پہلے خود کلمہ پڑھ لو
مصر میں مئی اور جون2012ء میں دو مرحلوں میں صدارتی الیکشن ہوئے، اخوان المسلمون نے ملک کی لبرل فورسز کو شکست دی اور یہ جماعت 84 سال کی جہد مسلسل اور تاریخی قربانیوں کے بعد اقتدار میں آ گئی، محمد مرسی مصر کے صدر بن گئے، یہ پڑھے لکھے، ایماندار، پرہیز گار اور سادہ انسان ہیں، یہ قاہرہ کے محلے العدوہ کے چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے اور محلے کی مسجد میں نماز پڑھتے تھے، یہ 30 جون 2012ء کو صدر بنے اور صدر بننے کے بڑے عرصے تک اسی مکان میں رہتے اور اسی مسجد میں نماز پڑھتے رہے۔
اخوان المسلمون حقیقتاً دنیا کی بڑی تحریک ہے، یہ تحریک حسن البنا نے 1928ء میں شروع کی، حسن البنا 1949ء میں 43 سال کی عمر میں قاہرہ کی ایک بڑی شاہراہ پر شہید کر دیے گئے، ان کی شہادت کے بعد اخوان المسلمون کی شہادتوں کی لائین لگ گئی، اسلام اور جمہوریت کے لیے سید قطب جیسے لوگوں نے بھی جان کا نذرانہ پیش کر دیا، شاہ احمد فواد پاشا کے دور سے لے کر جمال عبدالناصر تک اور انور سادات سے لے کر حسنی مبارک تک مصر کے ہر حکمران نے الاخوان کے ہزاروں نوجوان گرفتار کیے، ان کو تشدد کا نشانہ بنایا، شہید ہوئے تو انھیں لاوارث قبروں میں دفن کر دیا اور بچ گئے تو انھیں جیلوں میں ڈال کر بھنگ، چرس، مارفین اور ہیروئن کا عادی بنا دیا مگر تحریک کا زور نہ ٹوٹا، یہ آگے سے آگے بڑھتی رہی یہاں تک کہ یہ 84 سال کی طویل اور خون آلود جدوجہد کے بعد مسند اقتدار تک پہنچ گئی۔
محمد مرسی صدر بن گئے، تحریک سچی بھی تھی، شاندار بھی اور مخلص بھی مگر وقت بدل چکا تھا، دنیا میں اکیسویں صدی کی جنریشن آ چکی ہے، یہ سوشل میڈیا، ای میل، ٹچ اسکرین، ای بکس، جینز، گیٹ ٹو گیدر اور چنک فوڈ کی فری جنریشن ہے، یہ جنریشن اس وقت دنیا کے 245 ممالک میں موجود ہے اور ہم اس سے سو اختلاف کریں، ہم خواہ انھیں چکن کہیں، بد اخلاق، بے لحاظ، سست، بدتہذیب یا لادین کہیں مگر ہم ان کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے، یہ لوگ کروڑوں کی تعداد میں ہیں، یہ مختلف ملکوں میں رہتے ہیں، مختلف عقائد اور مذاہب کے ماننے والے ہیں اور یہ مختلف زبانیں بولتے ہیں مگر یہ اس کے باوجود اپنے والدین سے زیادہ ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں، یہ روزانہ والد سے اتنی بار مخاطب نہیں ہوتے جتنا یہ فیس بک، ٹویٹر اور ایس ایم ایس کے ذریعے دنیا کے دوسرے کونے میں موجود اپنے ان دیکھے دوستوں سے منسلک ہوتے ہیں۔
یہ فری ورلڈ کے فری لوگ ہیں، یہ جہاں حسنی مبارک کی آمریت ماننے سے انکار کر دیتے ہیں، یہ وہاں محمد مرسی کی اسلامی اصلاحات بھی تسلیم نہیں کرتے، یہ دنیا کا انکاری گروپ ہے، یہ ہر زبردستی اور ہر جبر کے خلاف بغاوت کر دیتا ہے، اس گروپ نے پہلے حسنی مبارک کو فارغ کرایا، یہ پھر محمد مرسی کو لے آئے لیکن یہ جلد ہی اس سے بھی اکتا گئے، محمد مرسی نے بھی حالات کا درست تجزیہ نہیں کیا، انھیں چاہیے تھا یہ ترکی کی جسٹس پارٹی، عبداللہ گل اور طیب اردگان کی طرح آہستہ چلتے، یہ پہلے گورننس پر توجہ دیتے، عوامی مسائل حل کرتے، قاہرہ، اسماعیلیہ، اسوان اور شرم الشیخ کے عوامی مسائل حل کرتے، ملک میں امن قائم کرتے اور معیشت کو ترقی دیتے اور اس کے بعد مگرمچھوں کے منہ میں ہاتھ ڈالتے مگر انھوں نے عوام پر توجہ کے بجائے ان اداروں کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا جو جمہوریت سے بھی مضبوط ہیں اور انھیں غیر ملکی حمایت بھی حاصل ہے۔
محمد مرسی فوج سے بھی بھڑ گئے، انھوں نے عدلیہ کے خلاف بھی محاذ کھول لیا اور انھوں نے سوشل میڈیا کے انکاری گروپ کو بھی اپنے خلاف صف آراء کر لیا چنانچہ کشمکش شروع ہوئی اور اس کشمکش کا نتیجہ انارکی نکلا، مصر میں فسادات شروع ہوگئے، التحریر اسکوائر دوبارہ آباد ہوا، فوج واپس آئی اور اس نے 3جولائی 2013ء کو محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا، فوج اور اخوان کے نوجوانوں میں تصادم ہوا اور اب تک مصر کے ہزاروں نوجوان، خواتین اور بچے شہید ہو چکے ہیں، ہم روز انٹرنیٹ پر مصری شہیدوں کی تصویریں دیکھتے ہیں اور خون کے آنسو روتے ہیں۔
مصر پاکستان سے پانچ ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، یہ درست ہے مسلمان فاصلوں کے باوجود ایک دوسرے کے بھائی ہوتے ہیں اور افغان کے پاؤں میں کاٹا چبھتا ہے تو امریکا میں آباد مسلمان کے منہ سے سسکی نکل جاتی ہے مگر اس کے باوجود ایک اور حقیقت بھی ہے اور ہم جب تک اس حقیقت کو نہیں مانتے اس وقت تک ہمارے اور اسلامی دنیا کے مسائل ختم نہیں ہو سکتے اور وہ حقیقت قومیت ہے، مصرمصر ہے، پاکستان پاکستان ہے، مصری مصری ہیں اور پاکستانی پاکستانی۔
ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ مصر کے حالات اور اخوان المسلمون پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بے چین ہے، میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں، میرا بس نہیں چلتا ورنہ میں تلوار لے کر اپنے مصری بھائیوں کی حمایت میں نکل کھڑا ہوں، میرے جیسے لوگ ملک میں اخوان کی حمایت میں جلوس نکال رہے ہیں، یہ جلسے بھی کر رہے ہیں، یہ چندے بھی جمع کر رہے ہیں، یہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مصری فوج کے خلاف اشتہاری مہم بھی چلا رہے ہیں اور یہ قوم سے خطاب کے دوران میاں نواز شریف کی طرف سے اخوان کی حمایت میں بیان نہ دینے پر تبریٰ بھی کر رہے ہیں مگر عجیب بات ہے یہ لوگ یہ مہم، یہ سرگرمیاں اس ملک میں چلا رہے ہیں جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کے اپنے پچاس ہزار بہن بھائی شہید ہو چکے ہیں، ہمارے ملک میں روز کسی نہ کسی جگہ بم پھٹتا ہے، خود کش حملہ ہوتا ہے یا پھر فوج، ایف سی، رینجرز، پولیس یا کسی پاکستانی خفیہ ادارے کے دفتر پر اٹیک ہوتا ہے اور اس میں ہمارے اپنے بھائی، بیٹے اور دوست شہید ہو جاتے ہیں، پاکستان کی کتنی ہی ماؤں کی گود سونی ہو گئی، کتنے ہی سہاگ اجڑ گئے، کتنے ہی بچے یتیم ہو گئے، ملک کے کتنے تاجر، سوداگر، دوکاندار کوڑی کوڑی کو محتاج ہو گئے، ہماری مسجدیں، قبرستان اور امام بارگاہ غیر محفوظ ہو چکے ہیں، مسجدوں کے اندر نماز کے دوران حملے ہوتے ہیں اور قرآن مجید تک خون میں تر ہو جاتے ہیں۔
حکومت اسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کے گرد حفاظتی دیواریں بنانے پر مجبور ہو چکی ہے، ملک کے ہر دوسرے گھر کے سامنے گارڈز کھڑے ہیں، آپ اگر تھوڑے سے بھی خوش حال ہیں تو آپ کی سیکیورٹی کا بجٹ آپ کی خوراک سے زیادہ ہو جائے گا، ملک میں شناختی کارڈ چیک کر کے گولی ماردی جاتی ہے، لوگ معاشرتی ضمیر جگانے کے لیے لاشیں سڑک پر رکھنے پر مجبور ہیں مگر ہم میں سے کوئی اس صورتحال پراحتجاج نہیں کر رہا، آپ بدقسمتی کی انتہا دیکھئے، ہمیں پانچ ہزار کلو میٹر دور اخوان پر ٹوٹنے والے مظالم تو نظر آ رہے ہیں لیکن ہمیں اپنے صحن میں پڑی لاشیں، اپنے عوام کے چہروں پر خوف اور اپنے پیاروں کا بہتا ہوا خون دکھائی نہیں دے رہا، مجھ سمیت اخوان کے کسی حامی نے حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جامع پالیسی بنانے کے لیے مجبور نہیں کیا۔
ہم نے اپنے شہیدوں کے لیے کوئی میڈیا کمپین کی اور نہ ہی کوئی ریلی نکالی، ہم پانچ ہزار کلو میٹر دور شہید ہونے والے اخوانوں کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھ لیتے ہیں مگر ہم نے آج تک کوئٹہ، پشاور، کراچی اور اسلام آباد میں مرنے والے کسی پاکستانی شہید کا غائبانہ جنازہ نہیں پڑھا، ہم نے مرنے والوں اور شہیدوں کو پولیس، فوج اور ایف سی، شیعہ، سنی، دیو بندی اور بریلوی مُردوں میں تقسیم کر دیا ہے، ہم مصر میں مرنے والے ہر مسلمان خواہ وہ شیعہ ہو یا سنی کا ماتم کرتے ہیں لیکن ہم نے پاکستان میں شیعہ لاشوں کی ذمے داری اہل تشیع پر چھوڑ دی ہے اور سنی لاشوں کو اہل سنت کی ملکیت قرار دے دیا ہے، ملک کی حالت یہ ہے فوج کے افسر پولیس کے مُردوں کے جنازے میں شریک نہیں ہوتے اور پولیس فوج کے جنازوں میں، فوجی شہیدوں کو فوج دفن کرتی ہے، پولیس کے مُردے پولیس دفن کرتی ہے، سنیوں کے جنازے میں شیعہ شریک نہیں ہوتے اور شیعہ جنازوں میں سنی شامل نہیں ہوتے لیکن ہم اخوان کے معاملے میں ایک ہیں۔
ہم پارلیمنٹ سے شکوہ کرتے ہیں، اخوان کی ہلاکتوں پر اس نے اب تک قرارداد مذمت پاس کیوں نہیں کی مگر ہمیں اپنے صحن میں پڑی لاشیں نظر نہیں آتیں، کیوں؟ کیا ہم ایسی قوم نہیں بن گئے جو اپنے گھر میں لاشیں چھوڑ کر پرائے ماتم میں شریک ہو جاتی ہے، اسلام قریبی رشتے داروں کو صدقے اور خیرات کا سب سے بڑا حق دار قرار دیتا ہے مگر ہم اپنی ہمدردی تک ہزاروں کلو میٹر دور آباد لوگوں میں بانٹ رہے ہیں، اخوان ہمارے بھائی ہیں اور کاش ہم مصری بھائیوں کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی بن سکیں مگر ہمیں سب سے پہلے اپنے بھائیوں کا ہاتھ پکڑنا چاہیے، ہمیں انھیں کندھا پیش کرنا چاہیے، ہم کیسے صلاح الدین ایوبی ہیں، ہمارے صحن میں لاشیں پڑی ہیں مگر ہم مصری فوج سے لڑنے کے لیے تڑپ رہے ہیں، ہم کیسے محمد بن قاسم ہیں ہم اپنی بہنوں کے چہروں پر تیزاب پھینک دیتے ہیں مگر اغیار کے دیبل فتح کرنے کی قسمیں کھاتے ہیں، ہماری بچیاں ہمارے خوف سے باہر نہیں نکلتیں مگر ہم فرانس میں حجاب کی تحریک کے لیے جان دینے کے لیے تیار ہیں اور ہمارے ہمسائے میں دس دس دن کھانا نہیں پکتا مگر ہم اپنی عورتوں کے زیور اتار کر چیچنیا کے مسلمانوں کو بھجوا دیتے ہیں، آپ کو اگر عالم اسلام کا اتنا درد ہے تو خدا کے لیے پہلے اپنے آپ کو مسلمان تو بنا لو، پہلے خود کلمہ پڑھ لو، فرعون کو بعد میں مسلمان کر لیں گے۔