Friday, 26 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Idrees Abbasi
  4. Time Machine

Time Machine

ٹائم مشین

کیا خوبصورت تصور ہے۔۔ اس خیال میں گہری نرمی، ناستلجیا اور انسانی بے بسی ہے۔ میری ایک پرانی خواہش تھی کہ میں اُس وقت تک زندہ رہوں جب تک انسان ٹائم مشین ایجاد نہ کر لے۔ بچپن سے ٹائم مشین میری محبوبہ رہی ہے۔ کبھی کسی کہانی میں پڑھتا، کبھی کسی فلم میں دیکھتا، تو دل چاہتا کہ کاش یہ سچ ہو۔ وقت کے اس پہیے پر سوار ہو کر میں ماضی میں جاؤں، اُن دنوں میں، جب زندگی آہستہ بہتی تھی اور انسان انسان لگتا تھا۔

چشمِ تصور میں، میں اکثر خود کو ٹائم مشین میں بیٹھا دیکھتا ہوں۔ شائید ایک روز وہ لمحہ آ جائے میں بٹن دباؤں، روشنیوں کا ایک دائرہ گھومے اور لمحہ بھر میں میرے اردگرد کی دنیا بدل جائے اور میں 1970 کے پاکستان میں کھڑا ہوں۔

میں مستقبل کی بجائے ماضی میں جانا چاہوں گا۔

ہوا میں ایک عجیب خنکی ہوگی، شور کم ہوگا، لوگوں کے چہروں پر ایک سادہ سی خوشی۔ نہ موبائل فون کی گھنٹی، نہ کاروں کے ہارن، نہ اشتہارات کا ہجوم۔ سڑک پر اکا دکا کرونا یا مورِس کی گاڑیاں چل رہی ہوں گی، جن کے ڈرائیور ہاتھ سے سلام کرتے ہوں گے۔ میں حیران ہوں گا۔۔ یہ بھی کبھی ایک پاکستان تھا؟ ایسا پاکستان جو اب ایک بھولی بسری خواب کی مانند ہے۔

ایک سلور کلر کی جی ٹی ایس بس میں، میں مری سے پنڈی کا سفر کروں گا۔ بس کے دروازے میں داخل ہوتے ہوئے ہی اندر لگی سیٹوں اور گول بتیوں کو دیکھ کے مبہوت ہو جاؤں گا۔ بس چلے گی اور میرے لئے ایک ہیجان خیز اور پر لطف سفر کا آغاز ہوگا۔

پتلی، تارکول بچھی موڑ در موڑ سڑک مری کی خاموش وادیوں سے پنڈی کی ہنگام خیزیوں کی طرف جاتی ہوگی۔ گھنٹوں سفر کے بعد جب مل پور کراس ہو رہا ہوگا، تو بس کی کھڑ کھڑ تھم جائے گی، انجن کا شور کم ہوگا، دور دائیں طرف ہوٹل شہر زاد کی سفید بلڈنگ نظر آئے گی۔ ڈھوکری سے آبپارہ ایک نئی دنیا نظر آئے گی۔ عجوبہ ٹریفک سگنل نظر آئیں گے۔ آبپارہ سے آگے ڈبل ڈیکر لال رنگ کی بس چڑھتی نظر آئے گی۔ میں دوڑ کے اوپر والی منزل پہ فرنٹ سیٹ پہ بیٹھوں گا۔ کہیں کہیں جی سکس کے اونچے گھنے درختوں کی ٹہنیاں بس کی چھت سے ٹکرائیں گی۔ اسلام آباد جی سکس سے شروع ہو کر ایف سکس اور ادھر سے جی سیون تک ختم ہو جائے گا۔

بلیو ایریا کی جگہ جھاڑ جھنکار، گھنا جنگل۔۔ ناظم الدین روڈ کے متوازی لال کوارٹر سے ایک سنگل روڈ جنگل کے بیچوں بیچ، جہاں کبھی کمپلیکس اسپتال بننا تھا، وہاں تک جاتی دکھے گی۔ درخت چھوٹے مگر ہرے بھرے، سڑکیں کشادہ مگر خاموش۔ جی سیون میں ہر طرف سادہ دکاندار، صاف ستھری دکانیں اور اصلی قیمہ کے سیخ کباب لگاتے ٹھیلے دیکھوں گا۔ گلشن مارکیٹ کے پاس گراؤنڈ میں فوکسی کار کے اوپر لگا پروجیکٹر اور اوپن ائیر سینیما۔ وحید مراد، محمد علی اور شبنم کی رومانوی فلمیں بھی۔

اور پھر "یہ ریڈیو پاکستان ہے" کی آواز سننے کو ملے گی۔ اس ایک جملے کو دوبارا سننے میں جو وقار ہوگا، وہ اب کے مسخرہ نما اینکرز میں کہاں۔ ریڈیو سنتے وقت اس کے سوراخوں سے جو آکاش وانی یا آل انڈیا ریڈیو کی آواز سنوں گا وہ کتنی سحر آمیز ہوگی۔ پھر سے لگے گا اس چھوٹے سے ڈبے میں ایک جہاں آباد ہے۔ رونالیلی، مکیش اور لتا کے گانوں میں کتنا سحر ہوگا۔ یہ گانے تو آج بھی بغیر ٹائم مشین کےماضی میں لے جاتے ہیں۔

پھر سیکرٹریٹ کی عمارتوں میں ٹائم مشین لے جائے تو ایماندار سرکاری افسروں کو فائلوں میں جھکے بیٹھے دیکھوں گا۔ نہ کمپیوٹر، نہ ای میل، نہ واٹس ایپ۔ کاغذوں کی خوشبو اور ٹائپ رائٹر کی ٹک ٹک۔ وقت جیسے تھم جائے، مگر کام نہ رکے جو فائل شروع ہو وہ اخلاص سے ختم ہو۔ رشوت اور عوام کا استحصال خال خال ہو۔ میں سوچنے لگا۔۔ شاید یہ وہ دور تھا جب ملک ابھی خواب دیکھتا تھا اور ہماری نسلوں نے اس خواب کی تعبیر دینی تھی، جو ہم نہ دے سکے۔

پھر میری ٹائم مشین اخبارات کے اسٹال پر رکے گی، تو کیا دیکھوں گا؟ سرخیاں مشرقی پاکستان، شیخ مجیب، بھٹو اور چھ نکات سے بھری ہوئی ہوں گی۔ چائے خانوں میں لوگ ملک کے مستقبل پر بحث کر رہے ہوں گے۔ اختلاف ہوگا۔ مذہب ہوگا مگر مسلک کے بغیر۔ شیعہ سینوں کی اور سنی شیعوں کی تکریم کر رہے ہوں گے، بحث بھی ہوگی مگر تہذیب کے ساتھ۔ سپر مارکیٹ میں پارسیوں کا شراب خانہ اور روز اینڈ جیسمین گارڈن میں یورپ سے آئے ہوئے بے فکرے ہیپیوں کو دیکھوں گا۔ کوئی ریڈ زون، کوئی سیکیورٹی رسک نہیں ہوگا۔

پھر اسلام آباد کی سڑکوں پہ بنگالی پھرتے نظر آئیں گے۔ مگر بنگالیوں کو اسلام آباد چھوڑتے وقت ان کی آنکھوں میں دکھ کو پھر سے دیکھوں گا۔ اپنے بزرگوں کو بنگال کی علیحدگی پہ دھاڑیں مارتے دیکھوں گا۔ 1971 کی جنگ، اسلام آباد میں کھدے مورچے اور کھڑکیوں پہ ہوائی حملے سے بچنے کے لئے اور جی سیون کے نالے میں انڈین سیبر طیارے کا بم گرتا دیکھوں گا۔ ایوب خان کی تاریخی تقریر سنوں گا "بزدل دشمن نے رات کے اندھیرے میں حملہ کیا، مگر اس کو معلوم نہیں اس کا پالا کس قوم سے پڑا ہے"۔

پھر میں دل ہی دل میں سوچوں گا۔ اب ہم کہاں کھڑے ہیں، ہم نے اپنی زبانوں میں الفاظ بڑھا لیے، جدید علوم سیکھ لئے، ٹیکنالوجی لے آئے مگر بات کرنے کا سلیقہ کھو دیا۔ پھر چشم تصور میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کہیں نظر آئے گا۔ بچے فرش پر بیٹھے کوئی ڈرامہ یا "نیلام گھر" دیکھ رہے ہوں گے۔ بڑے خاموشی سے خبریں سن رہے ہوں گے۔ کوئی نوٹیفکیشن نہیں، کوئی بریکینگ نیوز خبروں کا شور نہیں ہوگا۔ خبر سنجیدگی سے سنی جاتی اور وقت عزت سے گزرتا نظر آئے گا۔

پھر مجھے اپنے مرحوم دادا کے بھائی یاد آئیں گے۔ ان سے ملوں گا تو ان کی سادگی ان کو یاد کراؤں گا۔ کیسے انھوں نے پچاس روپے واسکٹ کے اندر رکھ کے مری سے پنڈی سفر کیا۔ بار بار جیب پہ ہاتھ مارا تسلی کے لئے۔ جب ہمارے گھر پہنچے تو پھر جیب میں ہاتھ مارا مگر پیسے وہاں نہیں تھے۔ ان کا رنگ فق ہوگیا۔ پتہ چلا کہ جب بس بھارہ کہو سے آگے رواں ہوئی اور وہ سو گئے تو ساتھ بیٹھے جیب کترے نے ہاتھ صاف کر لیا۔ ان کو بتاؤں گا اب یہ غلطی نہیں کرنی۔

پھر مجھے اپنےگم گشتہ رشتے یاد آئیں گے۔ والدین، بہن بھائی، چچا، تائے، ننھیال سارا۔۔ وہ سب جو رخصت ہو کے آسمانوں کا رخ کر گئے اور اللہ کی پناہ میں چلے گئے۔ میں ایک ایک سے ملتا چلا جاؤں گا۔ میری آواز رندھی ہوئی ہوگی اور آنکھوں میں آنسو ہوں گے۔ میں وہ بکھری محبتیں پھر سمیٹوں گا۔ جن رشتوں کو کبھی سینے سے نہ لگا سکا، لگاؤں گا، ماں کے پاؤں کے خم کی زیارت کروں گا، آنکھوں سے بوسہ دوں گا، جہاں جنت چھپی ہوتی ہے۔

پھر یہ سوچتے سوچتے میں خود سے بے اختیار مسکرا دوں گا، ہاتھ جیب میں لے جاؤں گا، کہ موبائل نکال کر سب کی تصویریں لوں گا، مگر وہاں کچھ نہیں ملے گا۔ واٹس ایپ پر کسی کو لکھنے کا خیال آئے گا، مگر وہاں نیٹ ورک کہاں ہوگا!

ایک پل کو عجیب سی کمی محسوس ہوگی، جیسے کہیں صدیوں کا فاصلہ طے کرکے منزل پہ پہنچوں مگر پیاسا رہوں۔ مگر پھر دل کہے گا۔۔ جو دیکھ رہے ہو اس کو آنکھوں میں سمو لو۔۔ یہاں ہر چیز اصلی ہے۔ رشتے، باتیں، لوگ۔ کسی چیز میں مصنوعی پن نہیں، مگر اخلاص اور سادگی ہے۔

2025 میں واپس جاؤ گے سب کچھ ملےگا، مگر کچھ بھی نہیں ملے گا۔ ہر چیز میں، ہر رشتے میں تشنگی دیکھو گے۔ جی بھر کر یہ آنکھوں میں سمو لو۔

پھر یہ خیال آئے گا "کاش یہ ٹائم مشین یہیں خراب ہو جائے۔ میں یہی رک جاؤں اور یہیں سے زندگی دوبارہ شروع کروں"۔

سوچوں گا دوبارہ اب وہ غلطیاں نہیں دہراؤں گا جو کر چکا ہوں۔

مگر اگلے لمحے دل میں ایک دوسرا خیال آئے گا۔۔ اگر یہ ماضی اتنا خوبصورت ہے تو کہیں مستقبل اُس سے بدتر نہ ہو جائے جو موجود ہے؟ جو میں نے دیکھا، جو برتا وہی میری قسمت تھی، اس کو میں کیسے اور کیوں بدلوں۔

پھر اپنے بچوں کا خیال آئے گا دوستوں کا خیال آئے گا زمانے بھر کی آسائشوں کا خیال آئے گا۔ سیاست، شور، واٹس ایپ، تیز رفتار زندگی اور ان سب کے ساتھ دنیا کی رنگینیاں، موسیقی، ٹیکنالوجی، دنیا کے سفر۔۔ سب یاد آنے لگے گے۔

دل کے کسی کونے میں ہلچل ہوگی۔ شاید میں واپس جانا چاہتا ہوں، میں ایک گہرا سانس لوں گا، ٹائم مشین کا بٹن دباؤں گا اور لمحہ بھر میں پھر سے 2025 میں واپس آجاؤں گا۔

Check Also

Cher Na Deepak Rag Sakhi Ri

By Javed Ayaz Khan