Dhola Talagange Neya
ڈھولا تلہ گنگے نیا

ڈھولا تلہ گنگے نیا فتح جنگے نی بولی بول۔ یہ صرف ایک لوک مصرع نہیں، یہ اس ذہنیت کی نمائندگی ہے جو طاقتور اکائی کمزور حصے سے مخاطب ہو کر اپنائیت کا دعویٰ بھی کرتی ہے اور اختیار بھی اپنے پاس رکھتی ہے۔ تلہ گنگ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ ایک ایسی کہانی جو ضلع کیمبل پور سے شروع ہو کر اٹک، پھر چکوال تک پہنچی، مگر منزل کہیں نہیں ملی۔ تلہ گنگ کبھی ضلع کیمبل پور (موجودہ اٹک) کی تحصیل تھا، 1985 میں انتظامی ضرورت کے نام پر اسے ضلع اٹک سے الگ کرکے ضلع چکوال بنانے کے لیے استعمال کیا گیا، مگر یہ استعمال ایسا تھا جیسے اینٹ کو دیوار بنانے کے بعد بھول جایا جائے۔ رتبہ تو دے دیا گیا، مگر وسائل نہیں۔ شناخت تو دی گئی، مگر اختیار نہیں۔ نام تو تحصیل اور پھر ضلع کا لکھ دیا گیا، مگر روح وہی پرانی، محرومی سے لبریز رہی۔ یہ وہ تلہ گنگ ہے جسے کبھی پورا اپنا نہیں سمجھا گیا، نہ اٹک نے، نہ چکوال نے، بلکہ دونوں نے اسے اپنی سہولت کے مطابق برتا اور یہ المیہ صرف تلہ گنگ کا نہیں، پورے ملک کے ان چھوٹے حصوں کا ہے جو بڑی اکائیوں کی ترقی کے لیے قربان ہوتے رہے۔
ہم یہ سمجھتے رہے کہ اٹک والے تلہ گنگ سے محبت کرتے تھے، اسے اپنا حصہ مانتے تھے، اس پر فخر کرتے تھے۔ مگر تاریخ کی گرد ہٹی تو معلوم ہوا کہ تحصیل تلہ گنگ کو پنڈی گھیب سے اسی طرح چلایا جاتا رہا جس طرح آج ضلع تلہ گنگ کو چکوال سے چلایا جا رہا ہے۔ مطلب واضح ہے۔ دفتر مرکز میں، افسر مرکز میں، فائلیں مرکز میں اور فیصلے بھی مرکز میں۔ تلہ گنگ کے حصے میں آیا تو صرف نام، صرف کاغذی حیثیت، صرف یہ خوش فہمی کہ ہم بھی کسی ضلع یا تحصیل کا حصہ ہیں۔ ترقیاتی بجٹ کا رخ ہمیشہ چکوال شہر کی طرف رہا، سڑکیں، تعلیمی ادارے، صحت کی سہولتیں، سرکاری دفاتر۔ سب کچھ مرکز کے لیے اور تلہ گنگ کے لیے صبر، انتظار اور خاموشی۔ یہ وہ خاموشی ہے جو احتجاج نہیں کرتی، جو سوال نہیں اٹھاتی، جو حق مانگتے ہوئے بھی نظریں جھکا لیتی ہے اور شاید یہی خاموشی سب سے بڑا جرم بن گئی، کیونکہ اس نے محرومی کو معمول بنا دیا۔
دلچسپ اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس مسلسل سوتیلے سلوک پر تلہ گنگ نے کبھی اجتماعی طور پر برا نہیں منایا۔ نہ سڑکوں پر ہنگامہ ہوا، نہ بڑے نعرے لگے، نہ طاقت کے ایوانوں کو ہلا دینے والی آواز اٹھی۔ یوں لگتا ہے جیسے غلامی اور حق تلفی کے ساتھ جینا ایک عادت بن گئی ہو، جیسے محرومی بھی شناخت کا حصہ بن گئی ہو۔ بڑے دعوے کرنے والے کہتے رہے، ڈھولا تلہ گنگے نیا فتح جنگے نی بولی بول، یعنی تم ہمارے ہو، ہماری زبان بولو، ہمارے لہجے میں بات کرو۔ پھر جب تلہ گنگ چکوال کے ساتھ جڑا تو نیا راگ شروع ہوا: ڈھولا تلہ گنگے نیا چکوالے نی بولی بول۔ بولی بدل گئی، لہجہ بدل گیا، مگر محرومی نہیں بدلی۔ مرکز بدلتا رہا، استحصال کا طریقہ وہی رہا۔ یہ وہ سیاست ہے جو اپنائیت کا راگ الاپتی ہے مگر وسائل کی تقسیم میں بے رحم ہو جاتی ہے، جو شناخت دیتی ہے مگر اختیار نہیں دیتی، جو وعدے کرتی ہے مگر عمل سے خالی رہتی ہے۔
یہ کالم صرف تلہ گنگ کے دکھ کا نوحہ نہیں، یہ اہلِ اٹک اور اہلِ چکوال دونوں کے لیے آئینہ ہے۔ ایک ایسا آئینہ جس میں انہیں اپنی وہ شکل نظر آنی چاہیے جس پر شرمندہ ہونا لازم ہے۔ یہ کہنا آسان ہے کہ وقت نے سب کچھ بدل دیا، مگر سوال یہ ہے کہ نیت کب بدلی؟ اگر تلہ گنگ واقعی اپنا تھا تو اس کے لیے ہیڈکوارٹر کیوں نہ بنے؟ افسران کیوں نہ آئے؟ ادارے کیوں نہ قائم ہوئے؟ اگر تلہ گنگ ضلع بننے کے قابل تھا تو اسے ضلع کے وسائل کیوں نہ ملے؟ حقیقت یہ ہے کہ تلہ گنگ کو ہمیشہ ایک بفر زون سمجھا گیا، ایک ایسا علاقہ جسے استعمال کیا جا سکتا ہے مگر سنوارنا ضروری نہیں۔ آج اگر کوئی آواز اٹھ رہی ہے تو اس لیے نہیں کہ تلہ گنگ جاگ گیا ہے، بلکہ اس لیے کہ تاریخ بولنے لگی ہے اور تاریخ جب بولتی ہے تو افراد، معاشروں اور قوموں کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتی ہے۔
یہ بات یاد رکھیے کہ وقت نے اس ناانصافی پر اس وقت کچھ نہیں کہا، مگر اب کہنے والے ہیں۔ آنے والی نسلیں سوال کریں گی کہ جب اختیار تمہارے پاس تھا تو تم نے انصاف کیوں نہیں کیا؟ جب وسائل تھے تو تم نے برابر کیوں نہ بانٹے؟ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی، نہ ضلع کو، نہ صوبے کو، نہ مرکز کو۔ آج تلہ گنگ کی مثال دی جا رہی ہے، کل کسی اور چھوٹی اکائی کی باری ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریر صرف مقامی نہیں، قومی ہے۔ یہ پورے پاکستان کے لیے ایک وارننگ ہے کہ بڑی اکائیاں اگر چھوٹی اکائیوں کو کچل کر ترقی کریں گی تو یہ ترقی کھوکھلی ہوگی، عارضی ہوگی اور ایک دن زمین بوس ہو جائے گی۔ اصل ترقی وہ ہے جس میں ہر حصہ، ہر تحصیل، ہر ضلع خود کو برابر کا شریک سمجھے، نہ کہ سوتیلا بچہ۔
اب وقت ہے کہ اہلِ اٹک اور اہلِ چکوال نہ صرف دفاعی رویہ ترک کریں، بلکہ ایمانداری سے اعتراف کریں کہ تلہ گنگ کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ یہ اعتراف کمزوری نہیں، طاقت کی علامت ہوتا ہے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم، اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اور محروم علاقوں کو حقیقی خود مختاری دینا ہی وہ راستہ ہے جو تاریخ کے کٹہرے سے باعزت بری کروا سکتا ہے۔ ورنہ یہ مصرعے صرف لوک گیت نہیں رہیں گے، بلکہ فردِ جرم بن جائیں گے: ڈھولا تلہ گنگے نیا اور تاریخ پوچھے گی کہ جب تلہ گنگ تمہارا تھا، تو تم نے اسے اس کا حق کیوں نہ دیا؟

