شفیق عرف چھیکو
مولوی مشتاق ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا، اس نے چٹکی میں شناختی کارڈ بھی پکڑا ہوا تھا، وہ ہاتھ جوڑتا تھا، ہجوم کی منتیں کرتا تھا، انھیں شناختی کارڈ دکھاتا تھااور پھر دہائیاں دیتا تھا مگر ہجوم جب بپھر جائے تو پھر اسے مشتاق اور جوزف کا فرق نظر نہیں آتا، یہ مولوی اور فادر دونوں کی پہچان کھو بیٹھتا ہے اور بادامی باغ کی عیسائی بستی جوزف کا لونی میں بھی اس وقت یہی ہورہا تھا، مولوی مشتاق نے اپنے گھر کے دروازے پر " یہ مسلمان کا گھر ہے" بھی لکھ کر لگا دیا، اس نے دیوار پر کوئلے سے اللہ اور رسول کا نام بھی لکھ دیا لیکن ہجوم جنونی ہو چکا تھا اور انسان جنون میں سب سے پہلے انسانیت کھوتا ہے، یہ بھول جاتا ہے میں انسان ہوں اور میرے سامنے موجود لوگ بھی انسان ہیں اور ہم سب ایک جیسے ہیں، گوشت پوست کے دھڑکتے پریشان ہوتے انسان، جنھیں بارش گیلا، دھوپ گرم، برف ٹھنڈا، لوہا دکھی اور آگ جلا دیتی ہے، یہ بھول جاتا ہے ہم سب ایک جیسے ہیں، دکھی، پریشان، متکبر، اکڑ خان، شیخی خور اور کنفیوژ،۔
ہم سب ایک جیسے ہیں تشکیک کے شکار، تھڑ دلے، جلد باز، چغل خور، ناراض اور منافق اور ہم سب ایک جیسے ہیں، چیختے، چلاتے، منتیں کرتے اور اگر ہاتھ میں ڈنڈا ہو تو فرعون۔ مگر جنون میں ہم یہ تمام حقیقتیں فراموش کر بیٹھتے ہیں، ہم دوسرے انسان کا قیمہ بنا دیتے ہیں، دنیا میں شیر کو شیر نہیں کھاتا، کتے پر کتے کا گوشت حرام ہوتا ہے، چیلیں چیلوں پر حملہ نہیں کرتیں اور حتیٰ کہ سور بھی سور کو نقصان نہیں پہنچاتا مگر انسان دوسرے انسان کو کھا جاتا ہے، یہ دوسرے انسان کو چیر پھاڑ جاتا ہے، یہ اس کا قیمہ کر ڈالتا ہے اور یہ اس کے بعد گلے میں جنون کا ڈھول لٹکا کر دیوانہ وار رقص کرتا ہے اور مولوی مشتاق بھی انسانی جنون میں پھنس گیا تھا، لوگ اللہ اور رسولؐ کے نعرے لگا رہے تھے، یہ غلامی رسول میں موت کی حدیں تک عبور کر جانا چاہتے تھے اور یہ نعرہ بازی کے اس ریلے میں یہ تک بھول گئے ان کے سامنے کوئی عیسائی یا گستاخ نہیں کھڑا، ان کے سامنے ان کا ہم مذہب، ہم مسلک مولوی مشتاق کھڑا ہے، تین جوان بچیوں کا باپ مولوی مشتاق اور یہ ہاتھ جوڑ کر انھیں خدا رسولؐ کا واسطہ بھی دے رہا ہے، یہ انھیں کلمہ پڑھ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا یقین بھی دلا رہا ہے لیکن ہجوم نے اسے مولوی اور مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، ہجوم نے مولوی مشتاق کو دھکا دیا، وہ دہلیز سے دور جا گرا، ہجوم نے اس کے دروازے کی کنڈی توڑی اور اس کے گھر کو آگ لگا دی، مولوی کا گھر اس کی تین بچیوں کے جہیز کے ساتھ جل کر راکھ ہو گیا مگر ہجوم کے دل کو ٹھنڈ نہ پڑی، یہ آگے بڑھ گیا اور یوں ہفتہ 9 مارچ کے دن بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی کے 177 گھر اور 16 دکانیں راکھ ہو گئیں، دس ہزار سے زائد فرزندان توحید پانچ گھنٹے جوزف کالونی میں جنون کا رقص دہکاتے رہے اور حکومت جی او آر میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی۔
یہ تماشا جمعرات 7 مارچ کے دن دو نشیئوں کی لڑائی سے شروع ہوا، اخباری اطلاعات کے مطابق ساون مسیح نشے میں دھت حجام شاہد عمران کی دکان پر آیا، دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی، دونوں ایک دوسرے کو گالی گلوچ کرنے لگے، اس دوران دوسرا نشئی شفیق عرف چھیکو وہاں پہنچا، یہ بھی نشے میں دھت تھا، یہ ساون مسیح کا مخالف تھا، اس نے شور کر دیا، ساون گستاخی کر رہا ہے اور یوں دو لوگوں کی ذاتی لڑائی صلیبی جنگ میں تبدیل ہو گئی، یہ معاملہ اگلے دن مسجد تک پہنچ گیا، وہاں سے مختلف پریشر گروپس تک آیا اور یوں دس ہزار لوگوں نے جوزف کالونی پر حملہ کر دیا، ساون مسیح اس وقت تک بھاگ چکا تھا مگر جوزف کالونی کے 255 خاندان، 278 گھر، درجنون دکانیں اور ساڑھے چار ہزار مکین وہاں موجود تھے، ہجوم نے ساون مسیح کی گستاخی کا بدلہ جوزف کالونی سے لینا شروع کر دیا، گھروں کو آگ لگا دی گئی، سامان لوٹ لیا گیا اور دکانیں جلا کر راکھ کر دی گئیں، اسلام کی یہ تصویر اگلے دن پوری دنیا میں ہمارا اشتہار بن گئی، پاکستان کی مسیحی برادری دو دن سے ہڑتال پر ہے، یہ سڑکوں پر مارچ کر رہی ہے، یہ دھرنے دے کر بیٹھی ہے، پاکستان کے تمام مشنری اسکول بند کر دیے گئے ہیں اور چرچ کا اسٹاف حکومت کی بے حسی پر بددعائیں دے رہا ہے، کیا یہ اسلام ہے؟ اور کیا یہ ہے اللہ کے سچے اور آخری دین کی اصل تصویر؟
ہم آج تک بھارت کے ہندو جنونیوں کو بابری مسجد اور احمد آباد کے مسلمانوں پر حملے کی وجہ سے ظالم اور درندے قرار دیتے ہیں لیکن کیا ہم نے جوزف کالونی پر حملہ کر کے یہ ثابت نہیں کردیا ہم میں اور بھارت کے جنونی ہندوئوں میں کوئی فرق نہیں، یہ اگر گودھرا کے مسلمانوں کو قتل کر سکتے ہیں یا یہ بابری مسجد گرا سکتے ہیں تو ہم بھی کم نہیں ہیں، ہم بھی ایک شخص کی گستاخی کی سزا پوری بستی، پوری کمیونٹی کو دیتے ہیں اور ہمارا جنون جوزف کالونی میں رہنے والے مولوی مشتاق کو بھی نہیں بخشتا، ہم مسلمان بچیوں کا جہیز جلا دیتے ہیں، ہم میں اور گجرات کے جنونی ہندوئوں میں کیا فرق ہے؟ پاکستان کے ہر اخبار کا پہلا صفحہ یہ سوال تین دن سے پوچھ رہا ہے اور ٹیلی ویژن کے ہر بلیٹن میں بھی دہرایا جاتا ہے، کوئی تو اس کا جواب دے۔
جوزف کالونی کے واقعے نے تین باتیں ثابت کر دیں، ایک، ہم من حیث القوم جنون کا شکار ہیں، یہ ملک ساڑھے سات لاکھ مربع کلو میٹر طویل پاگل خانہ بن چکا ہے اور ہم میں سے ہر شخص نے اس پاگل خانے میں ڈیڑھ اینٹ کی اپنی مسجد بنا لی ہے، ہماری اس مسجد کے باہر موجود ہر شخص کافر ہے، ہر شخص گستاخ ہے، ہر شخص غدار ہے اور ہر شخص منافق ہے اور یہ منافق، غدار، گستاخ اور کافرقابل گردن زنی ہے، یہ اگر نہ ملے تو ہم پر اس کا خاندان، اس کی زمین جائیداد، گھر، دکان اور کھیت حلال ہو جاتا ہے، ہم دوسرے کے مندر، چرچ اور جماعت خانہ تو دور ہم اس کی مسجد تک قبول نہیں کرتے، ہم اس کی نماز، اس کے روزے، اس کے قرآن مجید اور اس کی داڑھی تک کو مشکوک سمجھتے ہیں، ہم نے اس ملک میں برادریوں، خاندانوں، قبیلوں، نسلوں، زبانوں اورمسالک کو بھی مسجدوں کی حیثیت دے دی ہے، ہم پٹھان ہیں تو ہماری پٹھانیت ہماری مسجد ہے، ہم پنجابی، سندھی یا بلوچی ہیں، ہم اردو سپیکنگ یا لبرل ہیں تو یہ ہماری مسجد ہے اور ہم اس مسجد میں کسی غیر کو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی اپنی مسجد کی بغل میں کسی دوسری مسجد کو برداشت کرتے ہیں اور یہ جنون ہمارا لائف اسٹائل بن چکا ہے۔
دوسری حقیقت، اس ملک میں غریب کا صرف ایک مذہب ہے اور اس مذہب کا نام غربت ہے، کسی ایک غریب بد بخت کی سزا پوری بستی کو ملتی ہے اور اس بستی کا مولوی مشتاق بھی سزا کی زد میں آجاتا ہے اور ریاست جوزف کو بچا سکتی ہے اور نہ ہی مولوی مشتاق کو اور تیسری اور آخری حقیقت، ہم اس ملک میں ڈگری کے بغیر کسی کا دانت نہیں نکال سکتے، ہم گردے کے علاج کے لیے اسپیشلسٹ کے پاس جائیں گے، ہم چائے بھی چائے خانے کی پیئں گے اور ہم بال بھی اچھے اور ماہر حجام سے کٹوائیں گے لیکن گستاخی کے فیصلے کے لیے ہم اپنی ذات میں مفتی اعظم ہیں، ہم کسی کو بھی، کسی بھی وقت گستاخ قرار دے کر اس کے پورے خاندان کو قتل کرنے، اس کی پوری بستی کو آگ لگانے کا حکم دے سکتے ہیں اور پورا شہر اس نیک کام میں ہمارا مقتدی بن جائے گا اور یہ فتوٰی خواہ شفیق عرف چھیکو ہی کیوں نہ دے، ہم مرنا اور مارنا اپنے اوپر فرض کر لیں گے ہم اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات فراموش کر دیں گے، ہم قرآن مجید کو طاق میں رکھ کر بھول جائیں گے، ہم رسول اللہ ﷺکی کسی سنت پر عمل نہیں کریں گے اور ہم دو دو مہینے مسجد میں داخل نہیں ہوں گے لیکن ہم شفیق عرف چھیکو کی گواہی پر پوری جوزف کالونی جلا دیں گے اور اس کے بعد اللہ سے توقع کریں گے یہ ہمارے اس کارنامے کے صدقے ہمارے تمام گناہ معاف کر دے گا اور یہ ہمیں جوار رحمت میں جگہ دے دے گا اور یہ ہے ہمارا اسلام، شفیق عرف چھیکو کا اسلام۔