زاکوپانا کا اداس بے زار ناظر
زاکوپانا (Zako Pane) پولینڈ کے جنوب میں واقع ہے، یہ ملک کا بلند ترین شہر ہے، کراکوف سے زاکوپانا تک ایک سو دس کلو میٹر کافاصلہ ہے مگر سنگل سڑک، رش اور پہاڑی علاقے کی وجہ سے یہ فاصلہ دو اڑھائی گھنٹے میں طے ہوتا ہے، یہ شہر بھی ماؤنٹ بلینک کی طرح سردیوں میں برف میں دفن ہو جاتا ہے اور لوگ سردیوں کے کھیلوں کے لیے یہاں آتے ہیں، آپ اس شہر کو پولینڈ کا سوات یا مری بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ شہر مری اور سوات کے مقابلے میں صاف ستھرا، مہذب اور آرام دہ ہے۔
شہر میں سیکڑوں چھوٹے بڑے ہوٹل ہیں لیکن یہ ہوٹل سیاحوں کی ضرورت پوری نہیں کر پاتے چنانچہ شہر میں سیکڑوں پے اینگ گیسٹ رومز اور گیسٹ ہاؤسز ہیں، لوگ ہوٹلوں کے برابر رقم لے کر سیاحوں کو اپنے گھروں میں ٹھہرا لیتے ہیں، زاکوپانا کے گھر خوبصورت، آرام دہ اور گرم ہوتے ہیں، میں نے انٹر نیٹ کے ذریعے ہوٹل بک کرایا تھا مگر وہاں پہنچ کر ہوٹل پسند نہ آیا، میں نے ریسپشن پر موجود خاتون سے پے اینگ گیسٹ کی سہولت تلاش کرنے کی درخواست کی، خاتون نے تین چار فون کیے اور آخر میں مجھے ایک صاحب کا نمبر دے دیا، میں وہاں گیا، گھر بہت خوبصورت اور آرام دہ تھا، میں اس گھر کا پہلا مہمان تھا کیونکہ وہ لوگ اس گھر میں اسی دن شفٹ ہوئے تھے۔
وہ گھر کم گیسٹ ہاؤس تھا، مالک مکان ایک منزل پر بیوی، چار سال کے بیٹے اور کتے کے ساتھ رہتا تھا جب کہ باقی دو منزلوں پر نو کمروں کا گیسٹ ہاؤس تھا، تمام کمرے جنگل کی طرف کھلتے تھے اور جنت کا نظارہ پیش کرتے ہیں، مجھے آخری منزل پر رافٹ میں جگہ ملی، بیڈ کے دائیں جانب تکونی کھڑکی تھی اور کھڑکی سے برف پوش پہاڑ نظر آتا تھا، وہ گھر، کمرہ اور اس کی کھڑکی سے نظر آنے والا منظر تینوں یادگار تھے، میں شاید زندگی بھر ان تینوں کو بھلا نہ سکوں، زاکوپانا میں چھوٹے بڑے سیکڑوں ریستوران، چائے خانے، کافی شاپس، بارز اور ڈسکوز بھی ہیں، میں جس دن زاکوپانا پہنچا اس دن درجہ حرارت منفی بیس سینٹی گریڈ تھا لیکن لوگ گلیوں اور سڑکوں پر چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔
ہم لوگ ان کے مقابلے میں پانچ سے دس سینٹی گریڈ سردی برداشت نہیں کر پاتے، کیوں؟ وجہ بہت آسان ہے، یورپ اور ہمارے ذہن میں فرق ہے، یورپ کے لوگ ہمیشہ حل تلاش کرتے ہیں جب کہ ہمارا ذہن صرف مسئلے تلاش کرتا ہے۔ زاکوپانا اور پولینڈ کے لوگوں نے بھی سردی کا حل تلاش کر لیا ہے، یہ اونی کپڑوں کے اوپر گرم جیکٹ پہن لیتے ہیں، گلے میں مفلر باندھتے ہیں، سر پر ٹوپی رکھتے ہیں، ہاتھوں پر دستانے چڑھا لیتے ہیں اور پاؤں میں لانگ شوز پہنتے ہیں اور منفی بیس درجے میں مزے سے باہر پھرتے رہتے ہیں جب کہ ہم لوگ آج بھی چادروں کے ذریعے سردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم آج تک یہ نہیں سمجھ سکے سردی کا مقابلہ بدن کی گرمی کرتی ہے اور چادر جسم کو زیادہ دیر تک گرم نہیں رکھ سکتی، کاش پاکستان میں بھی کوئی شخص سرد علاقوں کے جسمانی کلچر میں تبدیلی پر کام کرے، دوسرا یہ لوگ گھر ہوں، دکانیں ہوں یا شاپنگ سینٹر انھیں گرم رکھتے ہیں، کاش ہم بھی ایسا کر لیں۔
حکومت نے زاکو پانا شہر میں پہاڑی ریلوے قائم کر رکھا ہے، آپ ٹکٹ خریدتے ہیں اور بجلی کی ٹرین آپ کو پہاڑ کی انتہائی بلندی تک لے جاتی ہے، ٹرین کے ڈبے کے تین اطراف شیشے کی دیواریں ہیں، آپ تین اطراف سے برف اور جنگل کا نظارہ کرتے ہوئے دس منٹ میں پہاڑ پر پہنچ جاتے ہیں، آپ کو اوپر پہنچ کر سامنے بھی برف پوش چوٹیاں نظر آتی ہیں، دائیں اور بائیں بھی اور پیچھے بھی۔ پہاڑ پر سکینگ کے چار میدان ہیں، یہ چاروں میدان چیئر لفٹس سے منسلک ہیں، سکینگ اور آئس اسکیٹنگ کے لیے مخصوص قسم کی چیئر لفٹس ہوتی ہیں، آپ پاؤں پر پیڈ باندھ کر چیئر لفٹ کا ہینڈل پکڑتے ہیں اور لفٹ آپ کو گھسیٹ کر پہاڑ کے اوپر لے جاتی ہے، آپ پہاڑ سے سکینگ کرتے ہوئے واپس نیچے جاتے ہیں اور وہاں سے ہینڈل پکڑ کر دوبارہ اوپر آ جاتے ہیں۔
پہاڑ پر درجنوں ریستوران اور کافی شاپس ہیں، میں نے وہاں ہزاروں لوگ آتے، سکینگ کرتے اور کافی شاپس میں بیٹھے دیکھے، زاکوپانا کے پہاڑ پر برف کے درمیان بیٹھ کر شام کا انتظار کرنا بھی ایک تجربہ تھا اور مجھے اس تجربے نے مدہوش کر دیا، میں سرمستی کے عالم میں وہاں بیٹھا رہا اور میرے اوپربرف برستی رہی، سردی ناقابل برداشت ہو گئی تو میں نے جھرجھری سی لی، مجھے احساس ہوا میں برف میں تقریباً دفن ہو چکا ہوں، میری پلکوں تک پر برف کی تہہ جم چکی تھی، میری دیکھا دیکھی درجن بھر لوگ وہاں بیٹھ گئے، میں نے برف جھاڑنا شروع کی تو لوگوں کی ہنسی نکل گئی۔
میں نے بھی قہقہہ لگایا، مجھے ان قہقہوں کے دوران محسوس ہوا آنسوؤں اور قہقہوں کی اپنی زبان ہوتی ہے اور یہ زبان بین الاقوامی ہوتی ہے، آپ دنیا کے کسی حصے میں کسی شخص کو روتے یا ہنستے دیکھ لیں آپ کو وہ شخص زبان کے بغیر پورا سمجھ آ جائے گا اور میں اپنے ساتھ برف میں بیٹھے لوگوں کو سمجھ آ رہا تھا اور وہ بھی مجھے پورے کے پورے سمجھ پا رہے تھے، ہم سب ایک ہی قسم کے پاگل لوگ تھے، تجربے کرنے والے اداس کنفیوژ لوگ۔
میں زاکو پانا میں کیوں گیا، اس کی دو وجوہات تھیں، پہلی وجہ ڈاگ سلج تھی اور دوسری وجہ ہارس سلج تھی، یہ دونوں برف پر چلنے والی گاڑیاں ہوتی ہیں، ان میں پہیے نہیں ہوتے، یہ لکڑی کے راڈ پر بنی ہوتی ہیں اور یہ برف میں کھینچی جاتی ہیں، ڈاگ سلج کو کتے کھینچتے ہیں جب کہ ہارس سلج گھوڑے کھینچتے ہیں، یہ دونوں دلچسپ تجربے ہیں، یورپ میں سلج دو ملکوں میں ملتی ہیں، پولینڈ میں زاکو پانا اور ناروے میں قطب شمالی پر۔ سردیوں میں قطب شمالی جانا مشکل ہوتا ہے، وہاں دسمبر میں سورج نہیں نکلتا، فلائیٹس بھی مشکل ہوتی ہیں جب کہ زاکوپانا جانا قطب شمالی کے مقابلے میں آسان ہے، آپ کو یہاں دن بھی مل جاتا ہے۔
آپ یہاں آسانی سے بھی پہنچ جاتے ہیں اور آپ کو یہاں سلج بھی مل جاتی ہیں، میں سلج پر بیٹھنا چاہتا تھا، میں نے ڈاگ اور ہارس سلج دونوں بک کرا رکھی تھیں لیکن میں بدقسمتی سے ڈاگ سلج کا تجربہ نہ کر سکا، اس کی وجہ برف باری کی کمی تھی، ڈاگ سلج کے لیے بھرپور برفباری درکار ہوتی ہے مگر میں جب وہاں پہنچا تو وہاں زیادہ برف باری نہیں ہوئی تھی، میں ڈاگ سلج تک پہنچ گیا، مالک نے مجھے گاڑی پر بھی بٹھا لیا لیکن برف کم اور نرم ہونے کی وجہ سے کتوں کو گاڑی کھینچنے میں دقت ہو رہی تھی، میں گاڑی سے اتر گیا، سلج کے مالک کی کوشش تھی وہ کتوں کو بہلا پھسلا کر مجھے چکر لگوا دے لیکن میں پولش کتوں پر ظلم کے لیے تیار نہیں تھا، میں نے سلج کے مالک کورقم دے دی، بیکری سے کتوں کے لیے مفن خریدے، کتوں کو کھلائے اور ان کے جسم پر ہاتھ پھیر کر واپس آ گیا تاہم ہارس سلج کا تجربہ ضرور ہوا، زاکوپانا میں ہارس سلج کی باقاعدہ کمپنی ہے، یہ سترہ اٹھارہ لوگوں کا گروپ بناتی ہے، یہ لوگ رات ساڑھے چھ بجے ان لوگوں کو بس میں بٹھا کر شہر سے باہر لے جاتے ہیں۔
شہر کے مضافات میں ایک برفیلی سڑک ہے، ہارس سلج اس سڑک پر چلتی ہیں، میں جس گروپ میں تھا اس میں یورپ کے مختلف لوگ شامل تھے، ہم بس کے ذریعے شہر سے باہر پہنچ گئے، وہ ایک برفیلی وادی تھی، سڑک کے ایک سائیڈ پر گہری کھائی تھی جب کہ دوسری طرف دریا تھا، دریا سے ذرا سے فاصلے پر پہاڑ تھا اور پہاڑ کی اترائیوں پر صنوبر کا گھنا جنگل تھا، ہم وہاں پہنچے تو چھ ہارس سلج ہمارا انتظار کر رہی تھیں، ایک سلج میں چار لوگ بیٹھ سکتے تھے، گھوڑے توانا اور خوبصورت تھے، کوچوان لمبی داڑھیوں والے پولش کسان تھے، انھوں نے مشعلیں جلائیں، ہمارے ہاتھوں میں پکڑائیں اور سلج کا سفر شروع ہو گیا، وادی میں اس وقت گھپ اندھیرا، تیز ہوا، ناقابل برداشت ٹھنڈ تھی، کوچوانوں کے نغمے، مشعلوں کی تھرتھراتی لوئیں، گھوڑوں کی ٹاپیں، ان کے نتھنوں سے نکلتا دھواں اور سلج کے گھسیٹنے کی بے ربط آوازیں تھیں اور دائیں جانب سرکتے پانی کی سرسراہٹ تھی اور دور وادی میں جنگلی جانوروں کی چیخیں تھیں، وہ ایک عجیب تجربہ تھا، میری سلج پر ایک پولش جوڑا بیٹھا تھا، یہ دونوں جرمن بارڈر پر چھوٹے سے پولش گاؤں میں رہتے تھے، یہ بھی میری طرح سلج کا تجربہ کرنے زاکو پانا آئے تھے، مرد کے ہاتھ میں مشعل تھی۔
وہ گھوڑے کی ٹاپوں کے ساتھ مشعل ہوا میں ٹھہراتا تھا اور اس کی نئی نویلی بیوی مسرت کے گہرے گھونٹ بھرتی تھی اور تالیاں بجاتی تھی اور میں ان کو خوش دیکھ کر خوش ہوتا تھا، مجھے سردی لگ رہی تھی، خاتون نے میرے اوپر ترس کھایا اور اپنی چادر مجھے دے دی، میں نے اس کے خاوند کی طرف دیکھا، اس نے مسکرا کر مجھے اجازت دے دی، میں نے چادر ٹانگوں پر اوڑھ لی اور اجنبی لوگوں کی مہربانی کی گرمائش میرے پورے وجود میں اتر گئی، سلج کا سفر گھنٹہ بھر جاری رہا، ہم آدھ گھنٹہ آگے گئے اور آدھ گھنٹہ واپس آئے، ہم نے جہاں سے سلج کا سفر شروع کیا تھا وہاں ٹور کمپنی نے باربی کیو اور کنسرٹ کا بندوبست کر رکھا تھا، کھانا حلال نہیں تھا، میں کھانا نہیں کھا سکتا تھا، وہ شرکاء کو، ہاٹ وائین، بھی پیش کر رہے تھے۔
میں شراب طہورہ کا قائل ہوں اور یہ ظاہر ہے زمین پر دستیاب نہیں چنانچہ میں وہ بھی نہیں پی سکتا تھا، وہ سوپ بھی سرو کر رہے تھے لیکن سوپ میں بھی ایسی چند مشکوک چیزیں موجودتھیں جنھیں مسلمان نہیں کھاتے چنانچہ میرے لیے سوپ بھی بے کار تھا، میں نے اپنے حصے کا کھانا، سوپ اور گرم شراب پولش جوڑے کو پیش کر کے چادر کا قرض اتار دیا، وہ دونوں خوش ہو گئے، مجھے پہلی بار معلوم ہوا یورپ میں لوگ شراب کو ابال کر بھی پیتے ہیں، یہ وائین کو گرم کرتے ہیں اور چائے یا سوپ کی طرح چسکیاں لے کر پی جاتے ہیں، یہ میرے لیے عجیب بات تھی، وہ لوگ پی رہے تھے۔
کھا رہے تھے اور برف پر ناچتے جا رہے تھے اور میں آگ کے قریب کھڑے ہو کر انھیں حیرت سے دیکھ رہا تھا، میں اس وقت تاحد نظر پھیلے اس برفستان میں ان کا اکیلا ناظر تھا، ہمارے چاروں طرف جنگل تھا، خاموشی تھی، برف تھی، آگ میں چٹختی ہوئی لکڑیاں تھیں، ناچتے ہوئے آٹھ جوڑے تھے اور ان کا اکیلا، اداس، بے زار ناظر تھا اور زندگی کی بے مقصدیت تھی اور میں اس وسیع پینٹنگ کا ایک نقطہ بن کر وہاں خاموش کھڑا تھا۔