Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Turk Media

Turk Media

ترک میڈیا

ہم دو دن استنبول کے میڈیا ہاؤسز میں پھرتے رہے۔ استنبول کے صحافیوں نے جمعرات کی دوپہر پاکستانی وفد کو لنچ دے رکھا تھا۔"میڈیا لاگ" استنبول کے صحافیوں کی مؤثر تنظیم ہے۔ میڈیا لاگ کا سینٹر، باسفورس کے کنارے خوبصورت ولا میں قائم ہے۔ یہ محل جیسی انتہائی خوبصورت عمارت ہے۔ سینٹر کی پشت باسفورس کی طرف کھلتی ہے۔ بلیک سائیڈ پر لکڑی کا ڈیک بنا ہے۔ آپ ڈیک پر کھڑے ہوتے ہیں، تو آپ کو باسفورس اور باسفورس کے دوسرے کنارے پر استنبول کا ایشیائی حصہ نظر آتا ہے۔

شہر کا پرانا پل،میڈیا لاگ کے سینٹر سے چند گز کے فاصلے پر ہے۔ آپ کو سینٹر کے صحن، اور ڈیک سے پل اور پل کی لائٹس نظر آتی ہیں۔ لان میں شیشے کا ڈائننگ ہال ہے۔ آپ ڈائننگ ہال سے چاروں اطراف کے مناظر دیکھتے ہیں۔ یہ سینٹر جمالیاتی ذوق کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ پاکستان میں اس نوعیت کا کوئی سینٹر، کوئی عمارت نہیں۔ ہم وہاں پہنچے تو زمان اخبار اور ثمن یولا گروپ سے وابستہ کالم نگار، اور یونیورسٹی کے دو پروفیسر ہمارے منتظر تھے۔ یہ لوگ ہمیں دیکھتے ہی پھٹ پڑے " ہم پر یہ ظلم ہو رہا ہے، ہم پر وہ ظلم ہو رہا ہے"۔ ان کا کہنا تھا، طیب اردگان ترکی میں دوبارہ خلافت عثمانیہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔

یہ یہاں شدت پسند اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ صحافیوں کو گرفتار کر رہے ہیں،میڈیا گروپس خریدے جا رہے ہیں اور مالکان پر دباؤ ڈال کر، صحافیوں کو بے روزگار کیا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے انھیں بتایا پاکستان میں میڈیا پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ اور فوج سے زیادہ مضبوط ہے۔ صحافی کسی بھی وقت، کسی بھی اسکرین پر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کوئی ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتا۔ وہ لوگ دانت رگڑ کر رہ گئے۔ ہم نے انھیں بتایا ،ہمارے ملک میں صحافیوں کی گرفتاری کے صرف چند واقعات ہوئے ہیں۔

تاہم شہادتیں زیادہ ہیں۔ 14برسوں میں 100 سے زائدصحافی شہید ہوئے ہیں۔ یہ لوگ مزید حیران ہو گئے، کیونکہ ان کے پاس میڈیا پر ظلم کی بے شمار خوفناک کہانیاں تھیں۔ ہم نے ان کی کہانیاں سن کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ ہمارا میڈیا تمام تر ریاستی دباؤ کے باوجود ،ترکی کے مقابلے میں آزاد ہے۔ ہم جو چاہتے ہیں ،ہم اس کا نوے فیصد لکھ لیتے ہیں اور جو چاہتے ہیں،اس کا 95 فیصد بول لیتے ہیں جب کہ دوسرے ممالک میں یہ ممکن نہیں۔ ترک صحافیوں کے ساتھ انٹرایکشن نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔

ثمن یولو ہماری دوسری منزل تھی۔ یہ ترکی کا تیسرا بڑا میڈیا گروپ ہے۔ یہ گروپ 14 ٹیلی ویژن چینلز اور 6 ریڈیوز کا مالک ہے۔ ہم ثمن یولو کی عمارت میں داخل ہوئے تو عمارت کی خوبصورتی، صفائی اور جدت نے حیران کر دیا۔ عمارت میں سفارتخانوں جیسا سیکیورٹی سسٹم تھا۔ سیکیورٹی واک ،تھرو گیٹ تھا۔ سامان کی پڑتال کے لیے سکینر تھا اور دروازے، کارڈ کے ذریعے کھلتے تھے۔ اسٹوڈیو انتہائی خوبصورت، جدید اور صاف ستھرے تھے۔ ہم اسٹوڈیوز کی کوالٹی، کیمرے اور پینل دیکھ کر حیران رہ گئے۔ ہم نے تین اسٹوڈیو دیکھے، تینوں برطانیہ، امریکا اور یورپ کے عالمی میڈیا ہاؤسز کا مقابلہ کرتے تھے۔

اسٹاف پڑھا لکھا، مہذب اور تمیزدار تھا۔ لوگ صاف ستھرا لباس پہن کر دفتر آئے تھے۔ خواتین کی تعداد زیادہ تھی، کوریڈور صاف ستھرے اور فرنیچر نیا اور آرام دہ تھا۔ صفائی اور مینٹیننس کے لیے باقاعدہ ہاؤس کیپنگ کا ڈیپارٹمنٹ تھا۔ ہمیں ڈنر کے لیے چینل کے کیفے ٹیریا میں لے جایا گیا۔ کیفے ٹیریا فوراسٹار ریستوران جیسا تھا، سیلف سروس تھی۔ کھانے کا معیار اعلیٰ تھا اور میڈیا ہاؤس کے صدر سے لے کر ،چپڑاسی تک تمام لوگ کیفے ٹیریا میں کھانا کھاتے تھے۔

ثمن یولو کے صدر جیل میں تھے۔ ڈپٹی صدر معاملات چلا رہے تھے، یہ کیفے ٹیریا میں ہمارے ساتھ تھے۔ میری زندگی کا آدھا حصہ پاکستانی میڈیا میں گزرا ،لیکن مجھے پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ نہیں ملا جو صفائی، خوبصورتی،تکنیکی معیار اور ڈسپلن میں ثمن یولو کا مقابلہ کرتا ہو۔ ہماری میڈیا مینجمنٹ کو ترکی جا کر میڈیا ہاؤسز کے دفاتر دیکھنے چاہئیں، اور پاکستان میں بھی اس معیار کے دفاتر اور اسٹوڈیو تعمیر کرانے چاہئیں۔ہم لوگ ثمن یولو کے ہیڈ کوارٹر، اسٹوڈیوز اور سسٹم پر حیران تھے لیکن ہمیں اگلے دن زمان گروپ کے دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔

زمان گروپ کی عمارت نے ہمیں سکتے کا شکار بنا دیا۔ آپ پاکستان کی تمام بہترین اور خوبصورت عمارتوں کو ذہن میں لائیے، آپ اسلام آباد کے سینٹورس مال کو ذہن میں لائیے، لاہور کے ارفع کریم ٹاور کو سامنے رکھیئے اور کراچی کے فورم شاپنگ مال کو ذہن میں لائیے اور آپ اس کے بعد زمان گروپ کا دفتر دیکھئے۔ آپ کو یہ تینوں عمارتیں زمان میڈیا گروپ کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ہیچ محسوس ہوں گی۔ وہ عمارت ،عمارت نہیں حسن، جدت اور دلآویزی کی جادوگری تھی۔ آپ عمارت کے سامنے کھڑے ہو کر دیکھیں۔ آٹھ، دس منزل کی طویل اور جدید عمارت آپ کے سامنے ہو گی۔

آپ عمارت کے اندر داخل ہوں تو عمارت کی وسعت، اونچائی، جدت، صفائی اور تعمیراتی حسن آپ کا دل کھینچ لے گا۔ عمارت تین اطراف سے شیشوں سے بنی ہے۔عمارت میں دائیں، بائیں اور چھت سے قدرتی روشنی اندر آتی ہے۔ قدرتی روشنی کی وجہ سے عمارت میں دن کے وقت لائیٹس جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ عمارت کے درمیان کھڑے ہو کر تمام کمروں، ہالز اور نیوز روم دیکھ سکتے ہیں۔ سیکیورٹی جدید اور ائیر پورٹس جیسی تھی۔ اخبار کا پرنٹنگ پریس بھی جدید اور صاف ستھرا تھا۔

ہم اگر اپنے پرنٹنگ پریس دیکھیں تو ہمیں ان میں گند، افراتفری اورسیاہی کے دھبے نظر آتے ہیں ،جب کہ آپ زمان کے پرنٹنگ پریس میں بیٹھ کر باقاعدہ پکنک منا سکتے ہیں۔ میں نے زندگی میں تین شاندار بورڈ روم دیکھے ہیں۔ ان تینوں میں سے ایک زمان اخبار کا بورڈ روم تھا۔ زمان گروپ دو اخبار اور ایک میگزین شایع کرتا ہے۔ زمان اخبار کی سرکولیشن دس لاکھ کاپیاں روزانہ ہے۔ یہ سرکولیشن کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا اخبار ہے، لیکن یہ اخبار بھی آج کل حکومت کے زیر ِعتاب ہے۔

ایڈیٹر کو مقدمات کا سامنا ہے۔ یہ ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔ عتاب کا یہ خوف سایہ بن کر ملازمین کے چہروں سے چپکا ہوا تھا۔ میری پاکستان کے اخبار مالکان سے درخواست ہے۔ آپ جب بھی استنبول جائیں ،آپ زمان گروپ کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ ضرور کریں۔ زمان کے سسٹم دیکھیں اور اس کے بعد پاکستان میں بھی ایسی عمارت اور ایسے سسٹم بنانے کی کوشش کریں۔ دنیا جہاں سے صحافی پاکستان آتے ہیں اور یہ لوگ ہماری عمارتیں اور اشاعتی نظام دیکھ کر مایوس واپس جاتے ہیں۔ ہمارے میڈیا مالکان کو اپنے ترکی بھائیوں سے سیکھنا چاہیے۔

ہم نے زمان میڈیا گروپ میں تین صحافتی جدتیں دیکھیں۔ ترکی میں اخبارات مالکان نے سرکولیشن کی دو کمپنیاں بنا رکھی ہیں۔ یہ دونوں کمپنیاں خودمختار ہیں۔ یہ ملک کے طول و عرض میں اخبارات اور میگزین پہنچانے کی ذمے دار ہیں۔ یہ کمپنیاں ملک کے مختلف حصوں سے اخبارات اور میگزین کے بنڈل اٹھاتی ہیں ،اور صبح سے پہلے دوسرے شہروں تک پہنچا دیتی ہیں۔ ملک کے تمام شہروں میں ان کے ڈسٹری بیوٹرز اور ہاکرز ہیں۔ یہ ڈسٹری بیوٹرز اور ہاکرز گھر، گھر اخبارات پہنچاتے ہیں۔

ان دوکمپنیوں کی وجہ سے میڈیا مالکان صرف اخبارات شایع کرتے ہیں۔ یہ اخبار کی تقسیم اور سرکولیشن کے مسائل سے آزاد ہیں۔ ہمارے مالکان ترکی کے اس تجربے سے سیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں بھی ملک میں سرکولیشن ایجنسیاں بنانی چاہئیں،دو، زمان گروپ نے اپنے رپورٹرز رکھنے کے بجائے الگ نیوز ایجنسی بنا رکھی ہے۔ایجنسی کا نام " جہان نیوز ایجنسی" ہے۔ یہ نیوز ایجنسی زمان گروپ کی عمارت کے اندر قائم ہے، تاہم یہ الگ کمپنی ہے۔ اخبار کے رپورٹر اس ایجنسی کے ملازمین ہیں۔ جہان نیوز ایجنسی اپنے رپورٹرز کے ذریعے خبریں جمع کرتی ہے، یہ خبریں تیار ہوتی ہیں اور یہ نیوز زمان کے اخبارات کے ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے میڈیا گروپس کو بھی فروخت کر دی جاتی ہیں۔

یہ اچھا انتظام ہے۔ اس انتظام کے ذریعے اخبار، رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کے بوجھ سے بھی آزاد ہو گیا۔ ایک متبادل اور نیا ادارہ بھی بن گیا، اور میڈیا انڈسٹری کو بھی فائدہ ہو گیا۔ ہمارا میڈیا بھی "نیوز ایجنسی" سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔یہ بھی نیوز ایجنسیاں بنائیں، اپنی ضرورت کے لیے خبریں حاصل کریں اور باقی خبریں انڈسٹری کو دے دیں۔ اس سے نئے ادارے بھی بنیں گے اور اخبارات غیر ضروری بوجھ سے بھی آزاد ہو جائیں گے، اورہم نے "جہان نیوز ایجنسی" میں پرائیویٹ نیوز چینلز کے لیے، نیوز پیکیج تیار ہوتے بھی دیکھے۔

نیوز ایجنسی کے کیمرہ مین اور رپورٹرز، خبریں ریکارڈ کرتے ہیں۔ ایجنسی کے اندر چھوٹا سا " اوپن اسٹوڈیو" ہے۔ یہ اس اسٹوڈیو میں نیوز پیکیج تیار کرتے ہیں، اور یہ نیوز پیکیج بعد ازاں نیوز چینلز کوفروخت کر دیے جاتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر نیوز چینلز کے لیے ویڈیو سروس ہے، یہ تجربہ بھی اچھا ہے۔ ہمارے چینلز کو ہر وقت "نیوز کانٹینٹ" کا ایشو رہتا ہے۔ ہماری نیوز ایجنسیاں بھی اگر نیوز چینلز کو نیوز پیکیجز فراہم کرنا شروع کر دیں، تو اس سے بھی مارکیٹ اور میڈیا دونوں میں وسعت آئے گی۔

ترک میڈیا کی ایک اور کامیابی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری ہے۔ ترکی نے دس سال قبل مسلم انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی بنیاد رکھی۔ ترک حکومت نے اندازہ لگایا، ہالی ووڈ اور یورپی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے پوری دنیا کی مارکیٹ گھیر رکھی ہے۔ یہ انڈسٹری مسلم روایات سے آگاہ نہیں۔ اسلامی ممالک مغربی میڈیا سے خوش نہیں ہیں ،چنانچہ ہم اگر ترکی میں اسلامی ہالی ووڈ قائم کرلیں تو یہ ہالی ووڈ چند برسوں میں پورے عالم اسلام میں مارکیٹ بنا لے گی۔ لہٰذا حکومت نے سپورٹ کیا، بینکوں نے سرمایہ کاری کی، میڈیا گروپوں نے جوائنٹ وینچر کیے اور ترکی ڈرامہ چند برسوں میں پوری اسلامی دنیا تک پہنچ گیا۔

ترکی ڈرامے اور سیریلز اب غیر مسلم مارکیٹ پر بھی دستک دے رہے ہیں۔ہمارے میڈیا مالکان بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہ ایران، افغانستان، بھارت،سری لنکا اور بنگلہ دیش کو ذہن میں رکھ کر معیاری اور مہنگی سیریلز تیار کریں۔ ملک کے اندر بھی نشر کریں اور دوسرے ممالک کو بھی ایکسپورٹ کریں۔ اس سے ملک کی ڈوبتی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کو بھی سہارا ملے گا۔ میڈیا مالکان کے ریونیو میں بھی اضافہ ہو گا اور ملک کی نیک نامی بھی بڑھے گی۔

دنیا جانتی ہے ہم 35 سال سے حالت جنگ میں ہیں اورجنگیں، فلم اور ڈرامے کا بہترین موضوع ہوتی ہیں۔ آپ جنگِ عظیم دوم کی مثال لیجیے۔ جنگ عظیم دوم کو ختم ہوئے 70 سال ہو چکے ہیں، لیکن ہالی ووڈ آج بھی جنگ عظیم اول اور دوم کے بارے میں فلمیں بنا رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ جنگیں صدیوں تک نئے موضوعات کی پیدائش کا ذریعہ رہتی ہیں ،چنانچہ ہم اپنی جنگ سے ڈرامے اور فلمیں کیوں نہیں نکالتے۔ ہم اپنے اچھوتے موضوعات سے دنیا کو متاثر کیوں نہیں کرتے؟ ہماری جنگ کو اگر ہالی ووڈ بیچ سکتی ہے، تو پھر ہم اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتے۔ میرا مشورہ ہے حکومت، سرمایہ کار اداروں اور میڈیا مالکان کو اکٹھا بیٹھ کر، ترکی کے اس تجربے سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔ دنیا کے 58 اسلامی ممالک ہماری انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے گاہک بن سکتے ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Koi Laash Gire, Koi Khoon Bahe, Koi Baat Bane

By Irfan Siddiqui