ملتان سے
سر پر گرم آسمان تھا اور پیروں کے نیچے تپتی، پگھلتی زمین تھی اور دائیں بائیں تاحد نظر ملتان بکھرا تھا، صوفیاء کا شہر، تاریخ کا عظیم قبرستان، ہسٹری کا نوحہ۔ ملتان صرف شہر نہیں، یہ وقت ہے، گیا، ٹھہرا اور آنے والا وقت۔
ملتان عبرت سرائے بھی ہے، ہندوستان میں اقتدار کے ہزاروں سورج طلوع ہوئے، یہ ملتان پہنچے، دلی کی طرف روانہ ہوئے، دلی فتح کیا، واپس ملتان آئے اور سینٹرل ایشیا واپس چلے گئے، آپ ہندوستان کی تاریخ کے کسی فاتح کا نام لیں، وہ زندگی میں ملتان ضرور آیا ہو گا، وہ ملتان میں ٹھہرا بھی ہو گا اور اس نے اس کی گرم ہوائوں میں سانس بھی لی ہوگی، یہ شہر محض شہر نہیں، یہ روغنی ملتانی ٹائلوں کی موجد گاہ بھی ہے۔
آپ ملتان سے افغانستان جائیں، افغانستان سے ایران جائیے، اصفہان، گیلان، تبریز اور مشہد سے گزریئے، آپ وہاں سے سمرقند اور بخارہ جائیے اور آپ وہاں سے ترکمانستان، آذربائیجان اور الماتے جائیے، آپ کو راستے کی ہر قدیم عمارت، ہر قدیم محل اور ہر قدیم مزار پر روغنی ٹائلیں ملیں گی، یہ ٹائلیں ملتانی ہاتھوں نے بنائیں اور یہ تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہوئیں وہاں پہنچیں، یہ ٹائلیں، ٹائلیں نہیں تھیں۔
یہ ملتان کا انتقام تھیں، ہر اس فاتح سے انتقام، ہر اس قوم سے انتقام جس نے ملتان فتح کرنے کی جسارت کی، جس نے اس شہر کو تاراج کرنے کا منصوبہ بنایا، ملتان کی یہ سبز ٹائلیں جنھیں آپ دور سے دیکھیں تو یہ نیلی دکھائی دیتی ہیں، یہ تاریخ سازوں کے نام پیغام ہیں، آپ ملتان کو فتح کر سکتے ہیں لیکن آپ ملتانی ہاتھوں کے اس فن کو کیسے فتح کریں گے، یہ آپ کا آپ کی قبروں تک پیچھا کرے گا، ملتان شہر نہیں تاریخ ہے۔
پورے ہندوستان میں کوئی دوسراایسا شہر نہیں جس میں اتنے اولیاء کرام مدفون ہوں اور جس میں اتنے مزارات ہوں، ملتان کے ہر محلے میں مزار ہیں اور ان مزارات پر دیے بھی جلتے ہیں، یہ وہ شہر ہے جس میں پراہلاد جی کے مندر میں پہلی ہولی کھیلی گئی، پراہلاد بچہ تھا، اس نے اپنی پھوپھی ہولکا کے ساتھ اپنے والد راجہ پرناکشپ کی خدائی کو چیلنج کیا، راجہ نے بہن اور بیٹے کو آگ میں جلا دیا، ہولکا جل کر مر گئی لیکن پراہلاد بچ گیا، ہندو پوری دنیا میں ہر سال ہولکا کی اس قربانی کی یاد مناتے ہیں، یہ یاد ہولی کہلاتی ہے۔
ہولی ملتان سے شروع ہوئی، پراہلاد کا مندر 1992ء تک قائم رہا، ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں نے 1992ء میں ایودھیا کی بابری مسجد گرا دی، ملتان کے مسلمانوں نے بدلے میں پراہلاد کا مندر توڑ دیا، مندر ٹوٹ گیا لیکن بنیادیں آج بھی حضرت بہائو الدین ذکریاؒ کے پہلو میں موجود ہیں، یہ وہ شہر تھا جس پر یلغار کے دوران سکندر اعظم کو زہریلا تیر لگا، وہ زخمی ہوا اور راستے میں انتقال کر گیا۔
شہر میں آج بھی وہ برج موجود ہے جہاں سکندر اعظم گھائل ہوا، شہر میں حضرت شاہ شمسںؒ کا مزار بھی موجود ہے، یہ شاہ شمس کون ہیں؟ کیا یہ وہ شمس تبریز ہیں جنہوں نے مولانا روم کو محبت کے 40 اصول سکھائے؟ ، اگر یہ وہ ہیں تو پھروہ کون تھے جنھیں مولانا روم کے صاحبزادوں نے قونیہ میں قتل کر کے کنوئیں میں پھینک دیا تھا؟
کیا یہ حضرت شاہ شمس سبزواری ہیں؟ وہ شاہ شمس سبزواری جو 1201ء میں ملتان آئے اور 1276ء میں ایک سو گیارہ سال کی عمر میں وصال پایا، ملتان میں دفن ہوئے اور آپ کا مزار ہزار سال سے ملتان کے لوگوں پر سایہ فگاں ہے، یہ گمان زیادہ قرین القیاس ہے، یہ شہر حضرت بہائو الدین ذکریا ملتانی ؒ کا شہر ہے، آپ دنیاوی اور دینی دونوں قسم کی دولت سے مالا مال تھے، تاتاریوں نے ملتان پر حملہ کیا تو آپ نے اہل ملتان کی جان بخشی کے لیے تاتاریوں کو ایک لاکھ دینار ادا کیے، یہ تمام لوگ عظیم تھے، یہ تمام ہستیاں محترم ہیں لیکن یہ شہر بہرحال حضرت شاہ رکن عالم ؒکا شہر ہے، آپ کا کوئی بدل نہیں تھا۔
حضرت شاہ رکن عالم ؒ حضرت بہائوالدین ذکریاؒ کے پوتے تھے، آپ "رحم مادر" میں تھے تو حضرت بہائوالدین ذکریا ؒاٹھ کر اپنی بہو کا استقبال کرتے تھے، بچپن کرامات سے بھرا ہوا تھا، شیرخوارگی کے دور میں بھی اذان کے وقت ماں کا دودھ نہیں پیتے تھے، ماں نے ہمیشہ آپ کو باوضو ہو کر دودھ پلایا، 3 جنوری 1335ء کو انتقال ہوا تو دادا حضرت بہائوالدین ذکریاؒ کے قدموں میں دفن کر دیا گیا، آپ کی تدفین کے چند دن بعد حضرت بہائوالدین ذکریاؒ شیخ صدر الدین محمد کے خواب میں آئے اور فرمایا " آپ نے قطب الاقطاب کو میری پائینتی میں دفن کر دیا، مجھے سخت تکلیف ہو رہی ہے۔
آپ انھیں دوسرے مقبرے میں دفن کریں تا کہ میں آرام سے رہ سکوں، حکم واضح تھا، ملتان کے اولیاء نے دائیں بائیں دیکھا، سامنے غیاث الدین تغلق کا مقبرہ تھا، یہ مقبرہ تعمیر اور عقیدت کی عظیم داستان تھا، غیاث الدین تغلق دیپال پور کا صوبیدار تھا، دیپالپور ہندوستان کی بڑی چھائونی تھی، غیاث الدین تغلق نے زندگی میں اپنا مقبرہ بنوایا، مقبرے کی تعمیر کے دوران تغلق نے ایک ایک پیسہ اپنی گرہ سے لگایا اور یہ رقم سو فیصد حلال تھی، یہ ہندوستان کی خوبصورت ترین عمارت تھی، یہ مشرق میں 260 فٹ تک پھیلی تھی، مغرب میں 213 فٹ تھی، شمال میں 283 فٹ تھی اور جنوب میں اس کی چوڑائی 283 فٹ تھی، یہ ہشت پہلو عمارت قطر میں 49 فٹ تھی، دیواریں عمودی تھیں، زمین سے اونچائی 160 فٹ تھی، عمارت تین منزلہ تھی۔
اوپر وسیع گنبد تھا، یہ گنبد ستونوں کے بغیر بنایاگیا، دیواروں میں لکڑی کے شہتیر لگائے گئے اور شہتیروں کے درمیان پتھروں کی چنائی کی گئی، مقبرے پر ملتان کی روغنی ٹائلوں کا کام تھا، آیات بھی کندا کی گئیں اور پچی کاری کا کام بھی ہوا، یہ مقبرہ فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے، کاش میرے آرکیٹیکٹ دوست اعجاز قادری ملتان جائیں اور یہ تعمیراتی معجزہ دیکھیں، غیاث الدین تغلق اس مقبرے میں دفن ہونا چاہتا تھا لیکن دلی کے تخت پر قطب الدین مبارک شاہ نے قبضہ کر لیا، یہ ہندوستان کی تاریخ کا مکروہ ترین کردار تھا، ہم جنس پرست تھا، ہندو لڑکے سے روزانہ شادی کرتا تھا، ایک دن دلہن بنتا تھا اور دوسرے دن دلہا، عمائدین سلطنت روز تحفے تحائف لے کر شادی میں شریک ہوتے تھے۔
معشوق لڑکے نے ایک دن اسے قتل کر دیا اور خسرو پرویز کے نام سے اپنی حکومت کا اعلان کر دیا، اس نے نعوذ باللہ قرآن مجید کے تمام نسخے جمع کیے، ان کی کرسیاں بنوائیں اور درباریوں کو ان پر بیٹھنے کا حکم دے دیا، وہ ہندوستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا، پورے ملک میں غیاث الدین تغلق واحد شخص تھا جو مسلمانوں کو اس ظالم شخص سے رہائی دلا سکتا تھا، دلی کے مسلمانوں نے تغلق سے اپیل کی، تغلق دلی پہنچا، مسلمانوں کو ظالموں سے نجات دلائی، واپس آنے لگا تو دلی کے لوگ قدموں میں گر گئے۔
وہ مجبور ہو گیا اور یوں تغلق حکومت کی بنیاد پڑ گئی، وہ پوری زندگی لڑتا رہا یہاں تک کہ تغلق آباد میں کھانا کھا رہا تھا، محل کی چھت گری اور وہ چھت کے نیچے دفن ہو گیا، غیاث الدین تغلق کی میت کو ملتان پہنچانا مشکل تھا چنانچہ اسے دلی میں دفن کر دیا گیا، ملتان کا مقبرہ خالی رہ گیا، آپ حسن اتفاق ملاحظہ کیجیے، غیاث الدین تغلق کا صاحبزادہ اور ہندوستان کا بادشاہ فیروز شاہ تغلق عین اس دن سندھ سے واپس دلی جا رہا تھا جب وہ خواب دیکھا گیا، وہ ملتان میں رکا، ملتان کے عمائدین نے اسے خواب سنایا، وہ اٹھا، عمائدین کے ساتھ قبرکشائی کی۔
حضرت شاہ رکن عالمؒ کے جسد مبارک کو کندھا دے کر والد کے خالی مقبرے تک لایا اور اپنے ہاتھوں سے ان کی تدفین کر دی، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، یہ مقبرہ مقبرہ نہیں رہا، یہ مزار بن گیا، یہ مزار دنیا بھر میں ملتان کی پہچان بھی ہے، دنیا بھر کی کتابوں میں جہاں بھی ملتان کا ذکر آتا ہے وہاں ساتھ ہی حضرت شاہ رکن عالمؒ کے مزار کی تصویر شایع ہوتی ہے اور میں ہفتہ 6 جون کے دن اس مزار کے سامنے کھڑا تھا جسے غیاث الدین تغلق نے اپنے لیے بنوایا لیکن اسے یہاں دفن ہونے کی اجازت نہ ملی اور ہندوستان کی عظیم عمارت حضرت شاہ رکن عالمؒ کے نام لکھ دی گئی۔
سرپر گرم آسمان تھا اور پیروں کے نیچے تپتی زمین اور دائیں بائیں دور تک ملتان بکھرا تھا، ہسٹری کا تڑپتا مچلتا نوحہ۔ عمارت کے اندر سفید رنگ کی درجنوں قبریں تھیں، قبروں کے درمیان چبوترا تھا اور چبوترے پر حضرت شاہ رکن عالمؒ محو استراحت تھے، میں نے سلام کیا، فاتحہ پڑھی اور مزار کے دائیں بائیں نظریں دوڑائیں، حضرت شاہ رکن عالمؒ کے دائیں بائیں درجنوں قبریں ہیں۔
ان قبروں میں کون لوگ مدفون ہیں؟ کوئی نہیں جانتا، یہ لوگ یقینا اپنے زمانے کے بڑے لوگ ہوں گے لیکن انسان جب خاک میں اترتا ہے تو مٹی وجود کے ساتھ ساتھ اس کے عہدے، نام اور دولت بھی نگل جاتی ہے، اللہ تعالیٰ موت کے بعد صرف اپنے چاہنے والوں کو شناخت عنایت کرتا ہے یا پھر ان لوگوں پر مہربانی فرماتا ہے جو اس کی مخلوق کے لیے مفید ہوتے ہیں، شاہ رکن عالمؒ اللہ تعالیٰ کو پسند تھے لہٰذا انھیں اس مقبرے میں جگہ عنایت ہو گئی جو بادشاہ نے اپنے لیے تعمیر کرایا تھا، آپ کا نام آج بھی سلامت ہے۔
لوگ آج بھی عقیدت کے ساتھ گردن جھکا کر آپ کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں جب کہ غیاث الدین تغلق کا نام صرف کتابوں میں رہ گیا، وہ صرف قصہ بن کر رہ گیا، یہ عبرت کی نشانیاں ہیں اور انسان ان نشانیوں سے کچھ سیکھنا چاہے تو یہ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے لیکن انسان بھی اللہ تعالیٰ کی کتنی عجیب مخلوق ہے، یہ اپنے ہاتھوں سے دوسرے انسانو ں کو دفن کرتا ہے مگر یہ اس کے باوجود خود کو ناگزیر سمجھتا ہے، کاش انسان، انسان بن جائے۔
مزار کی پچھلی دیوار پر ایک پتھر نصب تھا، روایت ہے وہ مرد جس کی داڑھی مونچھ نہیں آتی وہ اگر اس پتھر پر اپنا منہ رگڑے تو اس کے چہرے پر بال اگ آتے ہیں، لوگوں نے منہ رگڑ رگڑ کر پتھر اور اس کے دائیں بائیں کی جگہ سیاہ کر دی تھی، ہماری روایتیں بھی کیا روایتیں ہیں، مزار کے سامنے "دم دما، تھا، یہ تاریخ کا وہ مقام ہے جہاں تاریخ کے ہزاروں قدم نقش ہیں، دم دما کی چھت پر دھوپ اور ہوا دونوں تیز تھیں۔