ویل ڈن عمران خان
حکومت کو آج 13 دن ہو چکے ہیں، ہم اگر ان 13 دنوں کے فیصلوں کو سیاسی اور انتظامی دو حصوں میں تقسیم کریں تو بڑی دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور غلام سرور خان کے علاوہ عمران خان کے تمام سیاسی فیصلے اور سیاسی تعیناتیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں، آپ دیکھ لیجیے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ہوں، وزیراعلیٰ کے پی کے محمود خان ہوں، وزیراطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان ہوں، وزیر ریلوے شیخ رشید ہوں۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل ہوں یا پھر فواد چوہدری کے گوگل خیالات ہوں پاکستان تحریک انصاف کو ہر جگہ ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ اللہ کا خصوصی کرم ہے وفاقی اور صوبائی کابینہ کے باقی ارکان ابھی میڈیا میں نہیں آئے، یہ تاحال سکتے کے عالم میں اپنے گھروں اور دفتروں میں دبک کر بیٹھے ہیں، یہ لوگ بھی جس دن باہر آ گئے یا یہ میڈیا میں تشریف لانا شروع ہو گئے تو آپ اس دن شیخ رشید، عثمان بزدار اور فیاض الحسن چوہان کی عزت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، آپ کے دل سے ان کے لیے تعریف نکلے گی، اصل شاہکار ابھی اندر بیٹھے ہیں، ابھی تو میرے دوست شاہ فرمان اور محمود خان کی باری نہیں آئی، یہ جس دن باہر آئیں گے قوم کو لگ پتہ جائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے چند وفادار عمران خان کو قائداعظم کا اصل وارث اور ثانی قرار دے رہے ہیں، سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر بھی چل رہی ہیں جن میں قائداعظم عمران خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہیں اور قائداعظم ثانی ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر صوفے پر بیٹھے ہیں، میں ان لوگوں سے تھوڑا سا اتفاق کرتا ہوں، قائداعظم کی زندگی کا سب سے بڑا چیلنج ان کی پارٹی اور ان کے لوگ تھے اور قائداعظم ثانی بھی آج اسی چیلنج سے گزر رہے ہیں، پاکستان اگر صرف قائداعظم اور ان کے ٹائپ رائیٹر نے بنایا تھا تو آج نئے پاکستان کی تمام تر ذمے داری عمران خان اور ان کے موبائل فون پر آپڑی ہے اور اگر قائداعظم کی جیب میں چند کھوٹے سکے تھے تو آج قائداعظم ثانی کی جیب بھی کھوٹے سکوں سے بھری ہوئی ہے اور ہر سکے پر عامر لیاقت حسین جیسے لوگوں کی تصویر چھپی ہے۔
لہٰذا مجھے محسوس ہوتا ہے جس طرح قائداعظم کے ساتھیوں نے وزارتوں اور عہدوں کے لیے قائداعظم اور قائداعظم کے پاکستان کو نہیں چلنے دیا تھا بالکل اسی طرح قائداعظم ثانی کے ساتھی بھی انھیں اور ان کے نئے پاکستان کو لے کر بیٹھ جائیں گے، یہ لوگ بھی عمران خان کو چلنے نہیں دیں گے، عمران خان اگر انھیں وزارتیں نہیں دیتے تو یہ عامر لیاقت حسین اور آفتاب جہانگیر کی طرح صدارتی انتخاب اور اہم بلوں پر ووٹنگ کے دوران حکومت کو بلیک میل کریں گے اور اگر عمران خان نے دباؤ میں آ کر انھیں وزارتیں دے دیں تو یہ اختیارات مانگیں گے اور اگر اختیارات مل گئے تو یہ اپنی مرضی کے سیکریٹری، چیئرمین اور ڈی جی تعینات کرائیں گے۔
وزیراعظم نے اگر یہ مطالبے نہ مانے تو یہ وزارتوں سے استعفے دے دیں گے اور اگر وزیراعظم نے مجبور ہو کر ان کی ڈیمانڈز مان لیں تو یہ اپنی وزارتوں میں ایسے ایسے گل کھلائیں گے کہ قوم کو آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف فرشتے دکھائی دینے لگیں گے چنانچہ مجھے آج پہلی بار عمران خان پر ترس بھی آ رہا ہے اور میں ان کے لیے دعا بھی کر رہا ہوں، یہ ملک کی آخری امید ہیں، ان کا کامیاب ہونا ہمارے لیے ناگزیر ہے، عمران خان کا ماضی ایک طرف لیکن یہ اب ملک کے لیے واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن ہو سکے گاجب ان کی حکومت کھوٹے سکوں کے بوجھ سے بچ جائے گی۔
ہم اگر اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں اور ہمیں اگر اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہے تو پھر ہمیں تنقید برائے تنقید سے اوپر اٹھ کر حکومت کے اچھے فیصلوں کو تسلیم بھی کرنا ہوگا اور ان کی تعریف بھی کرنا ہوگی، ہم جس طرح عمران خان کے زیادہ تر سیاسی فیصلوں کو غلط قرار دے رہے ہیں بالکل ہمیں اسی اسپرٹ کے ساتھ ان کے اچھے انتظامی فیصلوں کی تعریف کرنا ہوگی، مجھے عمران خان کے 90 فیصد انتظامی فیصلے درست محسوس ہوتے ہیں، وزیراعظم نے سب سے پہلے محمد شہزاد ارباب کو اپنامشیربرائے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بنایا، یہ فیصلہ بہت اچھا تھا، شہزاد ارباب پشاور کی ارباب فیملی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان کے والد ارباب نیاز فوج میں کرنل تھے اور وہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں کے پی کے میں اسپورٹس کے وزیر رہے جب کہ چچا ارباب جہانگیر وزیراعلیٰ تھے، یہ ڈی ایم جی افسر ہیں، سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں، ایماندار، ان تھک اور ذہین ہیں، یہ 2014ء میں کے پی کے میں چیف سیکریٹری تھے، یہ پرویزخٹک کے غیر قانونی کاموں پر بطور احتجاج اپنے عہدے سے سبک دوش ہو گئے تھے، شہزاد ارباب نے 11 اپریل 2014ء کو پرویز خٹک کی "بیڈ گورننس" پر ایک اوپن خط لکھا تھا، یہ خط آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے اور یہ ان کی ایمانداری اور بے خوفی کا ثبوت ہے، یہ آصف علی زرداری کے ایڈیشنل سیکریٹری اور نواز شریف کے سیکریٹری کامرس رہے ہیں۔
یہ فاٹا ریفارمز کمیٹی کے سیکریٹری بھی تھے اور انھوں نے سرتاج عزیز کے ساتھ مل کر فاٹا کے انضمام کا بندوبست کیا تھا، یہ 2017ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے اور ابتدائی سو دن کا ایجنڈا بنایا، یہ عمران خان کی بہت اچھی چوائس ہیں، یہ اب اہم عہدوں پر اہم بیورو کریٹس تعینات کر رہے ہیں، شہزاد ارباب نے میاں اسد حیاء الدین کو ایڈیشنل سیکریٹری انچارج پٹرولیم بنایا، یہ 15 کامن کے ٹاپر ہیں، یہ فلیچر اسکول بوسٹن سے پی ایچ ڈی ہیں اور یہ بھی ایماندار اور ماہر افسر ہیں، یہ نواز شریف کے دور میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ تھے، ڈاکٹر اعجاز منیر کو سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ بنایا گیا، یہ 16 کامن کے ٹاپر ہیں۔
یہ نواز شریف کے ایڈیشنل سیکریٹری اور شہباز شریف کے دور میں پنجاب میں سیکریٹری ہیلتھ، سیکریٹری ہائر ایجوکیشن اور سیکریٹری سروسز رہے، محمدسلیمان خان کو آئی بی کا ڈی جی بنایا گیا، یہ15 کامن کے پولیس افسر ہیں، بنوں کے رہنے والے ہیں، سابق ڈی جی آفتاب سلطان کی ٹیم میں شامل تھے، یہ نواز شریف کے دور میں کے پی کے میں آئی بی کے سربراہ رہے، انھوں نے اس دور میں دہشت گردی کے بے شمار نیٹ ورک توڑے، شاہد خاقان عباسی نے انھیں 7 مئی کو آئی بی کا ڈی جی لگایا تھا لیکن انھیں نگران وزیراعظم نے پاکستان تحریک انصاف کے مطالبے پرعہدے سے ہٹا دیا تھا، عمران خان نے انھیں اب دوبارہ ڈی جی بنا دیا، یہ فیصلہ بھی میرٹ پر ہوا اور اچھا ہوا اور چوتھی اور اہم تعیناتی ڈاکٹر جہانزیب خان کو ایف بی آر کا چیئرمین بنانا ہے۔
یہ کمال انسان ہیں، یہ انتہائی ایماندار، مہذب، پڑھے لکھے اور تجربہ کار ہیں، یہ بزنس فرینڈلی بھی ہیں، یہ پیرس میں پانچ سال کمرشل قونصلر رہے، پاکستان کی تاریخ میں آج تک پیرس میں ان سے اچھا کمرشل قونصلر نہیں گزرا، یہ چار فرنچ کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے لیے پاکستان لائے تھے، یہ صدر سرکوزی اور ان کے خاندان کا حصہ بن گئے تھے، صدر سرکوزی نے مئی 2009ء میں صدر آصف علی زرداری کو مشورہ دیا تھا آپ ڈاکٹر جہانزیب کو فرانس میں سفیر بنا دیں، صدر زرداری نے آرڈر جاری کر دیئے لیکن یہ فارن آفس کی مخالفت کی وجہ سے سفیر نہ بن سکے، یہ دس سال پنجاب میں شہباز شریف کی ٹیم کاحصہ رہے، یہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے چیئرمین بھی تھے۔
یہ توانائی کے منصوبوں کے لیے ایڈیشنل چیف سیکریٹری بھی تھے اور یہ سیکریٹری لائیواسٹاک بھی رہے، یہ سی پیک کے توانائی کے تمام منصوبوں کے آرکی ٹیکٹ ہیں، ڈاکٹر جہانزیب نے پنجاب میں ٹیکس کولیکشن میں تین گنا اضافہ کیا تھا چنانچہ یہ ہر لحاظ سے ایف بی آر کے چیئرمین بننے کے اہل ہیں، آپ انھیں ایک سال دے دیں مجھے یقین ہے یہ ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کے لیے دوسرے عبداللہ یوسف ثابت ہوں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ آدھی دنیا دیکھ چکے ہیں، یہ کاروبار، سرمایہ کاری اور صنعت کاری کو سمجھتے ہیں، یہ پنجاب میں دس سال کام کر چکے ہیں، یہ مثبت ذہنیت کے مالک ہیں ، یہ دوسروں کی بات تحمل اور بردباری سے سن لیتے ہیں اور یہ جائز اور ناجائز کی تفریق بھی سمجھتے ہیں چنانچہ یہ واقعی ٹیکس سسٹم میں تبدیلی لے آئیں گے اور آخری تعیناتی پرنسپل سیکریٹری اعظم خان ہیں۔
یہ بھی انتہائی ایماندار، پڑھے لکھے، محنتی اور ماہر ہیں تاہم یہ گرم مزاج ہیں لیکن آپ ان کی گردن پر بندوق رکھ کر بھی غلط کام نہیں کرا سکتے، یہ ہاں یا ناں کا فیصلہ بھی فوری کرتے ہیں، یہ فائل میز پر رکھ کر "کل آ جائیے" نہیں کہتے اور یہ آج کے دور میں چھوٹی خوبی نہیں۔
عمران خان کی اس انتظامی ٹیم پر دو اعتراض کیے جا رہے ہیں، پہلا اعتراض یہ لوگ پشتون ہیں، عمران خان نے سیاسی عہدے پنجابیوں اور انتظامی پوزیشنیں پشتونوں میں تقسیم کر دی ہیں، وغیرہ وغیرہ، یہ اعتراض غلط ہے، ہمیں اب ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے میچور ہو جانا چاہیے، ہمیں اب پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی اور کشمیری کی تقسیم سے بھی باہر آ جانا چاہیے، ہمیں لوگوں کو صرف اور صرف میرٹ پر دیکھنا چاہیے اور یہ تمام لوگ میرٹ پر ہیں، یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں، ایماندار بھی، محنتی بھی اور پرفارمر بھی چنانچہ یہ جہاں سے بھی ہوں ہمیں اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور دوسرا اعتراض یہ لوگ شہباز شریف کی ٹیم تھے، مجھے اس اعتراض پر بھی اعتراض ہے، یہ شہباز شریف نہیں پاکستان کی ٹیم تھے۔
یہ آج بھی پاکستان کی ٹیم ہیں، یہ سپیریئر سول سروس کا حصہ ہیں اور یہ سروس کسی کی ذاتی جاگیر نہیں، شہباز شریف نے پورے ملک سے چن چن کر افسر اپنی ٹیم میں شامل کیے تھے، یہ لوگ دس سال پرفارم کر کے ٹرینڈ ہو چکے ہیں، عمران خان اگر آج انھیں شہباز شریف کی وجہ سے مسترد کر دیتے ہیں تو یہ بہت بڑی غلطی ہو گی، میں سمجھتا ہوں عمران خان نے ان لوگوں کا انتخاب کر کے عقل مندی اور وسیع القلبی کاثبوت دیا چنانچہ میں ان کے انتظامی فیصلوں پر ویل ڈن کہنے پر مجبور ہو رہا ہوں، ویل ڈن عمران خان،آپ اگرباقی سرکاری محکموں میں بھی ان لوگوں جیسے لوگ لے آئے تو آپ واقعی کامیاب ہو جائیں گے،آپ واقعی نیا پاکستان بنا لیں گے۔