پٹ سن کی سڑکیں
کل لاہور میں میٹرو بس سروس کا افتتاح تھا، میں نے افتتاح کی پوری تقریب ٹیلی ویژن چینلز پر دیکھی، یہ تقریب اس منصوبے کی طرح شاندار تھی، تقریب میں ڈھول بھی تھے، غبارے بھی، ناچتے، گاتے اور اچھلتے کودتے لوگ بھی اور بس سروس کو انجوائے کرتے لاہوری بھی۔ یہ شاندار منصوبہ ہے اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، ترقی کا کمیونیکیشن سے گہرا تعلق ہوتا ہے، آپ انفرادی اور ملکی سطح پراس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہوتے جب تک آپ کے پاس اچھی اور کھلی سڑک، اچھی گاڑی، پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید نظام، موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نہیں ہو تا، آپ دنیا کے جدید اور ترقی یافتہ ممالک کا ڈیٹا نکال لیں، آپ کو ان تمام ممالک میں پبلک ٹرانسپورٹ کا شاندار نظام ملے گا، آپ کو ان میں بڑی بڑی ہائی ویز، انڈر گرائونڈ ٹرینز، ریپڈ ٹرانزٹ بس سروس اور سستی اور شاندار ٹیکسی سروس ملے گی۔
آپ اس کے بعد غیر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست بھی سامنے رکھ لیں، آپ ان ممالک میں کمیونیکیشن کی ان تمام سہولتوں کا فقدان دیکھیں گے، آپ کو چاڈ، مالی، صومالیہ، افغانستان، سوڈان، کانگو، اورایتھوپیا میں یہ سہولتیں نہیں ملیں گی چنانچہ ہم نے اگر ترقی کرنی ہے تو پھر ہمیں ملک میں بین الاقوامی معیار کی سڑکیں، انڈر گرائونڈ ٹرین سروس، میٹرو بس سروس اور بلٹ ٹرین سروس چلانی ہو گی، لندن تین ہزار سال سے لندن تھا لیکن یہ دنیا کا لیڈر آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے اس وقت بنا جب اس میں انڈر گرائونڈ ریل سروس شروع ہوئی، برطانیہ کا ریل سسٹم اس قدر سبک رفتار، آرام دہ اور محفوظ ہے کہ ہمارے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف دس فروری کو ٹرین پر لندن سے بریڈ فورڈ تشریف لے گئے اور ان کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، استنبول کی ریپڈ ٹرانزٹ بس سروس نے یورپ کے مرد بیمار کو دنیا کے جدید ترین شہروں میں شامل کر دیا، استنبول میں روزانہ ساڑھے تین سو بسیں چلتی ہیں اور ان بسوں پر ہر سال کروڑ سے زائد سیاح سفر کرتے ہیں، ہم میاں شہباز شریف پر تنقید کر سکتے ہیں لیکن ہمیں اس منصوبے کو برا نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ ترقی کا نقطہ آغاز ہے اور پوری دنیا نے اسی قسم کے سسٹمز سے ترقی کی مگر ان تمام خوبیوں کے باوجود مجھے لاہور بس سروس کی بسوں اور اس کے ٹریک سے دوسرے صوبوں کی محرومی کی بو بھی آتی ہے۔
آپ کو یاد ہو گا 1971ء سے قبل مشرقی پاکستان پسماندگی، قحط اور سیلاب کی بدترین مثال ہوتا تھا، چٹا گانگ کے لاکھوں لوگ ہر سال سمندری طوفان میں غرق ہو جاتے تھے، بے روزگاری، بدامنی اور غربت انتہا کو چھو رہی تھی، بنگالی روزگار کی تلاش میں کراچی، لاہور اور راولپنڈی آتے تھے تو یہاں کی شان و شوکت ان کی آنکھوں کو خیرا کر دیتی تھی، اس دور میں اسلام آباد بن رہا تھا، غیر ملکی کمپنیاں وفاقی دارالحکومت کی پلاننگ کر رہی تھیں، اسلام آباد کی سڑکیں بھی غیر ملکی فرموں نے بنائی تھیں، یہ پاکستان کی شاندار ترین سڑکیں تھیں، بنگالی جب ان چمکتی دمکتی اور رواں سڑکوں پر قدم رکھتے تھے تو انھیں ان سے پٹ سن کی بو آتی تھی اور یہ واپس جا کر اپنے ہم وطنوں کو بتاتے تھے ہمارے خون سے مغربی پاکستان کی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں اور بنگالیوں کی محرومیاں اور پریشانیاں اس بات کو فوراً مان لیتی تھیں، محروم شخص کو اپنی پسماندگی کے استروں کی مالہ کے لیے ہمیشہ گردن چاہیے ہوتی ہے، یہ ہمیشہ اپنا مجرم تلاش کرتی ہے، اس سے اس کی محرومی کم نہیں ہوتی لیکن اسے ریلیف ضرور مل جاتا ہے اور بنگالیوں نے مغربی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کو اپنا نفسیاتی ریلیف بنا لیااور اس ریلیف نے پورے مغربی پاکستان کو پنجابی ڈکلیئر کر دیا، بنگالی مغربی پاکستان کے ہر شخص کو پنجابی سمجھ کر اسے اپنا دشمن سمجھنے لگے، نفرت کی اس آگ کو بنگالی لیڈروں نے ہوا دی یہاں تک کہ 16 دسمبر 1971ء کا دن آ گیا جب ہمارا مشرقی بازو بنگلہ دیش بن گیا، ملک توڑتے وقت کسی بنگالی نے یہ نہیں سوچا اس کی محرومی کی وجہ پنجاب (مغربی پاکستان) کے لوگ یا لیڈر نہیں بلکہ وہ بنگالی لیڈر ہیں جو انھیں سکول، اسپتال، سڑک اور روزگار نہیں دے سکے۔
بنگالی یہ بھول گئے مشرقی پاکستان کی ڈویلپمنٹ مغربی پاکستان کے لیڈروں کی نہیں بنگالی لیڈروں کی ذمے داری تھی، ان کا وزیر اعلیٰ کام نہیں کر رہا تو یہ ان کا فالٹ ہے اور اگر مغربی پاکستان کا وزیر اعلیٰ دن رات کام کر رہا ہے تو یہ مغربی پاکستان کے عوام کی خوش قسمتی ہے، بنگالی لیڈر بھی اپنی خفٹ مٹانے اور نالائقی چھپانے کے لیے پٹ سن کی سڑکوں کا واویلا کرتے رہے، بنگلہ دیش بنا تو لوگ اپنی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کو پٹ سن کی شاہرائوں میں تبدیل ہونے کا انتظار کرنے لگے مگر مجیب الرحمن کے پاس بیچنے کے لیے نفرت کے علاوہ کچھ نہیں تھا، وہ آزادی کے بعد بھی پنجاب کو گالی دیتا رہا یہاں تک کہ لوگ تنگ آ گئے اور انھوں نے15 اگست 1975ء کو بنگلہ دیش کو آزادی دینے والے مجیب الرحمن کو اس کی بیوی اور بچوں سمیت گھر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا، کاش مجیب الرحمن نے نفرت کی سیاست کی بجائے گورننس پر توجہ دی ہوتی تو وہ اس انجام کا شکار نہ ہوتا۔
ہمارے ملک کو جس طرح 1960ء کی دہائی کے آخر میں اسلام آباد کی سڑکوں نے تقسیم کر دیا تھا، بالکل اسی طرح یہ میٹرو بس سروس بھی ملک کو " ڈیوائیڈ" کر دے گی کیونکہ آج کے بعد سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کا جو شہری لاہور میں داخل ہو گا اسے اپنے صوبے اور پنجاب میں بڑا فرق دکھائی دے گا اور تینوں صوبوں کے لیڈرز اس فرق کو نفرت میں بدلتے چلے جائیں گے، آج سے ڈیڑھ ہفتہ قبل میری وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبا زشریف سے ملاقات ہوئی، میاں شہباز شریف نے روندھے ہوئے لہجے میں کہا " کاش یہ منصوبہ لاہور سے پہلے کراچی میں شروع ہوا ہوتا" میں نے ان سے اتفاق کیا، کراچی واقعی لاہور سے قبل میٹرو بس سروس کو "ڈیزرو" کرتا تھا، یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، دو کروڑ سے زائد آبادی ٹرانسپورٹ کی کمی کا شکار ہے، کراچی شہر کی پرائیویٹ بسیں پرانی، چھوٹی اور گندی ہیں، ٹیکسیوں اور رکشوں کی حالت بھی بہت پتلی ہے، شہر میں ٹرانسپورٹ کی ہڑتالوں کی وجہ سے بھی حالات دگر گوں ہو جاتے ہیں، یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دو کروڑ کی آبادی تک پہنچ کر بھی پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہے، کوئٹہ اور پشاور کی حالت بھی خراب ہے، کوئٹہ شہر اور پشاور میں بھی ریپڈ ٹرانزٹ بس سروس ہونی چاہیے، راولپنڈی اسلام آباد میں بھی یہ سروس ضروری ہے لیکن میٹرو بس سروس کراچی، پشاور اور کوئٹہ سے قبل لاہور میں شروع ہو گئی گو اس کے ذمے دار سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے وزراء اعلیٰ ہیں، سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی حکومت ہے، یہ دونوں وفاق میں بھی پارٹنر ہیں، یہ اگر کراچی کی حالت بدلنا چاہتے تو ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی، وفاقی حکومت نے بلوچستان کو ساڑھے چار سال میں ساڑھے آٹھ سو ارب روپے دیئے، بلوچستان کو اپنی تاریخ میں کبھی اتنا سرمایہ نہیں ملا، اگر نواب اسلم رئیسانی اس رقم کا 25 فیصد بھی گرائونڈ میں لگا دیتے تو بلوچستان ملک کا ترقی یافتہ ترین صوبہ ہوتا، صوبہ خیبر پختونخواہ کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ، این ایف سی ایوارڈ اور پانی اور بجلی کی رائیلٹی کی مد میں کھربوں روپے ملے، یہ سرمایہ بھی اگر عوامی بہبود پر خرچ ہوتا تو آج خیبر سے اٹک تک پورے صوبے کی حالت بدل گئی ہوتی لیکن یہ ان صوبوں کی صوبائی قیادت کی نالائقی، کرپشن اور مس گورننس ہے جس کی وجہ سے پنجاب دوسرے صوبوں سے آگے نکل گیا مگر عوام ان باریکیوں سے واقف نہیں، انھیں صرف پنجاب اور لاہور دکھائی دے رہا ہے چنانچہ مجھے خطرہ ہے سندھ، خیبر پختونخواہ اور کوئٹہ کے لوگوں کو آنے والے دنوں میں اس میٹرو بس سروس سے اپنی محرومیوں کی بو آنے لگے گی اور یہ بو صوبائیت کی تقسیم در تقسیم میں الجھے ملک کو مزید تقسیم کر دے گی۔
ہمارے ملک کے حکمرانوں کے دل میں اگر ذرا سا بھی خوف خدا ہے یا یہ اس ملک سے رتی بھر محبت کرتے ہیں تو انھیں کراچی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی ایسے منصوبے شروع کر دینے چاہئیں، یہ اگر الیکشن کی وجہ سے ممکن نہیں تو انھیں کم از کم ان منصوبوں کو اپنے منشور کا حصہ ضرور بنا لینا چاہیے اور اس کا آغاز پاکستان مسلم لیگ ن کو کرنا چاہیے، اسے فوری طور پر تینوں صوبوں میں میٹرو بس کی اسٹڈی شروع کروا دینی چاہیے اور یہ اعلان کرنا چاہیے اگر ان کی حکومت آ گئی تو یہ ایک سال میں تینوں صوبائی دارالحکومتوں میں یہ بس سروس شروع کریں گے، اگر مسلم لیگ ن یہ اعلان نہیں کرتی یا اگلے ایک دو برسوں میں تینوں صوبوں میں یہ منصوبہ شروع نہیں ہوتا تو یہ میٹرو بس سروس آنے والے دنوں میں صوبائیت بڑھا دے گی اور یہ پولرائزیشن پٹ سن کی نئی سڑکوں کی بنیاد ثابت ہوگی۔