ازبکستان میں دوسری بار
ظہر کی اذان ہو چکی تھی، وضو خانے میں رش تھا، ہم نے وضو کیا اور مسجد کی طرف دوڑ پڑے، ا مام بخاریؒ کی مسجد میں خنکی تھی، حامد میر پہلی رکعت میں پہنچ گئے جب کہ میں تیسری رکعت میں نماز میں شامل ہو گیا، امام صاحب ثمر قند کے قدیم علماء کے لباس میں ملبوس تھے، ان کی تلاوت میں ترنم اور جوش دونوں موجود تھے، مجھے امام بخاریؒ کی مسجد میں دوسری بار نماز کی سعادت حاصل ہوئی، میں رکوع و سجود کے دوران اس سعادت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا، مسجد سے نکلے تو باہر گرمی تھی، ہم امام بخاریؒ کے مزار کی طرف چل پڑے، مزار پر رش تھا، گائیڈ آ رہے تھے اور سیاحوں کو امام بخاریؒ کی شخصیت کے بارے میں معلومات دے رہے تھے اور ہم چپ چاپ سن رہے تھے۔
یہ میرا ازبکستان کا دوسرا سفر تھا، عطاء الحق قاسمی اور حامد میربھی ساتھ تھے، ہم ازبکستان حکومت کے مہمان تھے، ہم 29 مارچ کو اسلام آباد سے روانہ ہوئے اور 31 مارچ کی رات واپس پاکستان پہنچ گئے، ازبک ائیر لائین کے حامد محمود اور میرے دوست ڈاکٹر رازق داد بھی ہمارے ساتھ تھے، ڈاکٹر رازق داد تاشقند میں کاروبار کرتے ہیں، ان کی بیگم ازبک ہیں، یہ حکومت کے اسپتالوں میں طبی آلات سپلائی کرتے ہیں اور ازبکستان میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، یہ آج کل جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر پی پی 19 سے ایم پی اے کا الیکشن لڑ رہے ہیں، یہ محنتی اور مخلص انسان ہیں اوریہ اسی طرح محنت کرتے رہے تو یہ جیت بھی جائیں گے، یہ الیکشن میں مصروف تھے لیکن یہ عطاء الحق قاسمی اور حامد میر کی محبت میں ہمارے ساتھ چل پڑے۔
ہم جمعہ کے دن سیدھے ہست امام گئے اور حضرت عثمان غنیؓ کے اس قرآن مجید کی زیارت کی جس کی تلاوت کے دوران آپؓ کو شہید کر دیا گیا، یہ دنیا کا پہلا تحریری قرآن مجید ہے، یہ قرآن مجید ہرن کی کھال پر تحریر ہے اور یہ اعراب کے بغیر ہے، حضرت عثمان غنی ؓ18 ذوالحجہ 35 ہجری(17 جون 656ء) کو تلاوت کر رہے تھے کہ آپؓ پر حملہ ہوا اور آپؓ کو قرآن مجید پڑھتے ہوئے شہید کر دیا گیا، آپؓ کے لہو سے قرآن مجید کے اوراق رنگین ہو گئے، حضرت عثمان ؓ کے لہو کے نشان آج تک قرآن مجید پر موجود ہیں، یہ نسخہ امیر تیمور کو بغداد کی فتح کے بعد ملا اور یہ تیموری خاندان کی ملکیت رہا، ازبکستان پر قبضے کے بعد روسی ثمر قند، بخارا اور تاشقند کے تمام مقدس نوادرات ساتھ لے گئے، یہ نوادرات بعد ازاں کروڑوں ڈالرز میں بیچ دیے گئے لیکن ازبک لوگوں نے حضرت عثمانؓ کا قرآن مجید ان کی دست برد سے بچا لیا، یہ نسخہ تاشقند لایا گیااور اسے ہست امام کے حجرے میں چھپا کر اس کے سامنے دیوار چنوا دی گئی، تاشقند کے لوگ تقریباً سو سال تک اس نسخے کی حفاظت کرتے رہے۔
یہ نسخہ1991ء میں ازبکستان کی آزادی کے بعد باہر نکالا گیا، حجرے کو میوزیم میں تبدیل کیا گیا اور یہ قرآن مجید زیارت کے لیے عام کر دیا گیا، دنیا میں اس قرآن مجید کی پچاس کاپیاں موجود ہیں، ان میں سے ایک کاپی تاشقند کے امیر تیمور میوزیم اور دوسری استنبول کے توپ کاپی میوزیم میں بھی رکھی ہوئی ہے، یہ بھی دیکھنے میں اصل لگتی ہیں لیکن حضرت عثمان غنی ؓ کا اصل نسخہ ہست امام کے کمپاؤنڈ میں موجود ہے، میں 21ستمبر 2012ء کو پہلی بار تاشقند آیا تو مجھے اس نسخے کی زیارت کا موقع ملا، مجھے یہ سعادت اس ٹور میں دوسری بار نصیب ہوئی، میری نگاہوں نے جوں ہی حضرت عثمان غنیؓ کے لہو کے نشانوں کو چھوا، میری آنکھیں نم ہو گئیں اور میں حضرت عثمان غنی ؓ کی مظلومیت پر تڑپ اٹھا، یہ اسلام اور مسلمانوں کے محسن تھے، آپؓ کے گھر نبی اکرمؐ کی دو صاحبزادیاں رہیں لیکن اقتدار کس قدر خوفناک چیز ہوتی ہے آپ اس کا اندازہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت سے لگا لیجیے، محسن اسلام او ر داماد رسولؐ مدینہ منورہ میں صحابہؓ کے دور میں دن دیہاڑے قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے اور ان کی نعش تین دن تک قرآن مجید پر پڑی رہی۔
آپ ؓ کو بعد ازاں رات کی تنہائی میں دفن کیا گیا، آپؓ کے جنازے میں 15 سے 18 لوگ شامل تھے، ظالموں نے جنت البقیع میں آپؓ کی تدفین تک کی اجازت نہ دی، آپ ؓ کو جنت البقیع کے قریب کھجوروں کے باغ میں دفن کیا گیا، اللہ تعالیٰ کو آپؓ اس قدر محبوب تھے کہ اس نے جنت البقیع کو اس باغ تک پھیلا دیا چنانچہ آپؓ کا مرقد جنت البقیع میں آ گیا، حضرت عثمانؓ کی مظلومیت نے ہم پر بھی عظیم احسان کیا، آپؓ رسول اللہ ﷺ کے وہ قریبی ساتھی ہیں جن کی قبر ظاہر ہے اور ہم جیسے گناہ گار نہ صرف اس قبر کی زیارت کر سکتے ہیں بلکہ ہم آپ کے قدموں میں کھڑے ہو کر دعا بھی کر سکتے ہیں، مجھے متعدد مرتبہ آپؓ کے مرقد کی زیارت کا موقع ملا، مجھے اللہ تعالیٰ نے آپؓ سے منسوب قرآن مجید کے دونوں نسخوں کی زیارت کا اعزاز بھی بخشا، میں کل انشاء اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے ان دونوں نسخوں اور حضرت عثمان ؓ کے مرقد مبارک کی تصویر فیس بک اور اپنی ویب سائیٹ پر چڑھا دوں گاتا کہ آپ احباب بھی ان کی زیارت کرسکیں۔
حضرت امام بخاریؒ ہماری دوسری منزل تھے، نسل انسانی نے آج تک آپؒ جیسی دوسری شخصیت پیدا نہیں کی، آپؒ چالیس سال تک مکہ، مدینہ، بغداد، قاہرہ اور دمشق سے احادیث جمع کرتے رہے، آپؒ نے چھ لاکھ احادیث جمع کیں اور بعد ازاں 7275 متفقہ احادیث مرتب کر کے صحیح بخاری جیسی معرکۃ الآراء کتاب میں تحریر کیں، یہ احادیث مبارکہ کی مصدقہ اور نابغہ کتاب ہے، اس کتاب نے امام بخاریؒ کے نام کو دوام بخش دیا، امام بخاریؒ نے ثابت کر دیا، انسان کا جذبہ سچا ہو تو یہ ساڑھے گیارہ سو سال پہلے جب اچھی سیاہی اور اچھا قلم بھی ایجاد نہیں ہوا تھا، یہ اس وقت بھی نہ صرف چھ لاکھ احادیث جمع کر سکتا ہے بلکہ یہ اس کے حوالے بھی دریافت کر سکتا ہے اور یہ کام اللہ تعالیٰ کے خصوصی کرم کے بغیر ممکن نہیں، اللہ تعالیٰ نے مجھے دوسری بار امامؒ کے مزار پر حاضر ہونے اور آپؒ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی سعادت بخشی، ہمارے لیے دوسری بار آپؒ کے مزار کا دروازہ کھولا گیا اور ہم آپؒ کی قبر کے ساتھ بیٹھ کر دعا مانگ کر آئے، حامد میر بھی میرے ساتھ تھے اور مجھے ان کی آنکھوں میں عقیدت اور محبت کی نمی دکھائی دے رہی تھی۔
میں پچھلی بار حضرت قثم ابن عباسؓ کے مزار پر حاضر ہوا تھا، آپؓ نبی اکرمؐ کے چچا حضرت عباسؓ کے صاحبزادے تھے، آپؓ نے نبی اکرم ؐ کو لحد میں اتارنے کی سعادت بھی حاصل کی تھی، آپؓ دنیا کی واحد شخصیت ہیں جنھیں رسول اللہ ﷺ کی لحد میں اترنے اور آپؐ کا جسد اطہر اٹھا کر لحد کی پاک مٹی پر رکھنے کی سعادت حاصل ہوئی، آپؓ جوانی میں ثمر قند تشریف لے آئے اور اس علاقے میں اسلام پھیلانے لگے، مقامی لوگ آپؓ کے دشمن ہو گئے چنانچہ آپؓ کو شہید کر دیا گیا مگر لوگوں کا خیال ہے آپؓ کی شہادت کے بعد آپؓ کا جسد اطہر غائب ہو گیا، آپؓ کا صرف سر مبارک دنیا میں رہا، اس معجزے کی وجہ سے ثمر قند کے لوگ آپ ؓ کو شاہ زندہ کہتے ہیں، میں پچھلے سفر میں حضرت قثم ابن عباسؓ کے مزار پر پہنچا لیکن میں مزار کے تعویز تک نہ پہنچ سکا، مزار کا کلید بردار اس دن چھٹی پر تھا، میں نے جالی کے نزدیک کھڑے ہو کر سلام کیا، فاتحہ پڑھی اور صاحب مزار سے عرض کیا، آپؓ اگر اجازت دیں تو میں آپؓ کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے دوبارہ حاضر ہو جاؤں، میری عرض سن لی گئی چنانچہ میں نہ صرف دوسری بار ثمر قند پہنچا بلکہ اس دن کلید بردار بھی مزار میں موجود تھا، ہماری درخواست کے بغیر اس نے مزار کا دروازہ کھول دیا اور میں اور حامد میر اندر داخل ہو گئے، ہم نے صاحب مزار کے پاؤں میں بیٹھ کر سلام بھی پیش کیا، فاتحہ بھی پڑھی اور دعا بھی کی۔
ہم باہر نکلے تو باہر گمنام قبروں اور مزاروں کا طویل جنگل تھا، یہ لوگ شاہی خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے، یہ امیر تیمور کے خاندان میں پیدا ہوئے اور ان میں سے اکثر لوگ اپنے دور کے راجہ پرویز اشرف، صدر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف تھے مگر پھر وقت نے انھیں خاک اور گم نامی کا پیوند بنا دیا اور آج ان کے مزار اور قبریں تو موجود ہیں لیکن ان کے نام، عہدے اور اثاثے گم نامی کا فضلہ بن چکے ہیں، یہ خاک میں مل کر خاک ہو چکے ہیں اور تاریخ ان کا نام تک بھول چکی ہے، ہم جب حضرت ابن عباسؓ کے مزار کی طویل سیڑھیاں اتر رہے تھے تو ہر مزار ہماری نظروں کا دامن پکڑتا تھا اور گڑگڑا کر کہتا تھا آپ آج کے تمام فرعونوں کو ہمارا پیغام پہنچا دیجیے، آپ انھیں بتا دیں تم اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو ابن عباسؓ کے نقش قدم پر چلو تمہاری قبروں کے سائے تاریخ سے لمبے ہو جائیں گے، تم مرنے کے بعد بھی شاہ زندہ کی طرح زندہ رہو گے لیکن اگر تم نے ہماری طرح رئیس، مصاحب اور منصب دار بننے کی کوشش کی تو پھر دنیا میں تمہاری قبر تو موجود ہو گی مگر نام گم نامیوں کی خاک میں مل کر خواب ہو جائے گا، تم بدبو کے جھونکے کی طرح وقت کے حافظے سے محو ہو جاؤ گے۔