زوال پرستی
ہم اب آتے ہیں تعلیم کی طرف، ہمارے خطے میں تعلیم کے چار ادوار گزرے ہیں، پہلا دور سلاطین کا زمانہ تھا، وہ تعلیم کا ایک مشکل اور مہنگا زمانہ تھا، ہندوستان میں اسکول اور مدارس نہیں تھے، شاہی خاندان اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے سینٹرل ایشیا، ایران، ترکی، عراق اور شام سے اساتذہ امپورٹ کرتے تھے، یہ لوگ مختلف علوم کے ماہر ہوتے تھے۔
بادشاہ انھیں لمبے چوڑے معاوضے اور مراعات کا لالچ دے کر ہندوستان بلواتے تھے، یہ لوگ دہلی اور آگرہ میں بس جاتے تھے، بادشاہ ان کے لیے الگ محلے بنواتے تھے، ان کے لیے وظیفہ طے کیا جاتا تھا اور ان کو مستقلاً ہندوستان میں رکھنے کے لیے ان کی اعلیٰ خاندانوں میں شادیاں کرا دی جاتی تھیں، یہ لوگ بعد ازاں شاہی اور رئیس خاندان کے بچوں کو تعلیم دیتے تھے، بادشاہوں کی دیکھا دیکھی ہندوستان کے مختلف راجوں، مہاراجوں اور صوبیداروں نے بھی یہ بندوبست کر لیا، یہ بھی اساتذہ اور اتالیق درآمد کر کے اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرا لیتے تھے، یہ ایک طریقہ تھا، دوسرا طریقہ صوفیاء کرام اور رحمدل اساتذہ کا وضع کردہ تھا۔
اساتذہ دوسرے خطوں سے ہندوستان آتے اور مختلف علاقوں کے اہل ثروت کی مدد سے مختلف شہروں میں اپنی درس گاہیں بنا لیتے، صوفیاء کرام بھی اپنی درگاہوں پر درس و تدریس کا انتظام کرتے تھے، علم کے طالب دور دور سے ان درس گاہوں اور درگاہوں پر آتے اور جہاں تک ممکن ہوتا تعلیم حاصل کرتے، یہ تعلیم حاصل کرنے کا محدود اور کمیاب طریقہ تھا، آپ ہندوستان کے مختلف مفتی، مولانا، سید اور مرزا فیملیز کے پروفائل نکالیں، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔
ان کے آباؤ اجداد وہ اتالیق تھے جو ماضی میں ہندوستان آئے اور یہاں آ کر رچ بس گئے، یہ لوگ آہستہ آہستہ خاندان بنتے چلے گئے، سلاطین اور مغلوں کے زمانے میں تعلیم عام کیوں نہیں تھی؟ اس کی دو وجوہات تھیں، پہلی وجہ ہندوستان کے حکمران تھے، یہ لوگ فوجی تھے، یہ ملک کو فتح کرنے آتے تھے اور ملکوں کو فتح کرنے والے لوگ ریفارمز نہیں کیا کرتے، دوسری وجہ انفراسٹرکچر یا رسل و رسائل کے ذرائع کی کمی تھی، استاد کس سڑک پر سفر کر کے دور دراز علاقوں کے طالب علموں کو تعلیم دینے آتے اور شاگرد کس بس، کس ریل گاڑی پر بیٹھ کر درس گاہ تک جاتے؟ چنانچہ استاد اور شاگرد دونوں محتاج تھے اور اس محتاجی نے ہزاروں سال تک اس خطے کو تعلیم سے دور رکھا۔
ہندوستان میں تعلیم کا دوسرا دور انگریز کا زمانہ تھا، انگریز نے 1857ء کی جنگ کے بعد ہندوستان میں سڑک، پل، ریل، ٹیلی فون اور ٹیلی گراف کا نیٹ ورک بچھایا، یہ انفرا سٹرکچر جہاں جہاں پہنچا وہاں مشنری اور سرکاری اسکول اور کالج بنے، آپ ہندوستان کے تمام پرانے تعلیمی اداروں کی ہسٹری نکال کر دیکھئے، آپ کو یہ تمام ادارے سڑک کی تعمیر کے بعد بنتے نظر آئیں گے، آپ یونیورسٹیوں کی تاریخ بھی نکال لیجیے، ہندوستان کی تمام یونیورسٹیاں ریلوے کے بعد بنیں اور یہ ریلوے اسٹیشن کے قریب تھیں، آپ برصغیر کے وہ علاقے بھی سرچ کیجیے جو انگریز کے دور میں تعلیم میں باقی ہندوستان سے پیچھے رہ گئے۔
آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے، انگریز ان علاقوں میں سڑک اور ریل نہیں بنا سکا تھا چنانچہ ریل اور سڑک کی کمی ان علاقوں کے عوام کو تعلیم سے دور لے گئی، انگریز کی دیکھا دیکھی ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں نے بھی جدید تعلیم کے ادارے بنائے، آپ پاٹ شالوں کی ہسٹری نکال کر دیکھ لیجیے یا خالصہ اسکولوں اور کالجوں کی ہسٹری یا پھر علی گڑھ یونیورسٹی اور سندھ مدرسہ کی ہسٹری، آپ کو یہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھی بڑی شاہراہوں اور ریلوے اسٹیشنوں کے گرد بنتی نظر آئیں گی، کیوں؟ کیونکہ سڑک اور ریل دو ایسے بڑے ذرائع تھے جن کے ذریعے اہل اساتذہ اور تعلیم کے طلب گار شاگرد تعلیمی اداروں تک پہنچ سکتے تھے، آپ یقین کیجیے اگر انگریز ہندوستان میں انفراسٹرکچر پر توجہ نہ دیتا تو ہندوستان میں تعلیم کی حالت آج بھی مغلیہ دور سے بہتر نہ ہوتی، یہ سڑک اور ریل تھی جس نے ہندوستان کے عام شہری پر تعلیم کے دروازے کھولے اور یہ علم کی روشنی سے بہرہ مند ہوا۔
ہم اب پاکستان کے دور میں داخل ہوتے ہیں، ایوب خان ملک کے پہلے حکمران تھے جنھوں نے انفراسٹرکچر پر توجہ دی، ایوب دور میں سڑکیں چھوٹے قصبات اور دیہات تک گئیں، ریڈیو کے اسٹیشنز میں اضافہ ہوا، ٹیلی ویژن آیا، فون لگا اور ریلوے کے لوکل روٹس شروع ہوئے، یہ نعمتیں جہاں جہاں گئیں وہاں وہاں نئے تعلیمی ادارے بنے، آپ ایوب دور سے پہلے کا ڈیٹا نکال لیجیے اور آپ ایوب دور کے بعد تعلیمی اداروں کی تعداد دیکھ لیجیے۔
آپ کو ایک اور دس کا فرق ملے گا، ملک میں تعلیمی اداروں میں دس گناہ اضافہ کیسے ہوا؟ اس کی وجہ بھی انفراسٹرکچر تھی، سڑک آئی تو اسکول بھی کھلا، اسکول کھلا تو بچے کا لج بھی پہنچے اور یہ کالج آئے تو انھیں یونیورسٹی کی ضرورت بھی پڑی اور سڑکیں اور ریلوے ان کی یہ ضرورتیں پوری کرتے رہے، یہ خطے میں تعلیم کا تیسرا دور تھا، ملک کا چوتھا دور ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ تھا، بھٹو صاحب نے ملک کے تمام تعلیمی ادارے بھی قومیا لیے اور طالب علموں کا سفر بھی مفت کر دیا، یہ دونوں فیصلے ملک میں تعلیمی انقلاب کی بنیاد بنے، بھٹو صاحب سے قبل تعلیم پرائیویٹ تھی، طالب علموں کو بھاری فیس ادا کرنا پڑتی تھی۔
شہر یا قصبے کے طالب علم ٹرانسپورٹ کے کرایوں کی وجہ سے بھی تعلیم کے لیے دوسرے شہروں میں نہیں جا سکتے تھے چنانچہ اس دور میں 90 فیصد طالب علموں کی تعلیم پرائمری کے بعد وہاں ختم ہو جاتی تھی جہاں انھیں مڈل اور ہائی اسکول اور کالج کی فیس ادا کرنا پڑتی تھی یا روزانہ بس اور ریل کا کرایہ دینا پڑتا تھا، آپ بھٹو صاحب کے زمانے کے اعداد و شمار نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو ایوب خان اور بھٹو کے دور میں زمین آسمان کا فرق ملے گا، بھٹو صاحب کے ان دو اقدامات نے ملک میں کالج اور یونیورسٹی پہنچنے والے طالب علموں کی تعداد میں بیس گنا اضافہ کر دیا۔
آپ کو آج چالیس سال سے اوپر جتنے گریجوایٹ یا پوسٹ گریجوایٹ ملتے ہیں ان میں سے نوے فیصد لوگ بھٹو صاحب کی مہربانی ہیں، بھٹو صاحب یہ دو فیصلے نہ کرتے تو شاید یہ لوگ کالج اور یونیورسٹی کا منہ نہ دیکھ پاتے، آپ ملک کے کسی گاؤں اور قصبے کا پروفائل بھی نکال لیجیے، آپ کو اس گاؤں اور قصبے میں بھٹو صاحب کے دور میں جتنے گریجوایٹ ملیں گے، اتنے آپ کو ماضی میں نظر نہیں آئیں گے، گو بھٹو صاحب کے ان فیصلوں نے ملک کو چند سماجی نقصان بھی پہنچائے، ان میں تعلیم کا پست معیار اور طالب علموں کی بدمعاشی شامل ہیں لیکن فائدے بہرحال زیادہ تھے۔
ہم اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو ہمیں سڑک، ریل اور میٹرو کا تعلیم سے گہرا تعلق ملے گا، برطانیہ میں 1096ء میں آکسفورڈ اور 1209ء میں کیمبرج یونیورسٹی بنی، امریکا میں 1636ء میں ہارورڈ یونیورسٹی بنی، اٹلی میں یونیورسٹی آف بولونا1088ء اور فرانس میں یونیورسٹی آف پیرس1160ء میں بنی، یہ یونیورسٹیاں اس سے پہلے کیوں نہیں بنیں؟ کیونکہ اس سے قبل سڑک نہیں تھی، کیونکہ اس سے قبل امریکا میں ریلوے بھی نہیں تھا، آپ آج آکسفورڈ اور کیمبرج کا سڑک اور ریل سے رابطہ توڑ دیں۔
آپ آج لندن اور پیرس کی انڈر گراؤنڈ ٹرینیں بند کر دیں آپ اس کے بعد کیمبرج اور آکسفورڈ کا معیار بھی دیکھ لیجیے گا اور آپ لندن اور پیرس کی تعلیمی شرح بھی ملاحظہ کر لیجیے گا، معاشروں کو علم اور کام دونوں کے لیے ٹرانسپورٹ کا سستا ذریعہ چاہیے، آپ کے ملک میں اگر سڑکیں نہیں ہوں گی، ریلوے نہیں ہو گا اور پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہو گی تو تعلیم بھی نہیں ہو گی، منڈیاں بھی نہیں ہوں گی اور بازار اور کارخانے بھی نہیں ہوں گے، آپ کسی دن اپنی سڑکیں، اپنی ریلوے بند کر دیں اور اس کے بعد تعلیمی اداروں، دفتروں اور کارخانوں میں حاضری دیکھیں؟ آپ افغانستان اور افریقہ کے ملکوں کا تعلیمی اور معاشی ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیجیے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی افغانستان میں افغان روس جنگ کے دوران بھی کالج اور یونیورسٹیاں کھلی رہیں، طالبان دنیاوی تعلیم کے خلاف تھے لیکن وہ بھی زیادہ دیر تک تعلیمی ادارے بند نہ رکھ سکے، ملاعمر کے زمانے میں بھی اسکول، کالج اور افغانستان کی دو یونیورسٹیاں کھلی رہیں لیکن پھر افغانستان کا نظام تعلیم کیوں زوال پذیر ہوا؟ افغانستان کے تعلیمی اداروں نے جنگ کے زمانوں میں اچھے طالب علم پیدا کیوں نہیں کیے؟ جواب واضح ہے۔
افغانستان میں 1970ء سے لے کر 2002ء تک تعلیمی ادارے تو کھلے تھے لیکن سٹرکیں معطل تھیں چنانچہ استاد پہنچ سکے اور نہ ہی طالب علم اور یوں علم افغانستان میں فوت ہو گیا، آپ آج افغانستان میں تعلیم کا معیار دیکھ لیجیے، آپ تازہ ترین ڈیٹا دیکھئے، آپ افغان طالب علموں کا معیار تعلیم دیکھئے، آپ حیران رہ جائیں گے، کیوں؟ کیونکہ آج افغانستان کی سٹرکیں بحال ہیں، حکومت طالب علموں کو سستی ٹرانسپورٹ بھی فراہم کر رہی ہے لہٰذا افغانستان میں تعلیم ترقی کر رہی ہے، آپ اپنے سامنے افریقہ کا نقشہ بچھائیں اور ساؤتھ افریقہ کو دیکھیں، جنوبی افریقہ کے گرد نمیبیا، بوٹسوانا، زمبابوے، موزمبیق اور سوازی لینڈ ہیں۔
آپ پھر جنوبی افریقہ اور اس کے ان پانچ ہمسایہ ممالک کی تعلیم کا ڈیٹا نکالیے، آپ کو زمین آسمان کا فرق ملے گا، کیوں؟ کیونکہ انگریز نے انیسویں صد ی کے آخری میں جنوبی افریقہ میں سڑکیں، ریلوے اور ملک کے پانچ بڑے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بنا دیا تھا چنانچہ جنوبی افریقہ میں علم کا انقلاب آ گیا، نیلسن منڈیلا تک اس انقلاب کی پیداوار ہیں جب کہ جنوبی افریقہ کے ہمسایہ ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت نہیں تھی، یہ انفراسڑکچر سے محروم تھے لہٰذا یہ جنوبی افریقہ سے پیچھے رہ گئے۔
میری پاکستان کی صوبائی حکومت سے درخواست ہے آپ انفراسٹرکچر پر توجہ دیں، آپ جلد سے جلد بڑے شہروں میں میٹرو سروسز شروع کریں تا کہ لوگوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت ملے، یہ سہولت تعلیم میں بھی اضافہ کرے گی اور روز گار میں بھی، میری حکومتوں سے یہ بھی درخواست ہے، آپ بڑے شہروں کے مضافات میں "ایجوکیشنل سٹی" آباد کریں، آپ ملک کی بڑی یونیورسٹیوں، کالجوں اور اسکولوں کو وہاں بڑے بڑے پلاٹس دیں، آپ ان اداروں کو سرکاری امداد اور قرضے دے کر ان کے کیمپس تیار کروائیں اور پھر ان کیمپس کو میٹرو سروس سے جوڑ دیں، یہ رابطہ ملک میں تعلیمی انقلاب لے آئے گا، میری میاں شہباز شریف سے بھی درخواست ہے۔
آپ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لے کر صبح اور سہ پہر کے وقت طالب علموں کے لیے خصوصی میٹرو بسیں چلوا دیں، ان اسٹوڈنٹ بسوں کا رنگ عام بسوں سے مختلف ہونا چاہیے اور ان کے اسٹاپ بھی تعلیمی اداروں کے مطابق ہونے چاہئیں، حکومت کو اگر اس بندوبست کے لیے چند نئی سٹرکیں اور چند نئے اسٹاپ بھی بنوانا پڑیں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ انتظام طالب علموں کے لیے مفید ہو گا، میری میاں شہباز شریف سے یہ بھی درخواست ہے، آپ جب میٹرو کے ذریعے راولپنڈی اور لاہور کے پرانے شہروں میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو دور دور تک بے ترتیب، گندی اور ٹوٹی چھتیں نظر آتی ہیں۔
یہ مناظر مسافروں کی حس جمال پر گراں گزرتے ہیں، حکومت اگر چھتوں کو کمرشل ڈکلیئر کر کے انھیں سائن بورڈز کے لیے وقف کر دے تو مکینوں کا بھی بھلا ہو گا اور حس جمال اور حسن ذوق کی عزت بھی رہ جائے گی اور ہم عوام کو یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے ملک میں درجنوں لیڈر اور درجنوں حکومتیں آئیں، وہ حکومتیں اور وہ لیڈر قوم کے اربوں روپے کھا گئے لیکن قوم نے کوئی اعتراض نہیں کیا، آج اگر قوم کا سرمایہ قوم پر لگ رہا ہے تو اعتراضات کیوں اٹھائے جا رہے ہیں۔
ملک میں جب میٹرو نہیں تھی تو کتنے اسکول، کالج اور اسپتال بن گئے اور حکمرانوں نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے پر کتنا سرمایہ لگا دیا؟ ہم نے کبھی سوچا؟ ہم نے نہیں سوچا کیونکہ ہم ایک زوال پرست قوم ہیں اور زوال پرست قومیں سرمایہ ضایع کرنے پر سوال نہیں اٹھایا کرتیں، یہ ترقی کے عمل پر سرمایہ لگانے پر اعتراض کیا کرتی ہیں اور ہم یہ کام جی جان سے کر رہے ہیں۔