Sachai Ka Mayar, Baat Ya Shakhsiyat?
سچائی کا معیار، بات یا شخصیت؟

عام مشاہدے کی بات ہے کہ ہم مارکیٹ میں اپنی ضرورت کی چیز جب لینے جاتے ہیں، تو اس کے معیار کو پرکھنے اور جانچنے کے لیے چیز کو دیکھتے ہیں نہ کہ دکان یا دکاندار کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہاں آ کر ہر کوئی دانشور محسوس ہوگا۔ بھلے اس کا تعلق امرا سے ہو کہ غربا سے، وہ پڑھا لکھا ہو یا چٹا ان پڑھ۔ چیز خریدتے وقت اسے فکر یہی لاحق ہوگی کہ یہ چیز کہیں ناقص نہ ہو، غیر معیاری یا گھٹیا نہ ہو۔ کوئی خریدار خریداری کے وقت یہ نہیں دیکھے گا کہ چونکہ فلان دکان یا فلاں دکاندار سے یہ شے خریدی ہے، تو ٹھیک ہی ہوگی۔ جب چیز لیتے وقت ہم اس کے معیار کو پرکھتے ہیں، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہی رویہ خیالات کو قبول کرتے وقت کیوں نہیں اپنایا جاتا۔ کیوں ہم فرض کر لیتے ہیں کہ فلاں شخصیت کے قلم سے نکلا ہر لفظ حرفِ آخر ہے یا اس کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ نپاتلا اور جچا ہے۔
مادی اشیاء میں نکلنے والا نقص زیادہ نقصان نہیں دیتا، مگر غلط تصورات دماغ میں اگر بس جائیں، تو یہ بہت نقصان دیتے ہیں۔ یہ خیالات ہی ہیں جو ہمارے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے زندگی کس ڈھب پہ گزارنی ہے، ہمارا لائف سٹائل کیسا ہونا چاہیے۔ اگر یہ نادرست خیالات فکر و نظر میں گھس جائیں، تو یہ لکڑی کو لگی دیمک کی طرح صلاحیتیں ختم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ہماری شخصیت میں تخریب کاری کا عمل اس غیر محسوس انداز سے کرتے ہیں کہ زندگی جہالت کی نذر ہو جاتی ہے اور بندے کو پتا بھی نہیں چلتا۔
اس ملک میں قوم پہ جو سب سے بڑی اور خطرناک افتاد پڑی ہے، وہ شخصیت پرستی کا رجحان ہے۔ بلا تامل اور بلا غور و فکر خیالات قبول کرنے کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ ہاتھوں میں سنگریزے ہیں، مگر لینے والا انہیں جواہر خیال کرتا ہے۔ بتانے والا خریدار کو بتاتا ہے کہ یہ مشک کی خوشبو ہے، مگر وہ ہوتی غلاظت ہے۔
حیرت ہے! مارکیٹ سے ہم تب تک چیز نہیں لیتے، جب تک پورا اطمینان نہ ہو جائے کہ اس کی کوالٹی ٹھیک ہے۔ خیالات کی مارکیٹ سے چیز لیتے وقت ہم اندھے، بہرے اور گونگے ہو جاتے ہیں۔ اس وقت ہمیں صرف دینے والا نظر آتا ہے، مگر اس کی دی ہوئی چیز کی طرف دھیان نہیں جاتا۔ یوٹیوب اور ویلاگنگ کی دنیا میں اتنا گند بک رہا ہے کہ خدا کی پناہ! ہر طرف غلاظت کے بکھری پڑی ہے اور خریدار ہیں کہ اس غلاظت پہ ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔
مکرر عرض ہے اور دست بستہ عرض ہے کہ جیسا رویہ ہم بازار سے خریدی گئی چیزوں کے بارے میں رکھتے ہیں، کم از کم ویسا رویہ دینی، سیاسی یا سماجی شخصیات کے خیالات قبول کرتے وقت بھی اپنائیں۔ یہ عمل اپنی ذات میں بہت بے رحم ہونا چاہیے۔ کوئی معروف شخصیت بھلے کتنی ہی قد آور ہو، پڑھی لکھی ہو، روشن خیال ہو یا دین دار ہو، اس کے قلم یا ہونٹوں سے نکلنے والے خیالات یا عقائد ہم تب تک قبول نہ کریں، جب تک انھیں سچائی کی سخت کسوٹی پہ جانچ نہ لیں، حق کے کڑے معیار پہ پرکھ نہ لیں۔
مثال کے طور پر ایک طرف ملک کے نامور صحافی یا متبحر عالم دین کی بات ہو اور دوسری طرف ایک ان پڑھ مزدور کی بات اس کے مقابلے میں ہو، تو قبولیت کا تقابل ان دونوں کی شخصیات نہیں، ان کی باتیں ہوں گی۔ علم کا سچا طالب یہی رویہ اپنائے گا۔ قرآنِ مجید میں بار بار آنے والا سوال: "أفلا تعقلون" بھی دراصل ہمیں اسی فکری دیانت اور عقل کے استعمال کی دعوت دیتا ہے۔

