تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا (2)
یہ درست ہے کوئی شخص، کوئی لیڈر اور کوئی حکومت دس دن، دس ماہ یا دس سال میں راولپنڈی کو واشنگٹن نہیں بنا سکتی، کوئی دیوار چین بھی نہیں بنا سکتا، کوئی دم توڑتے پاکستان ریلوے کو سوئس ریلوے بھی نہیں بنا سکتا، کوئی شخص دس دنوں میں ساڑھے چھ ہزار میگاواٹ کا شارٹ فال بھی ختم نہیں کر سکتا، کوئی حکومت دس دنوں میں کوئٹہ اور پشاور کو محفوظ بھی نہیں بنا سکتی اور کوئی وزیر داخلہ دس ماہ میں کراچی شہر کا گند بھی صاف نہیں کر سکتا لیکن یہ بھی حقیقت ہے آپ اگر قوم کو اپنی سنجیدگی، اپنے اخلاص اور اپنے وژن کا یقین دلانا چاہیں تو دس دن بہت ہوتے ہیں اور پوری دنیا کی تاریخ لیڈروں کے دس ابتدائی دنوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے، ہم اس سلسلے میں نیلسن منڈیلا کی مثال دے سکتے ہیں، نیلسن منڈیلا 27 سال انگریزوں کی جیل میں رہا۔
ان 27سالوں میں قید تنہائی کے چھ سال بھی شامل تھے، جیل میں اس سے انتہائی انسانیت سوز سلوک کیا گیا، اس نے27 سال تیسرے درجے کے قیدی کی حیثیت سے جیل کاٹی اور اسے کسی جگہ بی کلاس یا سرور پیلس کی سہولت نہیں ملی، یہ نیلسن منڈیلا فروری 1990ء کو جیل سے نکلا، اس نے اپریل 1994ء میں الیکشن جیتا اور اس نے ابتدائی دس دنوں میں جنوبی افریقہ کی سمت طے کر دی، اس نے کیا کیا؟ اس کی ابتدا صدارت کے پہلے دن سے ہوتی ہے، یہ اپنے ذاتی گھر کے ذاتی بیڈ روم سے نکلا، اس کیپ ٹائون میں معمول کے مطابق گارڈ کے بغیر جاگنگ کی جس میں فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر لاشیں پڑی تھیں اور دہشت گرد گھات لگا کر گولی مار رہے تھے، یہ مئی 1994ء کو ایوان صدر میں داخل ہوا تو اس نے پہلا آرڈر دیا ایوان صدر اور آفس میں موجود تمام گورے افسر اپنے پرانے عہدوں پر کام کریں گے، کسی گورے کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا، اس کا دوسرا آرڈر سیکیورٹی گارڈز سے متعلق تھا۔
اس نے حکم دیا میری سیکیورٹی کی ذمے داری انہی گورے افسروں کے پاس رہے گی جو انگریز صدر کی حفاظت کرتے تھے، اس کا تیسرا آرڈر تھا "میں اپنے مہمانوں کو خود چائے بنا کر دوں گا، کوئی ویٹر مجھے اور میرے مہمانوں کو سرو نہیں کرے گا" اس کاچوتھا آرڈر تھا میں اپنے ذاتی گھر میں رہوں گا اور شام کے وقت نائٹ اسٹاف کے سوا کوئی میری ڈیوٹی نہیں دے گا، اس کا پانچواں آرڈر تھا ملک میں موجود تمام گورے جنوبی افریقہ کے شہری ہیں اور جو انھیں تنگ کرے گا اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی، اس کا چھٹا آرڈر تھا آج سے میرا کوئی سیاسی اور ذاتی مخالف نہیں ہوگا، میں اپنے تمام مخالفوں کے پاس گارڈز کے بغیر جاؤں گا، اس کا ساتواں آرڈر تھا ملک کی سرکاری میٹنگ میں میرے خاندان اور میرے دوستوں میں سے کوئی شخص شامل نہیں ہوگا اور اس کا آٹھواں حکم تھا میں اس ملک کا ایک عام شہری ہوں چنانچہ میرے ساتھ وہ قانونی سلوک کیا جائے جو عام شہری کے ساتھ ہوتا ہے۔
یہ آٹھ احکامات تھے جنھیں جاری ہونے میں دس منٹ لگے اور بدترین خانہ جنگی کے شکار جنوبی افریقہ کا مستقبل پہلے ہی دن طے ہو گیا، 1994ء تک ساؤتھ افریقہ دنیا کا خطرناک ترین ملک تھا مگرنیلسن منڈیلا کے اقتدار سنبھالنے کے محض ایک سال بعد 1995ء میں ساؤتھ افریقہ میں رگبی کا ورلڈ کپ اور 2003ء میں کرکٹ کا ورلڈ کپ منعقد ہوا اور یہ آج دنیا کے ترقی یافتہ اور پرامن ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے، نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کا بانی تھا مگر یہ 5 سال کی صدارت کے بعد 2004ء میں سیاست سے ریٹائر ہو گیا اور یہ آج بھی معمولی درجے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے، یہ درست ہے اس کے ابتدائی آٹھ احکامات سے جنوبی افریقہ میں دیوار چین بنی، یہ برطانیہ بنا، یہ واشنگٹن بنا اور نہ ہی ان احکامات سے ان کا ریلوے، اسٹیل مل، ائیر لائین، واپڈا اور معیشت ٹھیک ہوئی مگر ان آٹھ احکامات نے جنوبی افریقہ کو قوم بنا دیا اور چار سال بعد جنوبی افریقہ کے 80 فیصد مسائل حل ہوگئے یا پھر یہ حل ہوناشروع ہوگئے۔
آپ دوبئی کے حکمران محمد بن راشد المختوم کو لے لیجیے، ملائشیا کے مہاتیر محمد، جنوبی کوریا کے لی میونگ باک، جاپان کے کیجورو شیدھارا، جرمنی کے چانسلر کونارڈا دینار، لیبیا کے کرنل قذافی کے ابتدائی دس سال، ترکی کے طیب اردگان اور عبداللہ گل، وینزویلا کے ہیوگو شاویز اور ایران کے احمدی نژاد کو دیکھ لیجیے، آپ انڈیا کے جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی اور من موہن سنگھ کو دیکھ لیجیے، آپ ان کے ابتدائی احکامات نکالیے، ان کی فلاسفی کا مطالعہ کیجیے، آپ کو کسی میں فرعون کا کروفر نہیں ملے گا، آپ کو ان میں سے کوئی شخص پانچ پانچ وزراء اعظم ہائوسز اور دور غلامی کا پروٹوکول انجوائے کرتا دکھائی نہیں دے گا، آج بھی دنیا کی ساتویں بڑی معیشت برطانیہ کا وزیراعظم کمرشل فلائیٹس پر دوسرے ممالک کے دورے پر جاتا ہے اور اس کی اہلیہ عام بس اور ٹرین میں سفر کرتی ہے اور اس کے خاندان کا کوئی شخص سرکاری گاڑی اور ڈرائیور استعمال نہیں کر سکتا۔
ہم وزیر داخلہ چوہدری نثار سے سو اختلافات کے باوجود اگر ان کے کل کے اقدامات کی تعریف نہیں کریں گے تو یہ زیادتی ہو گی، وزیر داخلہ نے کل تمام وزراء اور اہم شخصیات سے سیکیورٹی واپس لے لی، یہ انقلابی حکم ہے لیکن کل ہی کے اخبار میں خبر چھپی تھی مری میں میاں نواز شریف کی ذاتی رہائش گاہ کو بھی وزیر اعظم ہائوس ڈکلیئر کر دیا گیا اور اس پر پچاس رینجرز تعینات کر دیے گئے ہیں، یہ حکومت کے ابتدائی پندرہ دنوں میں تیسرا وزیراعظم ہائوس ہے، ایک اسلام آباد میں، دوسرا لاہور اور تیسرا اب مری میں، آپ پندرہ دنوں میں ملک کے 65 سال کے مسئلے حل نہیں کر سکتے ہیں، نہ کریں لیکن آپ وزیر اعظم ہائوسز کی تعداد تو کم کر سکتے ہیں۔
آپ وزیراعظم کی دونوں ذاتی رہائش گاہوں کو ذاتی رہنے دیں اور ان پر سرکار کا ایک پیسہ خرچ نہ ہونے دیں، امریکا سے لے کر ترکی تک دنیا کے کسی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملک میں ذاتی رہائش گاہوں کو سرکاری حیثیت نہیں دی جاتی اور ذاتی دوروں یا چھٹیوں کے دوران صدور اور وزراء اعظم کا پروٹوکول بھی پچاس فیصد کم ہو جاتا ہے، آپ حکومت کے ابتدائی دس دنوں میں یہ تو کر سکتے ہیں، آپ یہ اعلان تو کر سکتے ہیں ملک میں وزیر کو بھی اتنی ہی سیکیورٹی ملے گی جتنی عام شہری کو نصیب ہوتی ہے، وزیراعظم خود کو ان لوگوں کے برابر تو کھڑا کر سکتا ہے یہ جن کے ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے، اس کے لیے تو پانچ سال ضروری نہیں ہیں۔
میں 21 سال سے صحافت میں ہوں اور میں 21 برسوں سے ملک کے ہر صدر، وزیراعظم اور آرمی چیف کو اس نوعیت کے مطالبوں پر منہ بناتے اور یہ کہتے سن رہا ہوں " یہ سستی شہرت کے گھٹیا طریقے ہیں، اس سے ملک کی معیشت اور سسٹم پر کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ سمبل ازم ہے اور ہمیں علامتوں کی بجائے اصل کی طرف جانا چاہیے"وغیرہ وغیرہ، یہ بات ہو سکتا ہے درست ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے جدید اور ترقی یافتہ دنیا کے تمام حکمران اسی سمبل ازم پر عمل پیرا ہیں، آپ ماضی سے لے کر حال اور حال سے لے کر مستقبل تمام زمانوں کا تجزیہ کر لیں آپ دنیا کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری میں صرف اس قوم کوترقی کرتا دیکھیں گے جس کے حکمران سادگی کی ان علامتوں پر عمل پیرا ہوں گے، آپ رومن ایمپائر کو دیکھ لیجیے، جس زمانے میں سیزرز کھر درے کرتے پہن کر روم کی گلیوں میں اکیلے پھرتے تھے اور کوئی بھی شخص روک کر ان پر تنقید کر سکتا تھا اور وہ سرکار کے ایک ایک پیسے کا حساب دینے کے پابند ہوتے تھے روم اس وقت رومن ایمپائر تھا اور دنیا کے چھ براعظم اس کے ماتحت تھے۔
اسی طرح یونان کی سلطنت ہو، ایران کے کسریٰ ہوں یا پھر اسلامی ریاستیں ہوں آپ کو تاریخ کا ہر وہ دور سنہری نظر آئے گا جس میں حکمران نیلسن منڈیلا کی طرح " بی ہیو" کرتے دکھائی دیں گے اور تاریخ کے ہر اس دور میں پاکستان جیسی ابتری، بے چینی، دہشت گردی، لاقانونیت اور قتل و غارت گری نظر آئے گی جس میں حکمران فرعون ہوں گے یا وہ خود کو خدا اور ووٹ دینے والوں کو حقیر مخلوق سمجھتے ہوں گے، یہ درست ہے سمبل ازم سے ملکی معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، حضرت عمر فاروقؓ کے کرتے کی دوسری چادر، بیٹے کو کوڑے مارنے، سر کے نیچے اینٹ رکھ کر دھوپ میں سونے یا غلام کو اونٹ پر بٹھا کر خود نکیل پکڑ کر بیت المقدس میں داخل ہونے سے اسلامی ریاست کے بجٹ ڈیفیسٹ یا شارٹ فال پر کوئی فرق نہیں پڑا ہو گا یا حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا ذاتی گھر کی ٹپکتی چھت کی مرمت یا قرطبہ کے بانی بادشاہ عبدالرحمن الداخل کا اپنے ہاتھوں سے مسجد قرطبہ کی تعمیر یا محمد تغلق کی سادگی۔
جہانگیر کی زنجیر عدل یا اورنگ زیب عالمگیر کی قرآن مجید کی کتابت یا مووزے تنگ کے پوری زندگی تین مرلے کے مکان میں رہنے یا مہاتیر محمد کے چھوٹی گاڑی چلا کر سبزی خریدنے یا نیلسن منڈیلا کے ابتدائی آٹھ احکامات سے ان ملکوں کی معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑا ہوگا لیکن ہم اگر دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کریں تو ہمیں ماننا پڑے گا ان کے ادوار ختم ہو گئے اور شاید ان کے ٹھوس اقدامات بھی تاریخ کے ورقوں میں کہیں گم ہو گئے ہوں لیکن ان کا ہر سمبل آج بھی زندہ ہے، دنیا حضرت عمر فاروق ؓ کو ان کے ٹیکس ٹوجی ڈی پی کی بجائے ان کے دوسری چادر کے جوازکی وجہ سے جانتی ہے اور لوگ نیلسن منڈیلا کو معاشی پالیسیوں کی بجائے اس کی سادگی، اس کی عاجزی اور اس کی قربانیوں سے پہچانتے ہیں اور یہ ان کی قربانیوں ان کی عاجزی اور ان کی سادگی جیسے سمبل ازم کا نتیجہ تھا ان کے گرد جمع ہجوم قوم بن گئے اور مورخ ان کا نام لکھنے سے پہلے اپنے قلم کو عرق گلاب سے غسل دیتے ہیں۔
تاریخ کا شاندار ترین عہد فرعونوں کا دور تھا، یہ وہ زمانہ تھا جس میں ریاست عوام کو کھانا تک فراہم کرتی تھی۔ فرعون کے اپنے دسترخوان پر لاکھوں لوگ کھانا کھاتے تھے اوررہ گئی ترقی تو دنیا آج تک اہراموں کی تکنیکس نہیں سمجھ سکی مگرپھر اس فرعون اور اس کی سلطنت دریائے نیل میں غرق ہو گئی کیونکہ وہ متکبر حکمران تھے اور وہ ہمارے حکمرانوں کی طرح اقتدار کے بعد اپنا آپ بھول جاتے تھے، وہ خدائی کا دعویٰ کر جاتے تھے لیکن ہم اور ہمارے جیسے حکمران تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے، یہ خود کو عقل کل اور قدرت کا رشتہ دار سمجھتے ہیں مگر آخر میں یہ بھی اسی انجام کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے ماضی کے فرعون دوچار ہوئے تھے اور پیچھے، جی ہاں پیچھے صرف عبرت کی کہانیاں رہ جاتی ہیں۔