Friday, 26 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Altaf Ahmad Aamir
  4. Oxford University Museum (1)

Oxford University Museum (1)

آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم (1)

دنیا میں جب بھی بڑے تعلیمی اداروں کی بات ہوگی تو یہ ممکن نہیں کہ اس میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا نام نہ لیا جائے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد کب رکھی گئی اس کی حتمی تاریخ تو معلوم نہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ اس درسگاہ میں غیر رسمی طور پر تعلیم کا آغاز 1096ء میں ہوا لیکن 1167ء میں اس میں باقاعدہ پڑھائی کا آغاز اس وقت ہوا جب برٹش نے اپنے بچوں کو یونیورسٹی آپ پیرس جانے سے روک دیا اور یوں آکسفورڈ تعلیم کا مرکز بن گیا۔

13ویں صدی میں یہ یونیورسٹی تین مختلف کالجز بیلول کالج، یونیورسٹی کالج اور مارٹن کالج پر مشتمل تھی لیکن اب یہ یونیورسٹی 43 سے زائد کالجوں پر مشتمل ہے۔ اس عظیم درسگاہ نے مذہبی، سائنسی، ادبی اور سیاسی ترقی کے حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔ ہر طالب علم کی طرح بچپن ہی سے میں نے بھی آکسفورڈ کا نام سن رکھا تھا لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں ایک دن اسے دیکھ بھی پاؤں گا۔

بہت سے طالب علموں کی طرح میرے ذہن میں بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک تصوراتی خاکہ تھا کہ یونیورسٹی کا ایک ہی بہت بڑا سا کیمپس ہوگا لیکن یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہ یونیورسٹی تو کئی کیمپسز پر مشتمل ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انگلینڈ آنے سے پہلے میں یہ سمجھ رہا تھا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی لندن میں ہے لیکن وہ تو لندن پہنچنے پر میرے دوست مظہر کھوکھر نے بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی تو لندن سے تقریباََ 56 میل یا 103 کلومیٹر دور ہے۔

13 اپریل کی صبح میں ماجد اور مظہر کے ساتھ چلگرو گاؤں سے گاڑی کے ذریعے یونیورسٹی دیکھنے نکلا۔ چلگروہ گاؤں آکسفورڈ یونیورسٹی سے تقریباََ 12 کلومیٹر دور تھا۔ یہ انتہائی خوبصورت دہی علاقہ تھا، گاڑی میں جاتے ہوئے دائیں بائیں سر سبز کھیت اور کھلے میدان نظر آرہے تھے۔ راستے میں ایک جگہ سڑک سے ذرا سے فاصلے پر بجلی کے کھمبوں پر کچھ ملازم کام کر رہے تھے جس کی وجہ سے سڑک پر ٹریفک کون بریکرز پڑی تھیں اور صرف ایک سائیڈ سے ٹریفک رواں دواں تھی۔

میں نے مظہر سے پوچھا کہ بجلی کا کام تو سڑک سے کافی دور ہو رہا ہے لیکن انہوں نے سڑک پر یہ رکاوٹیں کیوں رکھی ہوئی ہیں؟ وہ بولا کہ حفاظت کے پیش نظر، کہ کہیں کوئی کیبل ٹوٹ کر سڑک پر نہ گرے اور یہاں سے گزرنے والے لوگوں کو نقصان نہ پہنچے۔ میں اس کی بات سن کر مسکرانے لگا کیونکہ ہمارے ہاں تو سڑک سے اگر گنوں کی ٹرالی گزر رہی ہو اور اوپر کیبل آ جائے تو وہ ٹرالی والے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کیبل کو خود ہی پکڑ کر اوپر کرتے ہیں اور آواز لگا کر ڈرائیور کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ استاد جان دو یعنی گاڑی جانے دو اور یہاں اتنا حفاظتی انتظام۔

ہم اس سنگل روڈ پر تھوڑا آگے بڑھے تو وہاں ایک جگہ ٹریفک سگنل پر ماجد نے گاڑی روک دی حالانکہ روڈ بالکل خالی تھا۔ میں نے ماجد سے کہا یہاں تو کوئی گاڑی بھی نہیں ہے آپ رک کیوں گئے ہیں؟ وہ بولا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دیہی علاقہ ہے اور قریب قریب کوئی گاڑی بھی نہیں لیکن اس کے باوجود ٹریفک قوانین کی پابندی یہاں بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی کسی شہر میں۔ اس لیے جب تک سگنل گرین نہیں ہوتا ہم نہیں چل سکتے۔ اگر غلطی سے ہم نے ٹریفک قوانین کی پابندی نہ کی تو ایک تو بھاری جرمانہ ہوگا اور دوسرا ڈرائیونگ کے پوائنٹس الگ سے کم ہو جائیں گے لہذا ہمیں انتظار کرنا ہی پڑے گا۔

سگنل کی بتی گرین ہوئی تو تب وہ آگے بڑھا۔ مجھے یہ ساری باتیں عجیب بھی لگ رہی تھیں اور اچھی بھی، کیونکہ قومیں تب ہی بنتی ہیں جب اس طرح قوانین کی پابندی کی جائے اور خوش قسمتی سے اب پاکستان میں بھی ٹریفک قوانین کی پابندی سختی سے کروائی جا رہی ہے جو کہ ایک بہت احسن اقدام ہے۔ ہم تقریباََ 11 بجے کے قریب آکسفورڈ یونیورسٹی پہنچ گئے۔ یونیورسٹی میں کب داخل ہوئے ہمیں پتہ ہی نہیں چلا کیونکہ وہاں کوئی مرکزی دروازہ نہیں تھا۔ گاڑی سپیڈ سے چل رہی تھی اور مظہر نے بتایا کہ یہاں سے یونیورسٹی کا ایریا شروع ہو جاتا ہے۔ اس نے بتایا کہ دائیں بائیں نظر آنے والی عمارتیں دراصل اسٹوڈنٹس کی رہائش گاہیں ہیں لیکن بہت ہی مہنگی۔ ہم جونہی یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو جگہ جگہ اسٹوڈنٹس سائیکلوں پر نظر آئے۔

ماجد نے گاڑی آکسفورڈ سائنس میوزیم کے سامنے آ کر روکی اور پارکنگ میں لگا کر الیکٹرانک ٹکٹ لیا۔ ہم گاڑی کھڑی کرنے کے بعد جب میوزیم کی طرف چل رہے تھے اس وقت ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی اور میری آنکھوں کے سامنے آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم کی تاریخی اور خوبصورت عمارت تھی اور اس عمارت کے سامنے خوبصورت گرین لان۔ آکسفورڈ سائنس میوزیم کا کوئی ٹکٹ نہیں تھا، جونہی ہم مرکز دروازے سے اندر داخل ہوئے تو سامنے ایک بہت بڑا حال تھا جس میں ڈائنوسارز کے بڑے بڑے نیچرل ڈھانچے نظر آ رہے تھے اور ان ڈھانچوں کے نیچے مختلف جانوروں جیسے بچھو، شتر مرغ، بندر، بڑی مچھلیوں اور بے شمار آبی جانوروں کے ڈھانچے تھے اور اس حال کی چاروں دیواروں کے ساتھ دنیا کے ان عظیم سائنس دانوں کے مجسمے نصب تھے جنہوں نے اپنے نظریات، تحقیقات، ایجادات اور علم سے انسانیت کی فلاح کے لیے کام کیا۔

ڈارون کا ایک بہت بڑا مجسمہ درمیان میں نصب تھا۔ ایک دیوار پر تتلیوں کی ہزاروں قسمیں خوبصورتی کے ساتھ سجائی گئی تھیں۔ اتنی زیادہ تعداد میں تتلیاں دیکھ کر میں تو حیران ہی رہ گیا۔ انسانی جسم کے ڈھانچے تو ہم اکثر میوزیم میں دیکھتے ہی رہتے ہیں لیکن وہاں میں نے ایک بندر کا اصلی ڈھانچہ دیکھا اور اس ڈھانچے کو بھی ایسے ہی لٹکایا ہوا دکھایا گیا تھا جیسے بندر درختوں پر لٹکے ہوتے ہیں۔ سائنس میوزیم کے اوپر والے ہال میں ہم سیڑھیوں کے ذریعے پہنچے۔ اپر ہال میں دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف ادوار میں انسان کس طرح کے ہوتے تھے ان کے بے شمار اصلی ڈھانچے اور کھوپڑیاں پڑی تھیں۔ مختلف علاقوں میں مختلف جانور کس کس طرح کے ہوتے تھے ان کے ڈھانچے بھی وہاں موجود تھے۔

اپر ہال میں مختلف اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے طالب علموں کے لیے ایک لیکچر روم بنایا گیا تھا جہاں طالب علموں کو بٹھا کر میوزیم کے بارے میں معلومات دی جاتی ہیں۔ اس وقت بھی بے شمار سیاح اپنے بچوں کو لے کر یہ نیچرل میوزیم دیکھ رہے تھے۔ میوزیم کو دیکھ کر میں سوچ رہا تھا کہ انگریزوں کو اپنی چیزوں کی حفاظت کرنا اور انہیں بہت اچھے انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنا آتا ہے، کیونکہ میوزیم کے اندر ہر چیز کو اتنے اچھے انداز میں رکھا گیا تھا کہ وہ میوزیم کم اور ایک جدید سائنس لیبارٹری زیادہ لگ رہی تھی۔ ہم قریب ایک گھنٹہ میوزیم میں رہے اور اس میوزیم میں نیچرل ہسٹری دیکھ کر بہت بھلا محسوس ہوا۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Mufti Shamail Nadwi Bamuqabla Javed Akhtar

By Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi