ملتان یونیورسٹی
ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی 1975ء میں قائم ہوئی، یہ پہلے یونیورسٹی آف ملتان تھی، 1979ء میں نام تبدیل کر کے اسے حضرت بہاؤالدین ذکریا ملتانی سے منسوب کر دیا گیا، پروفیسر ڈاکٹر خواجہ علقمہ آج کل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں، یہ ماہر تعلیم بھی ہیں، علم پرور بھی ہیں اور یہ یمن میں پاکستان کے سفیر بھی رہے، یہ صاحب مطالعہ ہیں، یہ دنیا بھرسے کتابیں منگواتے ہیں، خود بھی پڑھتے ہیں اور دوستوں کو بھی بھجواتے ہیں، ڈاکٹر صاحب نے یونیورسٹی آنے کی بے شمار دعوتیں دیں لیکن وقت نے یاوری نہ کی، جون میں میرے دوست ڈاکٹر محمد شہزاد نے یونیورسٹی کے "شعبہ فاصلاتی تعلیم"کے سربراہ ڈاکٹر اسحاق فانی سے وعدہ کر لیا، ڈاکٹر شہزاد میرے بہاولپور کے زمانے کے دوست ہیں۔
یہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے شعبہ صحافت میں پڑھاتے ہیں، میں ڈاکٹر شہزاد کے حکم پر ملتان پہنچ گیا، ڈاکٹر علقمہ نے یونیورسٹی کی بہبود کے لیے بہت کام کیا، صرف فاصلاتی تعلیم کے شعبے نے ایک ارب روپے کا ریونیو جمع کیا، فاصلاتی تعلیم کی نئی عمارت بن رہی ہے، یہ ملتان کی خوبصورت ترین عمارت ہو گی، میں شعبے کی زیر تعمیر لائبریری دیکھ کر حیران رہ گیا، ملک میں شاید ہی اس معیار کی کوئی دوسری لائبریری ہو، لوگ خواجہ علقمہ کے خلاف ہیں، یہ ان کی وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے میں ان کا زیادہ احترام کرتا ہوں، میں نے وقت سے سیکھا، ہمارے ملک میں جو شخص کام کرے گا لوگ اس کی مخالفت کریں گے، آپ آج کام شروع کر دیں، لوگ کل آپ کے راستے میں کھڑے ہو جائیں گے۔
کیوں؟ کیونکہ ہمارے ملک میں اہلیت اور پرفارمنس دونوں جرم ہیں، آپ پوری زندگی سرکار کے داماد بنے رہیں، آپ تنخواہ لیں، مراعات انجوائے کریں اور پوری زندگی تنکا دوہرا نہ کریں، آپ کو پورا معاشرہ ایماندار بھی کہے گا، درویش بھی اور نیک بھی لیکن آپ نے جس دن ٹھہرے پانی کے گندے جوہڑ میں ایفی شینسی کا کنکر پھینک دیا، آپ نے گرتی عمارتوں پر سفیدی شروع کر دی یا آپ نے نکاسی آب کے لیے نالیاں سیدھی کرنا شروع کر دیں یا پھر آپ نے درختوں کے تنوں پر چونا پھیرنا شروع کر دیا لوگ فوراً ڈنڈے لے کر باہر آجائیں گے، یہ آپ کا جینا حرام کر دیں گے، میاں شہباز شریف کا المیہ کیا ہے؟ پنجاب میں 68 سال سے بجٹ بن رہے ہیں۔
ان بجٹوں میں ترقیاتی فنڈز بھی رکھے جاتے ہیں مگر حکومتیں یہ ترقیاتی فنڈز ایم پی ایز اور ایم این ایز میں تقسیم کر دیتی تھیں اور ہمارے معزز پارلیمنٹیرینز یہ فنڈ کھا جاتے تھے، قوم نے کبھی اعتراض نہیں کیا لیکن میاں شہباز شریف نے یہ فنڈز باقاعدہ خرچ کر دیے، لاہور اور راولپنڈی میں میٹروز بنا دیں، ملتان میں میٹرو شروع کر دی، پنجاب کے بڑے شہروں میں بھی سڑکیں، پل اور انڈر پاسز بنا دیے چنانچہ لوگ اب ان کے خلاف ہیں، آپ دوسرے صوبوں کو دیکھ لیجیے، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے وزراء اعلیٰ کے پاس بھی ترقیاتی بجٹ ہیں۔
یہ ترقیاتی کام نہیں کر رہے، یہ سڑکیں، پل اور میٹرو نہیں بنا رہے، یہ ہر سال اپنے ترقیاتی فنڈز ضایع کر دیتے ہیں مگر ان سے کوئی نہیں پوچھ رہا، ملک کا کوئی شہری یہ سوال نہیں پوچھ رہا، آپ نے میٹرو بنائی اور نہ ہی آکسفورڈ جیسی یونیورسٹی کی بنیاد رکھی پھر پیسہ کہاں چلا گیا؟ کیوں؟ کیونکہ ہم صرف کام کرنے والوں کی مخالفت کرتے ہیں، ہم صرف کام کرنے والوں سے حساب مانگتے ہیں، پنجاب نے اس سال تعلیم کے لیے 310 ارب روپے کی رقم رکھی، یہ کل بجٹ کا 27 فیصد بنتا ہے، ہمیں یہ بجٹ نظر نہیں آئے گا لیکن ہم میٹرو کے 48 ارب روپے کے پیچھے ڈنڈا لے کر بھاگتے رہیں گے، کیوں؟ کیونکہ ہم ترقی اور کام دونوں کے خلاف ہیں، میٹرو نہ بنتی، یہ سرمایہ سیاستدان کھا جاتے تو ٹھیک تھا، میٹرو بن گئی، یہ سرمایہ عام آدمی کی سہولت پر خرچ ہو گیا، یہ برا ہے۔
خواجہ علقمہ کے ساتھ بھی یقینا یہی ہوا ہو گا، یہ بھی کام کرنے کی غلطی کر بیٹھے ہوں گے اور لوگوں کو ان کی یہ حرکت پسند نہیں آئی ہو گی چنانچہ لوگ ان کی مخالفت بھی کر رہے ہیں، یہ جس دن چلے جائیں گے اور ان کی جگہ سرکار کا کوئی داماد آ جائے گا اور یہ داماد ریٹائرمنٹ تک کسی پودے تک کو پانی نہیں دے گا تو لوگ خوش رہیں گے، لوگ یقینا فاصلاتی تعلیم کے شعبے کی مخالفت بھی کر رہے ہوں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ شعبہ یونیورسٹی کو کما کر دے رہا ہو گا، یہ یونیورسٹی کے ریونیو میں اضافہ کر رہا ہو گا اور ہمارے خطے میں ہمیشہ کماؤ پوت کو جوتے پڑتے ہیں، نکھٹو پوری زندگی چارپائیاں اور روٹیاں توڑتے ہیں مگر اس کے باوجود بے چارے، شہدے اور لاڈلے کہلاتے ہیں۔
میرا یونیورسٹی میں لیکچر تھا، اساتذہ اور طالب علم دونوں سوالوں سے لبالب بھرے تھے، یہ سیشن تین گھنٹے جاری رہا، میں نے اور شرکاء دونوں نے انجوائے کیا، یونیورسٹی میں لاہور کیمپس کے مستقبل کے بارے میں بھی خوف پایا جاتا تھا، یہ کیمپس لاہور کے صنعت کار منیر بھٹی نے پنجاب حکومت اور یونیورسٹی سے باقاعدہ فرنچائز لے کر قائم کیا، پندرہ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی، جدید ترین لیکچر تھیٹر اور کیمپس بنایا لیکن منیر بھٹی اور کیمپس دونوں سسٹم کے فٹ بال بن چکے ہیں، پانچ ہزار طالب علم ہیں، ان کا مستقبل کیا ہے؟
کوئی نہیں جانتا، ملک میں ایک طرف صنعت کاروں اور بزنس مینوں کو تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاتی ہے، یونیورسٹیوں کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کا حکم بھی دیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی یونیورسٹی یا کوئی سرمایہ کار یہ حرکت کر بیٹھے تو وہ ذلیل ہو کر رہ جاتا ہے، ہماری ریاست اتنی کنفیوژ کیوں ہے؟ یہ ایک ہی بار کوئی ٹھوس فارمولہ کیوں نہیں بنا دیتی، آپ فارمولہ بنائیں اور سرمایہ کاروں کے لیے اوپن کر دیں تا کہ کوئی ابہام ہی نہ رہے، کرپشن ہو، بے قاعدگی ہو تو مجرموں کو پکڑیں اور سزا دیں۔
آپ گھسیٹتے کیوں ہیں؟ آپ وقت کیوں ضایع کرتے ہیں؟ وقت ضایع کرنے اور گھسیٹنے سے مجرم بچ جاتے ہیں لیکن ادارے تباہ ہو جاتے ہیں، آپ مجرموں کو سزا دیں اور ادارے بچائیں، ملک ترقی کرے گا ورنہ دوسری صورت میں ادارے ختم ہو جائیں گے، ملک روانڈا بن جائے گا اور مجرم اسلامی جمہوریہ روانڈا کی گلیوں میں دندناتے پھریں گے، کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر وہ وقت دور نہیں۔
آپ دنیا کی بڑی ایجادات کا پروفائل نکال کر دیکھئے، آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، دنیا کی زیادہ تر ایجادات یونیورسٹیوں میں ہوئیں اور پروفیسروں نے کیں، آپ آکسفورڈ، کیمبرج اور ہارورڈ یونیورسٹیوں کی ایجادات کی فہرست نکالیں، آپ ان کے نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں کا پروفائل بھی نکالیے، آپ کو یہ یونیورسٹیاں اور ان کے پروفیسر انسانیت کے محسن نظر آئیں گے جب کہ ان کے مقابلے میں ہماری یونیورسٹیاں ڈگریاں دینے کے سوا کچھ نہیں کر رہیں، پاکستان میں 80سے زائد انجینئرنگ یونیورسٹیاں اور ٹیکنیکل ادارے ہیں لیکن ملک کسی شعبے کی کوئی ایک مشین پروڈیوس نہیں کر رہا، ہماری انجینئرنگ یونیورسٹیوں کی لیبارٹریوں کے آلات تک باہر سے آتے ہیں۔
ملک 20 سال سے لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے مگر ہماری کسی یونیورسٹی نے بجلی کی پیداوار پر کام کیا، کسی ادارے نے لوڈشیڈنگ کے لیے کوئی فارمولا نہیں بنایا، ملک کی مدد کرنا تو دور انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور یہ لوگ امپورٹیڈ جنریٹر استعمال کرتے ہیں، یونیورسٹیوں کے جنریٹر خراب ہو جائیں تو یہ لوگ "ری پیئرنگ"کے لیے مارکیٹ سے ان پڑھ مستری یونیورسٹی بلاتے ہیں، کیوں؟ آپ ملک میں کوئی ایسی یونیورسٹی بتائیے جس نے کم از کم اپنے لیے بجلی پیدا کر لی ہو، ہم تو سولر ٹیوب ویل بھی چین کا استعمال کررہے ہیں، ہمیں پھر ان یونیورسٹیوں کی کیا ضرورت ہے؟ ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔
ہم اب تک 60ہزار لاشیں اٹھا چکے ہیں لیکن کیا ہماری کسی یونیورسٹی نے ملک کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے کوئی فارمولہ دیا؟ ہمارے کسی ادارے نے ملک اور عام لوگوں کی سیفٹی کے لیے کوئی سسٹم بنایا؟ راولپنڈی میں 7جون کو پولیس نے دوبھائیوں ذیشان اور شکیل کو چیک پوسٹ پر نہ رکنے کے جرم پر گولی مار دی، ملک میں اس نوعیت کے بیسیوں واقعات ہو چکے ہیں، ہماری یونیورسٹیاں پولیس کو ایسی چیک پوسٹ ڈیزائن کر کے دے سکتی تھیں جس پر پہنچ کر ہر شخص رکنے پر مجبور ہو جائے اور پولیس دور بیٹھ کر گزرنے والوں کو مانیٹر کرتی رہے لیکن کیا ہماری کسی یونیورسٹی نے یہ" اینی شیٹو"لیا؟
آپ بتائیے ہمارے کسی تعلیمی ادارے نے کوئی سیفٹی بیلٹ بنائی ہو، ہم نے کوئی تعمیراتی مٹیریل بنایا ہو، ہم نے کوئی بوٹ پالش ہی ایجاد کرلی ہو یا ملک کے 94 میڈیکل کالجوں نے کسی معمولی مرض کی کوئی دوا ایجاد کر لی ہو؟ اگر نہیں تو پھر ہماری یونیورسٹیاں کرتی کیا ہیں؟ اس کا حساب کون لے گا؟ احسن اقبال منصوبہ بندی کے وزیر ہیں، میری ان سے درخواست ہے، آپ ملک کے بیس بڑے مسائل کی فہرست بنائیں اور یونیورسٹیوں کو ان مسائل کے حل تلاش کرنے کی ذمے داری سونپ دیں، دوسرا آپ یونیورسٹیوں کو ٹاسک دیں۔
یہ پانچ سال کے اندر اندر مالی لحاظ سے بھی خود کفیل ہوں اور یہ اپنے استعمال کے لیے بجلی، گیس اور پانی بھی پیدا کریں، تیسرا ہماری یونیورسٹیاں تعمیراتی لحاظ سے بد صورت ہیں، عمارتوں میں حس جمال نظر نہیں آتی، حکومت یونیورسٹیوں کو پابند کرے، یہ یونیورسٹی میں آرکی ٹیکچر ڈیپارٹمنٹس بنائیں، اس سے عمارتوں کی ری ڈیزائننگ کرائیں اور سول انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے ان کی تعمیر کروائیں، یونیورسٹیوں میں ہوٹل مینجمنٹ کے ڈیپارٹمنٹس بھی بنائے جائیں۔
یہ ڈیپارٹمنٹس یونیورسٹی کے کیفے ٹیریاز بھی چلائیں اور تمام ڈیپارٹمنٹس کے چپڑاسیوں کو چائے اور پانی سرو کرنے کا ڈھنگ بھی سکھائیں، یہ کتنے افسوس کی بات ہے، یونیورسٹی ہو اور اس میں بجلی ہو اور نہ ہی پانی، واش روم گندے ہوں، چائے کے برتن ٹوٹے ہوئے ہوں اورچپڑاسی فرش پر سلیپر گھسیٹ رہے ہوں، کیا یہ زیادتی نہیں، یہ ادارے قوم کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں، قوم ان اداروں کو پالنے کے لیے نہیں بنی، لیکن ملتان یونیورسٹی کا ماحول قدرے بہتر تھا، خواجہ علقمہ کام کر رہے ہیں اور جی بھر کر کام کرنے کا نقصان بھی اٹھا رہے ہیں۔