Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home
  2. Javed Chaudhry
  3. Tareekh Ki Mehak Se Muattar Borsa

Tareekh Ki Mehak Se Muattar Borsa

تاریخ کی مہک سے معطر بورسا

بورسا استنبول سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔یہ خلافت عثمانیہ کا اولین دارالحکومت تھا۔ شہر میں خلافت کے بانی عثمان غازی اور ان کے صاحبزادے اورخان غازی کے مزارات، ترکوں کا قدیم قلعہ، حضرت خضر ؑ سے منسوب مسجد اور چنار کا وہ چھ سو سال پرانا درخت آج بھی موجود ہے ۔جس کے نیچے خلافت عثمانیہ کا آغاز ہوا تھا اور جس درخت کے بارے میں مشہور تھا، سُلطان عثمان نے یہ درخت خواب میں دیکھا، یہ وہاں پہنچے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت ترکوں کا راستہ نہ روک سکی۔

ہم ہفتے کی دوپہر بورسا پہنچ گئے، بورسا جانے کے دو طریقے ہیں۔آپ سڑک کے ذریعے وہاں پہنچ جائیں یا پھر آپ استنبول سے فیری لیں، اور بحیرہ مرمرا میں پونے دو گھنٹے سفر کرتے ہوئے بورسا پہنچ جائیں۔ ہم نے فیری کے ذریعے بورسا جانے کا فیصلہ کیا۔استنبول سے چار منزلہ بحری جہاز چلتے ہیں، جہاز کی نچلی دو منازل میں گاڑیاں پارک ہوتی ہیں، تیسری منزل میں ہزار کے قریب مسافر بیٹھتے ہیں اور چوتھی منزل بزنس کلاس ہے۔ ہم اپنی گاڑی میں فیری تک پہنچے، گاڑی جہاز میں پارک کی اور بالائی منزل پر بیٹھ گئے۔

صبح کے وقت فیری کے ذریعے استنبول سے رخصت ہونا بھی ایک تجربہ تھا۔ ہمیں ساحل پر استنبول کی نیلی مسجدوں کے مینار، قطار اندر قطار عمارتیں، یورپ اور ایشیا کو ملانے والے دونوں پل اور باسفورس اور گولڈن ہارن میں کھڑی کشتیاں اور چھوٹے جہاز دکھائی دے رہے تھے۔ہماری فیری روانہ ہوئی تو استنبول آہستہ آہستہ بحیرہ مرمرا کی لہروں میں گھلتا چلا گیا ،اور آدھ گھنٹے بعد وہاں سمندر کی تڑپتی مچلتی لہریں تھیں۔ دور دور تک پھیلا بکھرا آسمان تھا، چھوٹے چھوٹے جزیرے تھے، سمندری پرندے تھے اور بس، فیری نے ہمیں پونے دو گھنٹے میں بورسا پہنچا دیا۔

بورسا ترکی کا چوتھا بڑا شہر ہے، آبادی 20 لاکھ ہے۔ شہر ہمارے فیصل آباد کی طرح ٹیکسٹائل سے وابستہ ہے۔ شہر کے تین حصے ہیں، ایک حصہ پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔حکومت نے بورسا کی پہاڑیوں کو جدید ترین کیبل کار سے منسلک کر دیا ہے۔ آپ کیبل کار کے مین اسٹیشن پر پہنچتے ہیں اور کیبل کار آپ کو گھنے جنگلوں سے گزار کر پہاڑ کی انتہائی چوٹیوں تک لے جاتی ہے۔ہم بھی کیبل کار کے ذریعے بورسا کے پہاڑی سلسلے تک پہنچ گئے۔پہاڑوں پر برف باری جاری تھی، آخری پوائنٹ پر سکیٹنگ کا میدان بھی تھا اور سنو بائیکس کا ٹریک بھی۔

راستے میں گھنے جنگل بھی تھے اور برفیلی ندیاں اور منجمد جھیلیں بھی۔ ہم آخری مقام پر پہنچے تو وہاں ہر چیز منجمد تھی۔ سکیٹنگ کے میدان میں سکیٹنگ ہو رہی تھی، اورسنو بائیکس کے ٹریک پر بائیکس چل رہی تھیں۔ہم اسلامی ملک میں ونٹر گیمز دیکھ کر حیران ہو گئے، لوگ وہاں سکیٹنگ بھی کر رہے ہیں، خواتین اور مرد سنو بائیکس پر بیٹھ کر برف میں موٹر سائیکل بھی چلا رہے تھے اور ان کا اسلام بھی خطرے میں نہیں پڑ رہا تھا۔ ہم پریشان ہو گئے، بورسا کے پہاڑ، پہاڑوں پر برف، برف میں سنو بائیکس کی سواری، شدید سردی اور برف کی نرم بوندیں، یہ ساری چیزیں چند سیکنڈ میں تصویر بنیں اور یہ تصویر میرے حافظے کے البم میں چسپاں ہو گئی۔

ترکوں کا چھ سو سال پرانا چنار ہماری اگلی منزل تھا۔ یہ چنار شہر کے دوسرے حصے میں پہاڑی پر تھا۔ درخت طویل آکٹوپس کی طرح چاروں اطراف پھیلا تھا، یہ درخت دنیا کے زندہ مزارات میں شمار ہوتا ہے۔ درخت کا قطر تین میٹر، اونچائی 35 میٹر اور پھیلاؤ 920 میٹر ہے۔میں نے زندگی میں اتنا پھیلا ہوا درخت نہیں دیکھا، آپ درخت کے نیچے ہزار لوگوں کو آباد کر سکتے ہیں۔خزاں کی وجہ سے درخت پر پتے نہیں تھے اور یہ تنوں، شاخوں اور ٹنڈ منڈ ٹہنیوں کا ایک طویل جال محسوس ہوتا تھا۔

سلطان عثمان نے1300ء میں ایک عجیب خواب دیکھا۔تُرک سلطنت کے بانی نے دیکھا، اس کی ناف سے ایک درخت نکلا اور پوری دنیا میں پھیل گیا۔سُلطان نے تعبیر پوچھی، بتایا گیا یہ خواب آپ کی طویل سلطنت کی بشارت ہے۔سلطان نکل کھڑا ہوا، سلطان نے 1326ء میں بورسا فتح کیا۔ چنار کے اس درخت کی گھنی چھاؤں میں بیٹھا اور دنیا کی اس عظیم سلطنت کی بنیاد رکھ دی جس کا ایک سرا ایشیا میں تھا، دوسرا افریقہ میں اور تیسرا یورپ میں۔ دنیا میں آج تک ہزاروں سلطنتیں بنیں، ہزاروں سلطنتیں پیوند خاک بھی ہوئیں، لیکن ترک خلافت کی دنیا کی تاریخ میں دوسری نظیر نہیں ملتی۔ یہ لوگ صرف گھوڑوں اور تلواروں کے دھنی نہیں تھے، یہ آرٹ، کلچر، ادب، دستر خوان، لباس اور حماموں کے امام بھی تھے۔

ترک جو خطہ فتح کرتے تھے، وہ خطہ بعد ازاں ثقافت کا مرکز بن جاتا تھا۔ آپ خانہ کعبہ اور مسجد نبویؐ کی تاریخ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو وہاں ترکوں کی عقیدت کے ایسے مظہر ملیں گے، جو آپ کی پلکیں گیلی کر دیں گے۔ سلطان عبدالمجید اول نے مسجد نبویؐ کی توسیع کا کام کیا۔ توسیع کے لیے ترکوں نے پوری اسلامی دنیا سے اعلیٰ ترین معمار اکٹھے کیے، معماروں کو ترکی کے شاندار اور خوبصورت ترین حصے میں آباد کیا، دنیا جہاں کی مراعات دیں۔ معماروں کے بیٹے پیدا ہوئے تو ان تمام بیٹوں کو حافظِ قرآن بنایا اور بزرگ معماروں سے درخواست کی، آپ ان حافظ قرآن بیٹوں کو اپنا فن سکھائیں۔

یہ بچے جب فن اور قرات دونوں میں یکتا ہو گئے، تو سلطان انھیں مدینہ منورہ لے گئے اور مسجد نبویؐ کی توسیع کا فریضہ سونپ دیا۔ بارگاہِ رسالتؐ کی توسیع کے بس تین اصول تھے، یہ تمام معمار چوبیس گھنٹے وضو میں رہیں گے، ہر لمحہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے اور مسجد کی حدود میں کوئی چیز کسی دوسری چیز کے ساتھ ٹکرائیں گے نہیں۔پتھر کا کوئی ٹکڑا اگر چھیلنا، تراشنا یا توڑنا پڑتا تھا تو وہ لوگ یہ ٹکڑا مدینہ منورہ سے چھ کلو میٹر باہر لے جاتے، وہ ٹکڑا وہاں تراشہ جاتا اور پھر دوبارہ مسجد نبویؐ میں لا کر مقررہ جگہ پر نصب کر دیا جاتا۔ یہ اہتمام صرف سماعتِ رسولؐ کو غیر ضروری آوازوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا تھا۔

ترک سلطان کمال لوگ تھے۔ یہ لڑتے تھے تو کمال کر دیتے تھے، امن میں آتے تو بھی کمال کر دیتے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے ساتویں حکمران سلطان محمد نے 1453ء میں استنبول فتح کر کے بھی کمال کر دیا، یہ شہر ویٹی کن سٹی کے بعد عیسائیوں کا مقدس ترین شہر تھا۔ آیا صوفیہ عیسائیوں کا دوسرا مقدس چرچ تھا۔ استنبول قسطنطنیہ کہلاتا تھا اور قسطنطنیہ ہزار سال تک ناقابل تسخیر رہا۔ شہر کے دفاع کی بڑی وجہ اس کا جغرافیہ تھا۔ یہ شہر دو سمندروں کے درمیان پہاڑ کی چوٹی پر آباد تھا۔ شہر تک پہنچنے کا واحد راستہ باسفورس اور باسفورس کے پانیوں سے نکلا ہوا گولڈن ہارن تھا۔

گولڈن ہارن پانی کی ساڑھے سات کلو میٹر لمبی باریک پٹی ہے۔ یہ پٹی بلندی سے سینگ کی طرح دکھائی دیتی ہے اور اس وجہ سے گولڈن ہارن کہلاتی ہے۔ استنبول کے بازنطینی حکمرانوں نے گولڈن ہارن میں لوہے کی مضبوط زنجیر بچھا رکھی تھی۔ یہ لوگ زنجیر کھینچ دیتے تھے، جہاز رک جاتے تھے اور یہ بعدازاں گولڈن ہارن میں آتش گیر مواد ڈال کر پانی کو آگ لگا دیتے تھے۔جہاز جل کر راکھ ہو جاتے تھے۔ ترک یہ شہر فتح کرنا چاہتے تھے، کیوں کرنا چاہتے تھے؟ اس کی وجہ حدیث مبارکہ تھی، نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا،" میری امت کا جو شخص قسطنطنیہ فتح کرے گا وہ جنتی ہو گا"۔

ترک یہ سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے۔ سلطان محمدفروری 1451ء میں 19سال کی عمر میں خلیفہ بنا ،تو ترک سلطانوں کی یہ خواہش اسے ورثے میں مل گئی۔اس نے 1453ء میں استنبول کا محاصرہ کیا اور دنیا کی تاریخ میں عجیب کمال کر دیا۔سلطان محمد نے ہزاروں درخت کٹوائے، درختوں کے تختے بنائے، تختوں پر جانوروں کی چربی چڑھائی، بحری جہاز تختوں پر رکھے، ہزاروں لوگوں نے یہ جہاز کھینچے، دھکیلے اور سلطان محمد بحری جہازوں کو پہاڑ کے اوپر سے دھکیل کر سمندر تک لے آئے۔ استنبول کے لوگ اگلی صبح جاگے تو وہ گولڈن ہارن میں جہاز دیکھ کر حیران رہ گئے۔

سلطان نے29مئی 1453ء کو شہر کو فتح کیا اور تاریخ میں سلطان محمد فاتح بن گیا۔ استنبول میں آج بھی سلطان فاتح اور ان کی ملکہ گل بہار کا مزار موجود ہے۔ترکوں نے ایک کمال، مسجد مزار کا کمبی نیشن بنا کر بھی کیا۔ ترک سلطان زندگی میں ایک شاندار مسجد بنواتے تھے، مسجد کی دیوار کے ساتھ اپنا مزار اور اپنے خاندان کا خصوصی قبرستان بنواتے تھے اور انتقال کے بعد مزار میں دفن ہو جاتے تھے۔ مساجد اللہ کے گھر ہوتی ہیں، یہ ہمیشہ قائم رہتی ہیں اور اللہ کے گھروں کے استحکام کی وجہ سے ترک سلطانوں کے مزارات بھی آج تک سلامت ہیں۔ سلطان فاتح کا مزار بھی فاتح مسجد کے ساتھ واقع ہے۔ میں جب بھی استنبول جاتا ہوں ،میں اس جنتی سلطان کی قبر پرحاضر ہوتا ہوں۔

ہم بزرگ چنار کے بعد، عثمان غازی اور ان کے صاحبزادے اور خان غازی کے مزاروں پر گئے۔ یہ مزارات قائم ہیں، لیکن یہ شکوہ میں استنبول کے مزارات سے بہت پیچھے ہیں، اس کی وجہ مسجدہے۔سلطان عثمان اور سلطان اورخان کے مزارات، صرف مزارات پر مسجد کے میناروں اور گنبدوں کا سایہ نہیں تھا، چنانچہ وہاں ایک ویرانی اور ایک اداسی تھی۔ عثمان غازی کے بعد اگلی منزل بورسا کی قدیم مسجد تھی۔ یہ مسجد 1399ء میں بنی، یہ مسجد چھ سو 16سال سے قائم اور آباد ہے۔بورسا کے لوگوں کا خیال ہے حضرت خضر ؑ اس مسجد میں نماز کے لیے آتے ہیں۔

حضرت خضرؑ کی ایک نشانی ان کے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا ہے۔آپؑ کے انگوٹھے میں ہڈی نہیں تھی، یہ ربڑ جیسا نرم اورلچکیلا انگوٹھا تھا چنانچہ بورسا کے لوگ نماز کے بعد مسجد میں موجود اجنبیوں سے ہاتھ ملاتے ہیں۔ یہ لوگ ہماری طرح پنجہ ملانے کے بجائے ہتھیلی سے دوسرے شخص کا انگوٹھا پکڑتے ہیں، اور انگوٹھے میں ہڈی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ لوگ ہاتھ ملاتے ہوئے حضرت خضرؑ کو تلاش کرتے ہیں۔یہ تلاش بھی چھ سو سال سے جاری ہے اور شاید آنے والے چھ سو سال تک جاری رہے گی۔

بورسا کی شام سرخ بھی تھی، خنک بھی اور اس کے بطن سے تاریخ کی خوشبو بھی اٹھ رہی تھی۔ ہم شہر سے نکلے تو شہر کے درودیوار سے مغرب کی اذان ٹکرا رہی تھی، اللہ اکبر، اللہ اکبر۔میں نے ایک لمبا اور ٹھنڈا سانس لیا، اور اپنے تڑپتے دل کو سمجھایا، دنیا میں صرف اللہ کا نام اور اللہ کے نام پر قائم ادارے سلامت رہتے ہیں۔باقی سلطان ہوں یا سلطنتیں سب فنا ہو جاتے ہیں۔

About Javed Chaudhry

Javed Chaudhry is a newspaper columnist in Pakistan. His series of columns have been published in six volumes in Urdu language. His most notable column ZERO POINT has great influence upon people of Pakistan especially Youth and Muslims of Pakistan. He writes for the Urdu newspaper Daily Express four time a week, covering topics ranging from social issues to politics.

Check Also

Hum Smog Se Kaise Bach Sakte Hain? (1)

By Javed Chaudhry