تاریخ کی غلطیاں نہ دہرائیں
اور ایک اور بات ہمارے حکمران اور ہمارے سیاستدان بھی مدارس اور مذہبی رہنماؤں کے معاملے میں کنفیوژ ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں اسامہ بن لادن اور ان کے وہ ساتھی جو بعد ازاں موسٹ وانٹیڈ لسٹ میں شامل ہوئے وہ افغان جنگ کے دوران جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے رابطے میں تھے، میاں نواز شریف اور اسامہ بن لادن کی ملاقات کا ذکر بھی اکثر اوقات کیا جاتا ہے، محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک بار الزام لگا دیا تھا اسامہ بن لادن نے میری حکومت گرانے کے لیے میاں نواز شریف کو لاکھوں ڈالر دیے تھے۔
کیا یہ حقیقت نہیں تحریک طالبان افغانستان کے ہمارے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے ساتھ رابطے تھے اور ہماری وزارت داخلہ ملا عمر اور ان کے ساتھیوں کو سپورٹ کرتی تھی، کیا ہم نے افغانستان کی طالبان حکومت کو ٹیلی فون لائنیں نہیں دی تھیں، کیا ہم لاہور کا نمبر ملاتے تھے اور ہماری گفتگو قندہار میں نہیں ہوتی تھی اور ہم اسلام آباد کے لوکل نمبر سے کابل میں بات نہیں کرتے تھے اور کیا ہم نے ماضی میں گڈ طالبان، گڈ قبائلی اور گڈ مجاہدین کے بڑے بڑے لشکر تیار نہیں کیے تھے، یہ ماضی کی حقیقتیں ہیں، ہم ان سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے اور کیا گارنٹی ہے کل ریاست جماعت الدعوۃ اور جامعہ نعیمیہ کے بارے میں بھی یہ رویہ اختیار نہیں کرے گی جو آج اس نے طالبان کے لیے وضع کیا، حافظ سعید ایک طویل عرصے سے مجاہد پاکستان ہیں۔
ملک کے تمام ریاستی ادارے اور عوام ان کی خدمات کو سراہتے ہیں، یہ بھی ہر مشکل وقت میں ملک کو خون بھی دیتے ہیں اور جان بھی۔ میاں نواز شریف فیملی دو نسلوں سے جامعہ نعیمیہ لاہور سے وابستہ ہے، میاں صاحب ہر سال جامعہ کی تقریب میں بھی شرکت کرتے ہیں، مفتی سرفراز احمد نعیمی میاں شریف کے خاندان کا حصہ تھے، آج بھی مفتی صاحب کے صاحبزادے راغب حسین نعیمی شریف خاندان کا فرد ہیں۔
آج کے دن تک مدرسہ نعیمیہ اور جماعت الدعوۃ دونوں بے داغ ہیں اور ملک کے زیادہ تر طبقے ان کا احترام کرتے ہیں لیکن کل کلاں اگر خدانخواستہ کسی دہشت گرد کا تعلق مدرسہ نعیمیہ سے نکل آتا ہے یا کوئی ایسا دہشت گرد مل جاتا ہے جو ماضی میں جماعت الدعوۃ کے ساتھ کام کرتا تھا تو ریاست کی جماعت الدعوۃ اور مدرسہ نعیمیہ کے بارے میں کیا رائے ہو گی؟ اگرریاست ان دونوں اداروں کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو کیا اس شریف فیملی پر انگلی نہیں اٹھے گی اور کیا وہ تمام لوگ مشکوک نہیں ہو جائیں گے جو جماعت الدعوۃ کے ویلفیئر کے پراجیکٹس میں جسمانی، مالی اور اخلاقی مدد کر رہے ہیں۔
جنھوں نے پیاسوں کے لیے کنوئیں کھودے، زلزلہ زدگان کو ملبے سے نکالا اور جنھوں نے سیلاب میں پھنسے لوگوں کی جان بچائی، میں اس سلسلے میں مولانا عبدالعزیز کی مثال بھی دوں گا، وہ 1998ء سے لال مسجد اسلام آباد سے منسلک ہیں، ہمارے بے شمار وزراء، سیکریٹری، بزنس مین اور دانشور ان کے پیچھے نماز پڑھتے رہے، جنرل پرویز مشرف اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں جب بھی علماء کرام کو رہنمائی کے لیے بلاتے تھے تو انھیں بھی دعوت دی جاتی تھی، حکومت نے مولانا کو خود ای سیون میں جامعہ فریدیہ قائم کرنے کی اجازت دی مگر یہ مولانا 2007ء میں ملک دشمن ڈکلیئر کر دیے گئے، لال مسجد آپریشن ہوا، مولانا کے بھائی عبدالرشید غازی آپریشن میں جان سے گئے۔
وہ گرفتار ہو گئے، یہ اپریل 2009ء تک جیل میں رہے، 2008ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، رحمن ملک وزیر داخلہ بن گئے، حکومت نے لال مسجد اور مولانا عبدالعزیز کا معاملہ سیٹل کرنے کا فیصلہ کیا، مولانا جیل سے فارغ ہو ئے تو انھیں سہالہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کر دیا گیا، رحمن ملک نے بعد ازاں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض سے مولانا عبدالعزیز کی مدد کی درخواست کی، ملک ریاض انھیں بحریہ ٹاؤن لے گئے، رحمن ملک کی درخواست پر وہاں انھیں گھر بھی دیا گیا، پلاٹ بھی الاٹ ہوا اور رحمن ملک ہی کی درخواست پر ملک ریاض نے لال مسجد کی دوبارہ تزئین و آرائش بھی کی، رحمن ملک نے بعد ازاں مولانا عبدالعزیز کے ساتھ مل کر ای سیون کے مدرسہ کے لیے ایک فارمولہ بھی طے کیا، حکومت کی مرضی سے مولانا دوبارہ لال مسجد آئے اور نماز اور خطبہ دینے لگے۔
آپ کو بہرحال ماننا ہو گا ہماری ریاست، ہمارے سیاستدان اور ہمارے حکمران اس معاملے میں کنفیوژ ہیں، یہ ایک وقت میں مدارس، مساجد اور علماء کرام کی دل و جان سے مدد کرتے ہیں اور یہ دوسرے وقت میں ان کے مخالف ہوتے ہیں، آپ کو اس معاملے میں بھی پالیسی بنانی ہو گی۔
ہم سب مسلمان ہیں، ہم ایک اللہ اور نبی اکرمؐ کو آخری نبی مانتے ہیں، ہم یوم آخرت اور فرشتوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں، ہم عشق رسولؐ کو بھی اپنی کل میراث سمجھتے ہیں، ہم نماز اور روزے کے بھی پابند ہیں، ہم حج کو بھی اسلام کا رکن مانتے ہیں، ہم اللہ کی آخری کتاب کو ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ بھی سمجھتے ہیں اور ہم نبی اکرمؐ کے اصحابؓ کی بھی تکریم کرتے ہیں، آپ بتائیے ایمان کے ان تمام ارکان، ان تمام ضابطوں کے بعد کیا بچتا ہے؟ ہمیں اپنی مسلمانی ثابت کرنے کے لیے مزید کس چیز کی ضرورت ہے؟ ہم مزید کیا تلاش کر رہے ہیں؟ ہمیں یہ حقیقت بھی ماننا ہو گی، مذہب انسانوں کے ہوتے ہیں، یہ ملکوں کے نہیں ہوتے، کلمہ ہو، نماز ہو، روزہ ہو، زکوٰۃ ہو یا حج ہو یہ فریضے لوگ ادا کرتے ہیں۔
ملک یا ریاستیں نہیں، دنیا میں اس وقت 245 ملک ہیں، ان تمام ملکوں میں صرف ایک فیصد ریاستیں مذہبی ہیں، باقی تمام ریاستیں صرف ریاستیں اور صرف ملک ہیں اور جو ملک، جو ریاست محض ریاست اور محض ملک ہے وہاں امن بھی ہے، انصاف بھی، سکون بھی اور خوشحالی بھی اور ترقی بھی اور دنیا میں جب بھی کسی ریاست کو مذہبی ڈکلیئر کرنے کی کوشش ہوئی وہاں فسادات ہوئے، وہاں لوگوں نے لوگوں کے گلے کاٹے۔
آپ آج اسرائیل سے لے کر پاکستان تک دنیا کی تمام مذہبی ریاستوں کا ڈیٹا نکال لیجیے، آپ کو وہاں انسانیت پریشان، خوفزدہ اور زخمی نظر آئے گی، کیا اسرائیل میں امن ہے؟ نہیں ہے، کیوں نہیں ہے؟ کیونکہ اسرائیل کو بنانے والوں نے اسے یہودی اسٹیٹ بنا دیا تھا، کیا عراق میں امن ہے؟ کیا لیبیا میں امن ہے؟ کیا شام میں امن ہے؟ اور کیا پاکستان میں امن ہے؟ اور کیا سعودی عرب میں انسانی حقوق ہیں؟ کیا وہاں کے لوگ دوسرے ملکوں میں امیگریشن نہیں لے رہے؟
آپ اسلامی ریاستوں کو چھوڑ دیجیے، آپ عیسائی تاریخ کا مطالعہ کیجیے، تاریخ میں جب بھی کسی ملک کو عیسائی بنانے کی کوشش ہوئی، سوال پیدا ہوا! کون سی عیسائیت؟ کیتھولک یا پروٹیسٹنٹ، اگر کیتھولک تو کتنا کیتھولک اور اگر پروٹیسٹنٹ تو کتنا پروٹیسٹنٹ اور پھر فسادات شروع ہو گئے، اسلامی ریاست کا بھی یہی ایشو تھا، تاریخ میں جب بھی اسلامی ریاست تشکیل دینے کی کوشش کی گئی اس کا اختتام لاشوں پر ہوا، اسلام کے دونوں بڑے فرقوں نے خلافت کے اختلاف سے جنم لیا تھا اور ہم آج ساڑھے تیرہ سو سال بعد بھی ان اختلافات کو نہیں مٹا پا رہے۔
ہم آج بھی شناختی کارڈ چیک کر کے لوگوں کو گولی مار رہے ہیں، ہماری 14 سو سال کی اسلامی تاریخ میں ترقی، خوشحالی اور امن کے صرف چند جزیرے ہیں اور یہ جزیرے بھی مسلمان بادشاہوں نے قائم کیے تھے اور ان بادشاہوں نے خلافت کے اسلامی معیارات کے بجائے سلطان ابن سلطان اور ابن سلطان یا شمشیر ابن شمشیر اور ابن شمشیر سے جنم لیا تھا، ہماری اسلامی ریاست چار خلفاء راشدین کے بعد ختم ہو گئی تھی، آپ اس میں زیادہ سے زیادہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو شامل کر سکتے ہیں لیکن وہ بھی بادشاہ کی وصیت سے خلیفہ بنے تھے۔
ایسا کیوں ہوتا رہا؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم نے جب بھی اسلامی ریاست قائم کرنے کا اعلان کیا تو عیسائی ریاست کی طرح اگلا سوال پیدا ہوا، کون سا اسلام؟ اور یوں اختلافات شروع ہو گئے اور ان اختلافات کے آخر میں فسادات ہوئے، آپ تازہ ترین مثال لیجیے، داعش کیا کر رہی ہے؟ یہ بھی اسلامی ریاست قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کوشش میں کیا ہو رہا ہے؟ مخالف فرقوں کے لوگوں کے سرے عام سر اتارے جا رہے ہیں، مساجد کو توپ کے گولوں سے اڑایا جا رہا ہے اور مقدس ہستیوں کی قبریں ہتھوڑوں سے توڑی جا رہی ہیں، آپ دیکھ لیجیے گا اس ظلم کے خلاف بہت جلد دوسرے فرقے کے لوگ بھی لشکر بنائیں گے اور یوں مسلمانوں کے درمیان ایک خوفناک جنگ ہو گی جس میں اتنے مسلمان شہید ہو جائیں گے جتنے روس اور امریکا نے چالیس سال میں مجموعی طور پر شہید نہیں کیے۔
آپ ایک اور حقیقت بھی دیکھئے، بیسوی صدی میں اسلامی دنیا کے صرف تین ملکوں نے ترقی کی، ان ملکوں میں انصاف اور امن بھی موجود ہے، یہ ملک ملائشیا، ترکی اور یو اے ای ہیں، یہ تینوں ملک اسلامی جمہوریہ نہیں ہیں، ان تینوں نے ریاست کو مذہبی بنانے کی کوشش نہیں کی لہٰذا یہ تینوں ملک آج امن اور خوشحالی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
آپ مہربانی کر کے تاریخ کی وہ غلطیاں نہ دہرائیں جن کے نتیجے میں آج تک کھوپڑیوں کے مینار بنتے رہے، چرچز کو آگ لگتی رہی اور مساجد میں گھوڑے باندھے جاتے رہے، ہم نے اگر تاریخ سے سیکھ لیاتو ہم بچ جائیں گے ورنہ دوسری صورت میں مسلمان، مسلمانوں کے ہاتھوں سے قتل ہو جائیں گے اور اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام کے نام پر ٹوٹ جائے گا۔