغازی)۔ آپؓ کا مرکز میں رہنا اس بات کی ضمانت تھی کہ جنگ کے ہنگاموں میں بھی اسلامی معاشرے کا قانونی اور سماجی ڈھانچہ متاثر نہ ہو۔

تاریخ گواہی دیتی ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے رسول اللہﷺ کے دور میں بین الاقوامی تعلقات اور سفارت کاری کا گہرا تجربہ حاصل کر رکھا تھا۔ انہیں قصداً مرکز میں روکا گیا کیونکہ وہ ریاست کا "ادارہ جاتی حافظہ" (Institutional Memory) تھے (مقدمہ ابنِ خلدون)۔ حضرت عثمانؓ انتظامی ریکارڈ سنبھال رہے تھے اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بیت المال کی رسد کو یقینی بنا رہے تھے (الکامل فی التاریخ، ج 2)۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ جب ریجنل مہمات ختم ہوں، تو عالمی سلطنتوں کے سامنے اسلام کا سیاسی اور سفارتی مقدمہ لڑنے کے لیے تجربہ کار قیادت موجود ہو۔

ان اکابرین نے خود کو بچایا نہیں تھا، بلکہ اپنی جگہ اپنے جگر گوشوں کو موت کے دہانے پر کھڑا کر دیا تھا۔ حضرت عمرؓ کے بڑے بھائی حضرت زید بن خطابؓ نے یمامہ میں وہ بہادری دکھائی کہ علم تھامے ہوئے ہی جامِ شہادت نوش کر لیا (البدایہ والنہایہ، ج 6، صفحہ 326)۔ حضرت ابوبکرؓ کے بیٹے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرؓ نے مسیلمہ کے لشکرکے سب سے بڑے جنگجو کو واصلِ جہنم کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ان گھرانوں نے ناموسِ رسالتﷺ پر اپنی بہترین افرادی قوت نچھاور کر دی تھی، لیکن اپنی سیاسی و علمی بصیرت کو مستقبل کی حفاظت کے لیے بچا رکھا تھا۔

آج جب میں ان حقائق کو یکجا کرتا ہوں، تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اگر کبار صحابہ کی یہ دور اندیش پلاننگ نہ ہوتی، تو وہ ذہن جنہوں نے اسلام کی ابتدا سے نبی کریمﷺ کے زیرِ سایہ علمی، سیاسی اور عالمی بصیرت پائی تھی، وہ محض مقامی سازشوں اور ریجنل جنگوں کا لقمہ بن جاتے۔ اگر یہ جلیل القدر ہستیاں یمامہ یا دیگر مہمات میں شہید ہو جاتیں، تو آنے والے وقت میں بین الاقوامی محاذوں پر ناتجربہ کار افراد وہ گہرائی اور دینِ اسلام کی وہ حقیقی تصویر پیش نہ کر سکتے جس کا اعجاز آج امتِ مسلمہ کی صورت میں موجود ہے۔

یہ اسٹریٹجی کسی گروہی یا سیاسی ترجیح کا نتیجہ نہیں تھی، بلکہ اسلام کے اس "مجموعی ڈھانچے" کا تحفظ تھا جس میں حضرت خالدؓ کی شجاعت، حضرت علیؓ کی عدالت، حضرت عمرؓ کی سیاست اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی سخاوت جیسے تمام رنگوں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر دین کی عمارت کو مکمل کرنا تھا۔ اگر یہ تمام رنگ ایک ہی جگہ صرف ہو جاتے تو اسلام کی وہ ہمہ جہت تصویر مکمل نہ ہوتی جو آج ہمارے سامنے ہے۔ یہ ان اکابر کی "بچت" نہیں تھی، بلکہ اسلام کے "مستقبل کی سرمایہ کاری" تھی جس نے فتنہ ارتداد کے بعد قرآن کی تدوین اور عالمی فتوحات کی راہ ہموار کی۔

Check Also

PIA Akhir Kar Bik Gyi

By Malik Ajab Awan