سچ کا قحط
آپ پہلے صدر بارک حسین اوباما کا ماضی ملاحظہ کیجیے، صدر اوباما کے والدبارک حسین اوباما سینئرکینیا کے گاؤں کوگیلو سے تعلق رکھتے تھے، یہ 1959ء میں تعلیم کے لیے یونیورسٹی آف ہوائی آئے، یہ ہوائی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور شام کے وقت ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں برتن دھوتے تھے، یہ 1964ء تک امریکا میں رہے، یہ اوباما سینئر کی جدوجہد کے پانچ سال تھے، اوباما کے والد کبھی یہاں رہتے تھے اور کبھی وہاں، اوباما سینئر نے 2 فروری 1961ء کو اوباما جونیئر کی والدہ این ڈنہم سے شادی کر لی، والدہ مختلف دفتروں میں کام کرتی تھی اور اوباما سینئر کی زندگی چلتی تھی۔
یہ شادی نہ چل سکی، اوباما سینئر نے مارچ 1964ء میں این ڈنہم کو طلاق دی اور اس کی گود میں تین سال کا اوباما چھوڑ کر کینیا چلے گئے، سفید فام این ڈنہم کو سیاہ فام بارک حسین اوباما کو پالنا پڑ گیا، خاتون باہمت تھی، یہ کام بھی کرتی رہی اور بچہ بھی پالتی رہی، این ڈنہم نے 1965ء میں لولو سوئیترو سے دوسری شادی کر لی اور اوباما جونیئر کے ساتھ شفٹ ہو گئی، یوں اوباما سوتیلے والد کے گھر پروان چڑھنے لگے، این ڈنہم کی یہ شادی بھی نہ چل سکی اور یہ نومبر1980ء میں دو بچوں کے ساتھ لولو سوئیترو سے الگ ہو گئیں، بارک حسین اوباما جوان ہوئے تو خوفناک جدوجہد کا سلسلہ شروع ہو گیا، یہ 1985ء سے 1988ء تک کمیونٹی آرگنائزر بھی رہے۔
وکالت بھی کی اور پڑھاتے بھی رہے، اوباما نے 1996ء میں سیاست میں قدم رکھا، دن رات محنت کی، اپنے ہینڈ بل خود تقسیم کیے، اپنے پوسٹرز خود لگائے، بیس بیس میل پیدل سفر کیا، گرمیوں، سردیوں اور بارشوں میں کوشش جاری رکھی یہاں تک کہ یہ کوششیں بار آور ہوئیں اور بارک حسین اوباما 20 جنوری 2009ء کودنیا کی واحد سپر پاور کے صدر بن گئے، یہ امریکا کی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جن کی رگوں میں مسلمان کا خون ہے، یہ مسلمان نام رکھنے والے بھی پہلے صدر ہیں اور یہ امریکی تاریخ کے پہلے سیاہ فام صدر بھی ہیں، یہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق بھی رکھتے ہیں۔
بارک حسین اوباما امریکی نظام، امریکی جمہوریت کا حسن ہیں، یہ ثابت کرتے ہیں، آپ اگر باصلاحیت ہیں، محنتی ہیں، پڑھے لکھے، ایماندار اور وژنری ہیں اور آپ میں اگر ڈیلیور کرنے کی صلاحیت ہے تو آپ امریکا کے صدر بھی بن سکتے ہیں اور آپ کا رنگ، آپ کا خون، آپ کی محرومی اور آپ کی کلاس آپ کی ترقی کے راستے میں حائل نہیں ہوتی، صدر اوباما اپنی جمہوریت، اپنے نظام کا یہ ناقابل تردید ثبوت لے کر 25 جنوری2015ء کو بھارت پہنچے اور بھارت میں ان کا استقبال کس نے کیا؟ بھارت میں ان کا استقبال چائے بیچنے والے نریندر مودی نے کیا۔
نریندر مودی کا تعلق گجرات کے وید نگر کے غریب خاندان سے تھا، والد ریلوے اسٹیشن پر چائے کا کھوکھا چلاتا تھا، خاندان 8 افراد پر مشتمل تھا، والدہ بھی لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھتی تھی، نریندر مودی نے چھ سال کی عمر میں والد کے کھوکھے پر چائے بیچنا شروع کی، یہ چائے کے گندے کپ اٹھا کر "چائے گرم، چائے گرم، کے نعرے لگاتے تھے، یہ 17 سال کی عمر میں گھر سے بھاگے اور ہمالیہ چلے گئے، یہ 21 سال کی عمر میں ہندو انتہا پسند جماعت آر ایس ایس میں شامل ہو گئے، یہ دو سال تک انڈر گراؤنڈ رہے، یہ اس دوران آر ایس ایس کے دفتر میں سوتے تھے، یہ دفتر میں جھاڑو بھی لگاتے تھے اور کرسیاں اور میزیں بھی سیدھی کرتے تھے اور دفتر میں آنے والوں کو چائے اور کھانا بھی پکا کر کھلاتے تھے، پارٹی نے 1988ء میں انھیں گجرات کا آرگنائزنگ سیکریٹری بنا دیا۔
یہاں سے ایک نئے نریندر مودی کا آغاز ہوا، نریندر مودی 2001ء سے 2014ء تک 13 برس گجرات کے وزیراعلیٰ رہے، مودی نے گجرات میں کمال کر دیا، مودی نے ملک کے پسماندہ ترین صوبے کو ملک کا ترقی یافتہ ترین صوبہ بنا دیا، ان 13برسوں کے دوران مودی پر مسلمانوں کے خلاف فسادات کے الزام بھی لگے، یہ فسادی بھی کہلائے، متعصب ہندو بھی، شدت پسند بھی اور منافق بھی۔ امریکا نے 2005ء میں ان پر امریکا میں داخلے پر پابندی بھی لگا دی، یہ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں ہیں، انگریزی سمجھتے ہیں لیکن بولنے میں دقت ہوتی ہے، زندگی میں کبھی برانڈڈ سوٹ نہیں پہنا، ان کا کوئی گھر نہیں تھا۔
چند برس قبل330 مربع میٹر کا گھر بنایا، اثاثوں کی مالیت سوا کروڑ ہے، نریندر کا ایک بھائی لیدر فیکٹری میں کام کرتا تھا، دوسرا بھائی گجرات حکومت کے محکمہ اطلاعات میں معمولی افسر ہے، فیملی کا کوئی فرد 13 سال چیف منسٹر ہاؤس میں داخل ہو سکا اور نہ ہی اب وزیراعظم ہاؤس آ سکتا ہے، پاؤں میں کھردرے چمڑے کی چپل پہنتے ہیں، ساگ بھات کھاتے ہیں اور بیرونی سفر نہ ہونے کے برابر ہیں، یہ نریندر مودی 26مئی 2014ء کو 282 سیٹوں کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیراعظم بن گئے، یہ اس وقت دنیا کے مقبول ترین لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں، اس چائے بیچنے والے نریندر مودی نے 25 جنوری کو برتن دھونے والے کے بیٹے صدر اوباما کا دہلی میں استقبال کیا۔
آپ اب صدر اوباما اور وزیراعظم نریندر مودی کے بیک گراؤنڈ کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکا اور بھارت کے تعلقات کی نئی شروعات دیکھیے، آپ صدر اوباما کے25 جنوری سے 27 سے جنوری تک بھارت کے دورے کو دیکھیے، آپ سیاست کا ایک نیا زاویہ دیکھیں گے، یہ بڑی طاقتوں کے سربراہان کی میٹنگ کے ساتھ ساتھ سیاہ فام مسلمان باورچی کے بیٹے کی چائے بیچنے والے مسکین بھارتی سے ملاقات بھی تھی، یہ ایک کامیاب نظام کا دوسرے کامیاب نظام کا دورہ بھی تھا اور یہ ایک ان تھک جدوجہد کی دوسری ان تھک جدوجہد کی زیارت بھی تھی، صدراوباما نریندر مودی کو ڈیزرو کرتے تھے اور نریندر مودی اوباما کو ڈیزرو کرتے تھے۔
امریکا بھارت کو ڈیزرو کرتا تھا اور بھارت امریکا کوجب کہ ان کے مقابلے میں ہمارے لیڈر اوباما کو ڈیزرو کرتے ہیں اور نہ ہی ہم پاکستانی امریکا کو۔ ہم ایک کھوکھلی، منافق قوم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نظام کے مطابق کھوکھلی قوموں کو ایسے ہی لیڈر ملتے ہیں جیسے ہمیں نصیب ہوئے، آپ 20 کروڑ لوگوں کے اس ملک میں نریندر مودی اور بارک حسین اوباما جیسا کوئی ایک لیڈر دکھا دیجیے، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر ایک بار، ہاں صرف ایک بار یہ حلف دے دیجیے ہمارے ملک میں چائے بیچنے والا کوئی نواز، میاں نواز شریف کے عہدے تک پہنچ سکتا ہے اور کسی آصف باورچی کا بیٹا صرف محنت، صلاحیت اور وژن کی بنیاد پر بلاول کے عہدے پر فائز ہو سکتا ہے۔
میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لوں گا، ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس میں فیکٹریوں اور سیاسی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں، جس میں سیاسی جماعتوں کی قیادت وراثت میں منتقل ہوتی ہے، جس میں میاں نواز شریف کو گیارہ کروڑ لوگوں کے صوبے میں اپنے بھائی کے سوا کوئی وزیراعلیٰ نہیں ملتا، جس میں نوجوانوں کو قرضے بھی دینا ہوں تو لون اسکیم کی سربراہی وزیراعظم کی صاحبزادی کو ملتی ہے اور جس میں بڑے عہدوں کے لیے بٹ، خواجہ، میاں اور پنجابی ہونا ضروری ہوتاہے اور جس میں پارٹیاں جمہوریت کے بجائے بنانے والوں کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔
جس میں مسلم لیگ صرف مسلم لیگ نہیں ہوتی ن لیگ ہوتی ہے اور پیپلزپارٹی صرف پیپلز پارٹی نہیں ہوتی آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی ہوتی ہے اور جمعیت علماء اسلام صرف جے یو آئی نہیں ہوتی جے یو آئی فضل الرحمن ہوتی ہے اور جس میں عمران خان جیسے انقلابی بھی اپنے دائیں بائیں شاہ محمود قریشی اور جہانگیرترین کو بٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جس میں صرف جہاز کا مالک ہونے کی وجہ سے جہانگیر ترین کو پارٹی کا سیکریٹری جنرل بنا دیا جاتا ہے اور جس میں میاں نوازشریف کی نظر میں ذاتی وفاداری سب سے بڑی اہلیت ہوتی ہے اور جس میں آصف علی زرداری کو پوری پارٹی میں بلاول زرداری کے سوا کوئی اہل قائد نہیں ملتااور جس میں اے این پی باچا خاندان، جے یو آئی مولانا فضل الرحمٰن خاندان اور پاکستان مسلم لیگ ق چوہدری خاندان کی ملکیت ہوتی ہے، ایسے ملک باورچی کے بیٹے اوباما اور چائے بیچنے والے کے بیٹے مودی کی دوستی کو ڈیزرو نہیں کرتے۔
آپ دور نہ جائیے آپ گورنر پنجاب چوہدری سرور کے واقعے کو لے لیجیے، آپ چوہدری سرور اور میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کا پروفائل نکال کر دیکھ لیجیے، چوہدری سرور پاکستان سے برطانیہ گئے، کندھے پر بوریاں اٹھا کر بزنس اسٹارٹ کیا اور گوروں کے حلقے سے برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر بنے، یہ برطانوی تاریخ کے پہلے مسلمان اور پاکستانی رکن پارلیمنٹ تھے آصف علی زرداری ہوں، میاں نوازشریف ہوں یا پھر عمران خان ہوں کیا ملک کے کسی لیڈر میں اتنی اہلیت ہے کہ یہ برطانیہ جائے اور برطانوی پارلیمنٹ کا ممبر بنے لیکن چوہدری سرور نے یہ کیا، یہ 13 سال برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر رہے! یہ 2013ء میں پاکستان آئے، برطانوی شہریت چھوڑی اور پنجاب کے گورنر بنادیے گئے، یہ کل گورنری سے مستعفی ہو گئے۔
یہ گورنری سے کیوں مستعفی ہوئے؟ یہ کام کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے ملک میں صلاحیت اور جذبہ دونوں نا اہلیت ہیں، یہ ڈس کوالی فکیشن ہیں اور چوہدری سروراس ڈس کوالی فکیشن کا نشانہ بن گئے، آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے اگر پاکستان کا کوئی شہری فائیو اسٹار ریٹائرمنٹ گزارنا چاہے تو کیا ملک میں گورنر پنجاب سے بہتر کوئی عہدہ موجود ہے؟ آپ کے پاس ملک کا سب سے بڑا گورنر ہاؤس ہے، گاڑیوں کا قافلہ ہے، آپ سرکاری جہاز بھی استعمال کر سکتے ہیں اور آپ گرمیوں میں مری کا موسم بھی انجوائے کر سکتے ہیں، پھر چوہدری سرور نے یہ عہدہ کیوں چھوڑا؟ ـ کیونکہ یہ پاکستان میں آرام کرنے نہیں، کام کرنے آئے تھے اور ہمارے ملک میں ہر چیز کی گنجائش موجود ہے بس کام کی گنجائش نہیں اور چوہدری سرور اس عدم گنجائش کا نشانہ بن گئے۔
چوہدری سرور نے کل رخصت ہوتے وقت کہا تھا "پاکستان میں سچ کا قحط ہے، یہ وہ سچ ہے جس کا آج تک ہمارا کوئی لیڈر سامنا نہیں کر سکااور ہم جب تک اس سچ کا سامنا نہیں کریں گے ہم اس وقت تک اوباما اور مودی جیسے لیڈروں کو ڈیزرو نہیں کریں گے، امریکا اور چین کے سربراہان ہمارے اوپر سے گزر کر بھارت جاتے رہیں گے اور ہم صرف احتجاج کرتے اور روتے پیٹتے رہیں گے۔