Uski Baatein Yaad Rahi Aur Uska Chehra Bhool Gaya
اس کی باتیں یاد رہیں اور اس کا چہرہ بھول گیا

ذرا سی تیز ہوا چلی نہیں اور لائٹ گئی نہیں۔ سردیوں میں آندھی یا بارش کے ساتھ ہی سب سے پہلی آواز یہ آتی کہ لالٹین کا تیل دیکھو، اگر نہیں تو بھاگ کر نکڑ والی دکان سے آٹھ آنے کا تیل ڈلوا لاؤ۔ بانس کی پرانی چھڑی کے ساتھ چلنے والے بابے ابراہیم موچی نے گھی والے کنستر میں مٹی کا تیل رکھا ہوتا تھا۔ سردیوں میں لالٹین میں تیل ڈلواتا اور دوبارہ گھر کی طرف دوڑ لگا دیتا۔
ہم تین بھائی اور ایک بہن ایک کمرے میں سوتے تھے۔ اکثر اس بات پر جھگڑا ہوتا کہ لالٹین کس کے قریب رکھی جائے گی کیوں کہ سبھی اسکول جاتے تھے اور کسی نہ کسی کو اپنا ہوم ورک کرنا ہوتا تھا۔
آج کے مکانوں میں، جو ایک چیز تبدیل ہوئی ہے، وہ شیلفیں (پڑچھتیاں) ہیں۔ پہلے ہر کمرے میں چھت سے ذرا نیچے ایک بڑی شیلف ہوتی تھی، جس پر اکثر جہیز میں لائے جانے والے پیتل کے بڑے بڑے برتن، پراتیں، ٹب، کیتلیاں، گلاس اور چھنے وغیرہ رکھے جاتے تھے۔
اس شیلف پر کوئی بھی چیز رکھنے یا اتارنے کے لیے سیڑھی استعمال ہوتی تھی لیکن ایک چھوٹی شیلف نیچے ہوتی تھی، جہاں پر کوئی ڈیکوریشن پیس یا فریم وغیرہ میں لگی تصویریں وغیرہ رکھی ہوتی تھیں۔
ہماری لالٹین اسی چھوٹی شیلف پر رکھی جاتی تاکہ روشنی سارے کمرے میں جائے۔ میں کبھی کبھار لالٹین کا فیتہ زیادہ اوپر کر دیتا تو فوراً امی جی کی آواز آتی: "نیچے کرو، ورنہ لالٹین کا شیشہ دھوئیں سے کالا ہو جائے گا"۔
کبھی کبھار رات گئے لالٹین کا فیتہ ختم ہو جاتا تو ہم فوراً کسی پیالی یا چراغ میں سرسوں کا تیل ڈالتے، خود ہی روئی کا ایک فیتہ بناتے اور لالٹین کا متبادل تیار کر لیتے لیکن اس میں مسئلہ یہ تھا کہ سیاہ دھوئیں کے نشانات دیوار پر لگ جاتے اور یہ نشان تب تک رہتے جب تک دوبارہ چونے سے تیار ہونے والا رنگ (کلی) نہ اُس پر پھیر دیا جاتا۔
عید وغیرہ پر چونے میں نیل ڈال کر دیواروں پر رنگ کیا جاتا۔ اسی طرح پیتل کے برتنوں کو بھی خاص تہواروں کی مناسبت سے نئے سرے سے پالش کیا جاتا تھا۔ میں اکثر اپنی تختی سونے سے پہلے لکھتا تھا۔ باجی ہمیشہ اس وجہ سے ڈانٹتی کہ یہ بدتمیز اپنا اسکول کا کام صبح کے وقت کیوں نہیں کرتا۔
میں بڑی باجی کے ہر روز کے احتجاج کے باوجود لالٹین نیچے زمین پر رکھتا، تھیلے نما بستے میں سے قلم اور دوات نکالتا اور لکڑی سے بنی تختی پر سبق لکھنا شروع کر دیتا۔ اس وقت یہی کُل متاع ہوتی تھی: قلم، سیاہی، دوات، سلیٹ اور سکہ وغیرہ۔
مَیں تختی پر لائنیں لگانے کے لیے سکہ ہمیشہ کسی ریڈیو کی بیٹری توڑ کر ہی نکالا کرتا تھا۔
اس وقت موم بتیاں بھی تھیں لیکن مٹی کا تیل سستا ہونے کی وجہ سے ہم لالٹین اور دیا ہی استعمال کرتے رہتے۔ کبھی کبھار ہم موم بتی بھی لے آتے۔
جس دن بھی بارش تیز یا مسلسل ہوتی تو چھت سے پانی ٹپکنا شروع ہو جاتا۔ جہاں جہاں سے پانی ٹپکنا شروع ہوتا، ہم بہن بھائی اس کے نیچے برتن، بالٹی یا پرات وغیرہ رکھتے جاتے تاکہ پانی اس میں جمع ہو۔ میں رضائی سے منہ نکال کر یہ اندازہ لگاتا رہتا کہ چھت سے ٹپکنے والا اگلا قطرہ کس برتن میں گرے گا۔
لالٹین کی مدھم روشنی، تیز ہوا کی سرسراہٹ، لحاف کے اندر خود کو گرم رکھنے کی کوشش، بارش کی رم جھم، کچی چھت پر گرتی اور رقص کرتی بارش کی بوندوں کی آواز، بادلوں کی گھن گرج اور چھت سے ٹپکتے قطرے ایک جادوئی ماحول پیدا کر دیتے تھے۔
لیکن تب مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں آٹو ہیٹڈ کمروں، نرم گداز صوفوں، قالینوں اور جرمن میڈ رضائیوں کے ہوتے ہوئے بھی ان کی چاہت کروں گا، وہ کاغذ کی کشتی یاد کروں گا وہ بارش کا پانی یاد کروں گا۔
ہمارے گھر روئی ہمیشہ اس وجہ سے بھی رہتی کہ نانا جی نے آٹا پیسنے کی مشین کے ساتھ ساتھ روئی دھننے کی مشین (پینجہ) بھی لگا رکھی تھی اور یہ اب بھی ہیں۔ ابھی دو ماہ پہلے گیا تو شام کے بعد بھی رضائیاں بھری جا رہی تھیں۔ دیکھتے ہی یوں لگا جیسے ماضی کی کوئی فلم چل گئی ہے، جیسے ابھی ابھی سردیاں آئی ہیں، نانی جی جیسے صحن میں بیٹھی سوت کات رہی ہیں، امی جی رضائیاں بھر رہی ہیں، کسی چار پائی پر دھوپ لگوانے کے لیے دریاں، سرہانے اور رضائیاں رکھی ہیں اور میں یہی کہیں درمیان میں کھڑا دیکھ رہا ہوں۔
اج پُرانی پیٹی چوں
تیریاں یاداں کَڈ کے
دُھپے پایاں نیں
اکھاں بھر آئیاں نیں
چرخہ کاتنے والی نانی جی نہیں رہیں، ان کا جھریوں بھرا چہرہ نہیں رہا، نانا جی رات کو سوئے سوئے رخصت ہو گئے اور ان کی مرغیوں کے ساتھ ساتھ سکھ چین کا وہ درخت بھی نہیں رہا، جو انہوں نے گھر کے صحن میں لگایا تھا۔
اب تو یہ بھی یاد نہیں ہے فرق تھا کتنا دونوں میں
اس کی باتیں یاد رہیں اور اس کا چہرہ بھول گیا
پینجہ اب بھی چلتا ہے اور لیکن رضائیاں بھروانے والے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ تب زمانہ جدید نہیں تھا، نئے سلکی کمبل نہیں تھے اور ان کے گھر رضائیاں بھروانے والوں کا ہمیشہ تانتا بندھا رہتا تھا۔
ہم چھوٹے چھوٹے تھے تو نانی جی سوت خود کاتتی تھیں۔ میں بھی کبھی کبھار کھیل کھیل میں ایک باریک چھڑی (کانے) کی مدد سے روئی کی پونیاں بنا کر انہیں دیتا رہتا اور وہ اُسے چرخے کے کتلے پر چڑھا کر اس سے دھاگا بناتیں۔ مجھے سب سے زیادہ مزہ چرخہ چلانے میں آتا کیوں کہ وہ ٹائر کی طرح گھومتا جاتا اور ایک سیٹی کی سی مخصوص آواز پیدا ہوتی جاتی۔ نصرت فتح علی خاں صاحب کا گایا ہوا ایک گیت ہے۔
سن چرخے دی مٹھی مٹھی کوک
ماہیا مینو یاد آنودا
یہ جو میٹھی میٹھی کوک ہے، یہ وہی مخصوص آواز ہے، جو چرخہ گھومنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اب بھی یادوں کا چرخہ گھومتا ہے تو یہ رسیلی آواز کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیتی ہے۔
اب جرمنی کی یخ بستہ راتوں میں جب بھی کبھی رات کو موسلا دھار بارش ہوتی ہے یا تیز ہوا مخصوص آوازیں پیدا کرتی ہے تو مجھے بے ساختہ اپنا ماضی، ٹپکتی ہوئی چھت، لالٹین، دیا، تختی اور امی جی کا چرخہ یاد آنا شروع ہو جاتے ہیں۔
مجھے پہلی جماعت کا وہ قاعدہ یاد آ جاتا ہے، جس کی سب سے مشہور نظم بلبل کا بچہ، تھی۔ اب مجھے لگتا ہے کہ وہ بلبل کا بچہ میں تھا، جو کھاتا تھا کچڑی، پیتا تھا پانی، اک دن اڑایا، واپس نہ آیا۔

