پردے کے پیچھے کیا ہوتا رہا
یہ کہانی نومبر 2001ء میں ملتان میں شروع ہوئی، ملتان میں چرس کی اسمگلنگ کا ایک بین الاقوامی ریکٹ تھا، سرغنہ ملک مشتاق تھا، یہ دوستوں میں بلیک پرنس مشہور تھا، خوش حال، فراخ دل اور بااثر تھا چناں چہ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر اور آصف علی زرداری کے دوستوں میں شامل ہو گیا، یہ بیک وقت اچھا اور برا انسان تھا، یہ یورپ میں چرس بھی اسمگل کرتا تھا، بلیک پرنس کی بیوی ہالینڈ سے تعلق رکھتی تھی اور یہ لوگ ہالینڈ سے اپنا ریکٹ چلاتے تھے۔
ملتان کا ایک کردار میاں ادریس اور بلیک پرنس کا بھتیجا ملک پرویز اس مافیا کے اہم رکن تھے، علی پور کے قریب اس زمانے میں ڈرائی پورٹ ہوتی تھی، یہ لوگ اس پورٹ کے ذریعے منشیات اسمگل کرتے تھے، بلیک پرنس نے 2001ء میں ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس اکٹھی کی اور یہ چرس کنٹینروں کی دیواروں میں چھپانا شروع کر دی، یہ لوگ یہ کنٹینر ہالینڈ بھجوانا چاہتے تھے لیکن پھر مخبری ہو گئی۔
اے این ایف نے چھاپا مارا اور 20 نومبر 2001ء کو ساڑھے پانچ ہزار کلو گرام چرس پکڑ لی، یہ پاکستان کی تاریخ میں منشیات کی سب سے بڑی کھیپ تھی، ملک مشتاق (بلیک پرنس)، میاں ادریس اور ملک پرویز تینوں گرفتار ہو گئے، کراچی کا ایک بزنس مین ملک احمد بھی اس ریکٹ کا حصہ نکلا، یہ کراچی میں راڈو گھڑیوں کا "فرنچائز ہولڈر" تھا، جج ارشد ملک اس وقت ملتان میں ایڈیشنل سیشن جج ہوتے تھے، میاں ادریس کا بھائی میاں طارق اس وقت ملتان میں ٹیلی ویژن سیٹ بیچتا تھا، یہ بھائی کی مدد کے لیے گھر سے نکلا اور کورٹ کچہریوں کے چکر لگانے لگا، یہ چکر عدالتوں اور جوڈیشل سیکٹر میں اس کے تعلقات بڑھاتے چلے گئے۔
آصف علی زرداری کے حکم پر لطیف کھوسہ نے بلیک پرنس اور میاں ادریس کا کیس لے لیا، کیس کی پیروی کے دوران میاں طارق لطیف کھوسہ کا دوست بھی بن گیا، میاں طارق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وکیلوں، ججوں، پولیس اور آئی بی کا "فسیلی ٹیٹر" بنتا چلا گیا، یہ ان کے لیے ایک دوسرے کے درمیان رابطہ بھی بن جاتا تھا، یہ ان کے لیے پارٹیاں بھی کراتا تھا اور لین دین کا بندوبست بھی کرتا تھا، یہ اس دوران پکا کام کرنے کے لیے تمام فریقین کی "ویڈیوز" بنا لیتا تھا، جنرل پرویز مشرف کے دور میں حکومت نے آصف علی زرداری کے خلاف درج منشیات کے مقدمے کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔
بلیک پرنس واحد کردار تھا جو حکومت کی بھرپور مدد کر سکتا تھا چناں چہ ایجنسیوں نے سینٹرل جیل ملتان میں بلیک پرنس سے رابطہ کیا اور یہ آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کے لیے تیار ہو گیا لیکن یہ عین گواہی کے دن مکر گیا، ایجنسیوں نے اس پر بھرپور دباؤ ڈالا لیکن یہ نہ مانا، آصف علی زرداری نے اس کے اس احسان کا بدلا 2008ء میں دیا، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی، عبدالحمید ڈوگر چیف جسٹس آف پاکستان تھے، لطیف کھوسہ اٹارنی جنرل، یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف علی زرداری صدر، بلیک پرنس کی پٹیشن سپریم کورٹ پہنچی، کورٹ نمبر ون میں سماعت ہوئی اور چاروں ملزمان کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
کیس بھی بعد ازاں ختم ہو گیا، بلیک پرنس لاہور میں آباد ہو گیا اور یہ عام اور گم نام لوگوں جیسی زندگی گزارنے لگا، میاں ادریس باہر آ کر خاندان سے لڑ پڑا، اپنی جائیداد بیچی، پیسا اکٹھا کیا اور ملک سے باہر (غالباً بحرین) چلا گیا، پیچھے رہ گیا میاں طارق، اس نے ملتان میں اسمگلڈ اور جعلی ایل سی ڈیز کی دکان کھول لی تاہم یہ جوڈیشری، وکلاء برادری، پولیس اور آئی بی کے ساتھ رابطوں میں رہا، یہ اس دوران اپنے تمام دوستوں کی ویڈیوز بھی بناتا رہا، اس کے بیٹے بھی بعد ازاں والد کے اس کام میں شامل ہو گئے، یہ لوگ اسلام آباد اور لاہور بھی جاتے تھے، دوستوں کی "خدمت" کرتے تھے اور اس خدمت کی ویڈیو بنا لیتے تھے، جج ارشد ملک بھی اس خدمت کی زد میں آ گیا، اس کی صوفے کے اوپر ویڈیو بنی اور یہ ویڈیو ارشد ملک کے ساتھ ساتھ پوری جوڈیشری کی ساکھ نگل گئی، میاں طارق اپنے دوستوں کو برملا یہ بھی بتاتا تھا میرے پاس لطیف کھوسہ کے بڑے بڑے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں، ہم یہ کہانی یہاں روکتے ہیں اور کہانی کے دوسرے کرداروں کی طرف آتے ہیں۔
جج ارشد ملک راولپنڈی کے رہائشی ہیں، یہ جج بننے سے پہلے راولپنڈی میں پریکٹس کرتے تھے، راولپنڈی میں ان کے چار لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے، پہلا شخص ناصر جنجوعہ تھا، یہ لالہ موسیٰ سے تعلق رکھتا ہے، اس کے والد امام دین جنجوعہ شہر کی مشہور ترین ہستی تھے، یہ ملٹری اور سول کنٹریکٹر تھے۔ "مڈ جیک" ان کی کمپنی تھی، یہ ایوب خان کے دور ہی میں کروڑپتی بن چکے تھے، امام دین جنجوعہ کے انتقال کے بعد کمپنی ناصر جنجوعہ کے پاس چلی گئی، یہ 35 سال سے میاں نواز شریف کے دوستوں کے حلقے میں بھی شامل ہے، یہ بیورو کریسی، جوڈیشری اور آرمی آفیسرز کے ساتھ تعلقات بھی رکھتا تھا، حلقہ وسیع تھا، لوگ اپنی پروموشن اور تبادلوں کے لیے اس کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔
دوسرا کردار ناصر بٹ کا بڑا بھائی تھا، یہ لوگ دھڑے باز اور دشمن دار تھے یا کورٹ کچہری کے چکر لگاتے رہتے تھے اور ان چکروں میں وکیلوں، ججوں اور پولیس افسروں کو اپنا دوست بنالیتے تھے، ناصر بٹ بعد ازاں میاں نواز شریف کے قریب پہنچ گیا، یہ ان کا جاں نثار بن گیا، تیسرا کردار مہر جیلانی تھا، یہ میاں طارق سے ملتا جلتا کردار تھا، یہ راولپنڈی میں سرکاری ملازموں کا ٹاؤٹ مشہور تھا، یہ ہر اہم جج، پولیس افسر اور سیاستدان کے قریب پہنچ جاتا تھا اور ان کے گندے "کچھے" دھونا شروع کر دیتا تھا اور چوتھا کردار خرم یوسف تھا، یہ پراپرٹی ڈیلر ہے اور اہم لوگوں کے ساتھ تصویریں کھینچوا کر خود کو اہم ثابت کرنے کی لت میں مبتلا ہے، جج ارشد ملک سمیت یہ سارے کردار ناصر جنجوعہ کے حلقے میں شامل تھے۔
ناصر جنجوعہ کے حلقے میں دو اور لوگ بھی شامل تھے (یہ آج بھی ہیں)، میاں نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر اور نیب کے سابق چیئرمین قمر زمان چوہدری، یہ دونوں ناصر جنجوعہ کے روزانہ کے ملاقاتی ہیں، ہم اب میاں نواز شریف کے کیس کی طرف آتے ہیں، میاں نواز شریف کا کیس نیب کورٹ نمبر ایک میں شروع ہوا، شروع میں جج محمد بشیر کیس سن رہے تھے، میاں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے 9 جولائی 2018ء کو جج محمد بشیر کی غیرجانبداری پر سوال اٹھایا اور کہا"آپ شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دے چکے ہیں لہٰذا مناسب یہی ہے کہ آپ دیگر 2 ریفرنسز العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کی سماعت نہ کریں"جج محمد بشیر نے 16 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کو خط لکھ کردونوں ریفرنسز کی سماعت سے معذرت کر لی یوں8 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر یہ کیس احتساب عدالت نمبردو کے جج ارشد ملک کے حوالے کر دیا گیا۔
ارشد ملک کے بقول نواز شریف کے مقدمات کی منتقلی کے بعد مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے ان سے رابطہ کیا، ناصر جنجوعہ نے دعویٰ کیا اس نے مسلم لیگ ن کی حکومت کی ایک با اثر شخصیت کے ذریعے انھیں احتساب عدالت کا جج لگوایا ہے، آپ اب صورت حال دیکھیے، سابق چیئرمین نیب بھی ناصر جنجوعہ کے دوست، کیپٹن صفدر بھی ناصر جنجوعہ کے دوست اور جج ارشد ملک بھی ناصر جنجوعہ کے دوست، میں نے جب اس اسٹوری پر کام شروع کیا تو مجھے پتا چلا جج ارشد ملک ناصر جنجوعہ کے ذریعے تمام پس پردہ انفارمیشن شریف فیملی تک پہنچا دیتے تھے۔
آپ ان دنوں کی ن لیگ کے لیڈرز کی پریس ٹاکس نکالیں اور یہ پریس ٹاکس آج کی کہانی کے قریب رکھ کر دیں تو آپ بڑی آسانی سے خفیہ انفارمیشن کے سورس تک پہنچ جائیں گے، بہرحال قصہ مختصر ارشد ملک کے بقول ناصر جنجوعہ اور مہر جیلانی نے انھیں 10 کروڑ روپے مالیت کے یوروز کی پیش کش کی، ناصر جنجوعہ نے یہ بھی کہا، دو کروڑ روپے مالیت کے یوروز اس وقت بھی میری گاڑی میں پڑے ہیں، آپ یہ فوری طور پر وصول کر لیں، یہ رقم ناصر جنجوعہ خود نہیں دے رہا تھا، یہ میاں نواز شریف کے ایک جیالے نے فراہم کی تھی لیکن جج صاحب کے بقول "میں نے انکار کر دیا"۔
میں اب کہانی کو مزید آگے بڑھاتا ہوں، عمران خان کی حکومت آ گئی، ملک کے زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا یہ حکومت کام یاب ہو جائے گی لیکن حکومت کم زور ثابت ہوئی اور مارچ 2019ء تک صاف نظر آنے لگا یہ حکومت نہیں چل سکے گی، سپریم کورٹ نے 26 مارچ کو میاں نواز شریف کو ڈیڑھ ماہ کے لیے گھر جانے کی اجازت بھی دے دی، یہ اجازت بھی تبدیلی کا اشارہ ثابت ہوئی، اب شریف فیملی کے بقول جج ارشد ملک ڈر گیا، اس نے سوچا میاں نواز شریف واپس آ جائے گا اور یہ مجھے نہیں چھوڑے گا چناں چہ یہ ناصر بٹ کے بڑے بھائی، مہر جیلانی اور خرم یوسف کے ذریعے شریف فیملی سے رابطے کرنے لگا، یہ ناصر بٹ سے بھی ملا اور اس سے میاں نواز شریف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی، ناصر بٹ نے میاں نواز شریف سے پوچھا اور 6 اپریل 2019ء کو جج ارشد ملک کو جاتی عمرہ لے گیا، ملاقات میں کیا ہوا؟
یہاں دو ورژن ہیں، شریف فیملی اور ناصر بٹ کے بقول جج ارشد ملک نے میاں نواز شریف سے معافی بھی مانگی اور ان کرداروں کے نام بھی دیے جنہوں نے اس پر دباؤ ڈال کر فیصلہ لیا تھا، ارشد ملک نے فیصلہ لکھنے اور ان میں ترمیم کرنے والے لوگوں کے نام بھی بتائے تھے جب کہ جج صاحب کے بقول میں نے میاں نواز شریف سے کہا، میں نے فیصلہ میرٹ پر کیا تھا جس پر میاں نواز شریف ناراض ہو گئے، یہ جج ارشد ملک کی شریف فیملی سے پہلی ملاقات تھی، دوسری اور تیسری ملاقات جدہ میں ہوئی اور خرم یوسف جج صاحب کو لے کر سعودی عرب گیا اور یہ دونوں ملاقاتیں انتہائی خطرناک اور ہوش ربا ہیں۔
آپ باقی داستان اگلے کالم میں ملاحظہ کیجیے۔