میں نادم ہوں
میں ایک سادہ بلکہ احمق انسان ہوں، میں اکثر اکیلا بیٹھ کر اپنی حماقتیں گنتا ہوں اور پھر دیر تک کف افسوس ملتا رہتا ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ نے ایم اے کے بعد ایک شاندار موقع دیا تھا، میں اگر اس موقع سے فائدہ اٹھا لیتا تو آج میری زندگی میں فضائے بدر بھی ہوتی، میں توکل کی چوٹی پر بھی ہوتا، میں اللہ کی نصرت سے بھی جی بھر کر سیراب ہو چکا ہوتا، میں دنیاداری اور دنیا داری کی گمراہی سے بھی بچ گیا ہوتا، میں کامل ولی بھی ہوتا، میں مفسر قرآن بھی ہوتا، میں شیخ الحدیث بھی ہوتا اور میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا گواہ بھی ہوتا، میں آج اس غلطی، اس کوتاہی پر نادم بھی ہوں اور شرمندہ بھی۔
مجھے 1992ء میں سی ایس ایس کا موقع ملا تھا، میں اگر اس وقت یہ موقع ضایع نہ کرتا تو میں آج اس مملکت خداداد میں مذہب پر ٹھیک ٹھاک اتھارٹی ہوتا، میں ملک کے ہر چھوٹے بڑے ممولے کو مالش کر کے شاہین سے لڑاتا، وہ شاہین کا لنچ بن جاتا تو میں اسے شہید جمہوریت قرار دیتا اور پھر شاہین کی سیکریٹری شپ قبول کر لیتا، میں اس "ڈی ایم جی" کا حصہ بنتا جس کی بنیاد انگریز نے ہندوستان کے آخری مسلمان فرماں روا بہادر شاہ ظفر کو رنگون بھجوانے کے بعد رکھی تھی، میں اس سروس گروپ کا حصہ بنتا جو قیام پاکستان سے قبل اور قیام پاکستان کے بعد صرف ان علماء کو مدارس قائم کرنے کی اجازت دیتا تھا جو انگریز سرکار کی وفاداری کا تحریری حلف نامہ جمع کرواتے تھے۔
میں اس سروس کا حصہ بنتا جس نے پہلے راجپال کو توہین رسالت پر مبنی کتاب چھاپنے کی اجازت دی، پھر غازی علم دین شہید کی گرفتاری کا حکم جاری کیا، پھر ان کا پولیس ریمانڈ دیا اور پھر آخر میں انھیں سینٹرل جیل میانوالی میں پھانسی چڑھا دیا، آپ غازی علم دین شہید کا ڈیتھ وارنٹ اور ڈیتھ سرٹیفکیٹ نکال کر دیکھ لیجیے، آپ کو اپنی سول سروس کے "توکل" کا مکمل ادراک ہو جائے گا، مجھے چاہیے تھا میں اس سروس اکیڈمی میں تربیت پاتا جس کی بنیاد ان گوروں نے رکھی تھی جو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہر باریش شخص کو پکڑتے تھے۔
اس کے گلے میں پھندا ڈالتے تھے اور اسے قریب ترین درخت کے ساتھ لٹکا دیتے تھے، میں انگریز آقائوں کی اکیڈمی میں چھری کانٹے کا استعمال بھی سیکھتا، پتلون پہننا، ٹائی لگانا اور سگار پینا بھی سیکھتا اور میں وہاں سے "باس اور حکومت سب سے بڑی توکل ہوتی ہے، آپ کبھی اس کو انکار نہ کریں، جیسا سنہری اصول بھی سیکھتا، میں پھر اے سی بنتا، میں ڈی سی بنتا اور میں فوجی حکومتوں کو مطمئن کرنے کے لیے نہتے لوگوں پر گولی بھی چلواتا، میں کاغذوں پر بنی سڑکوں، پلوں اور ڈیموں کے ٹھیکے بھی جاری کرتا، میں صبح سویرے فوجی جرنیلوں، سیکریٹریوں، ایم این ایز اور وزراء کو سلام کرنے ان کے گھر بھی پہنچ جاتا، میں اچھی پوسٹنگز کے لیے سفارشیں بھی کراتا، اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کو پولیس اور محکمہ مال میں بھرتی بھی کراتا، میں دس دس کنال کے ان گھروں میں بھی رہتا جو انگریز آقائوں نے اپنی انائوں کی تسکین کے لیے بنوائے تھے۔
میں سرکاری گاڑیاں، سرکاری ٹیلی فون، سرکاری بجلی، سرکاری گیس اور سرکاری ملازموں سے بھی لطف اندوز ہوتا، میں سرکاری خرچ پر ملک ملک بھی گھومتا، میں ٹی اے ڈی اے سے بھی لطف اندوز ہوتا، میں غلام ملکوں کے غلام ابن غلام عوام کو مزید غلام بنانے کا فن سیکھنے یورپ اور امریکا بھی جاتا، میں پروموشن کے لیے سارا سرکاری اور غیر سرکاری زور بھی لگاتا، میں جونیئر خواتین افسروں کو متاثر کرنے کے لیے پامسٹری بھی سیکھ لیتا، علم نجوم کی تین کتابیں بھی پڑھ لیتا اور عملیات بھی شروع کر لیتا، میں اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں پڑھاتا، انھیں اسکالرشپ دلا کر یورپ اور امریکا بھجواتا، بچوں کی ملک سے باہر شادیاں کرتا اور انھیں توکل کے زور پر یورپ، امریکا، کینیڈا یا آسٹریلیا میں سیٹل بھی کراتا۔
میں جب یہ سب کچھ کر لیتا تو پھر مجھے چالیس سال کی عمر میں اچانک معلوم ہوتا میرے اندر وقت کا عظیم شاعر، دانشور، ڈرامہ نگار اور ادیب چھپا بیٹھا ہے، میں سرکاری اثر و رسوخ کے ذریعے اس ادیب کو باہر نکالتا، اسے پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر فروخت کرتا، پھر پبلشرز کے ہاتھوں بیچتا، پھر اسے اخبارات کے توکل میں جھونک دیتا اور آخر میں جب پرائیویٹ نیوز چینلز آتے تو میں اپنے اندر چھپے بیسویں گریڈ کے دانشور کو ٹیلی ویژن کی "فاقہ مستی" کے سامنے بھی رکھ دیتا اور میں جب اکیسویں گریڈ میں پہنچ جاتا اور مجھے یقین ہو جاتا میں اب 22 ویں گریڈ میں نہیں جا سکوں گا۔
میری ریٹائرمنٹ اب لازم ہے تو پھر مجھے اچانک الہام ہوتا میرے اندر وقت کا ایک عظیم صوفی چھپا بیٹھا ہے، میں پیدائشی ولی بھی ہوں اور میں شیخ الحدیث بھی ہوں، میں اس الہام کے بعد عوام کو اقبال کے شاہین کے بارے میں مطلع کرتا، میں انھیں مولانا روم کی دانش سے متعارف کراتا اور میں ملت کو انگریزوں کی سازشوں، امریکیوں کی اسلام دشمنیوں اور یہود، ہنود اور نصاریٰ کے مسلم کش منصوبوں کی اطلاع بھی دیتا، میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا جھنڈا بھی اٹھا لیتا اور قوم کو یہ بتاتا "آپ کان لگا کر سنو، آپ کو گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں گی، پاکستان کو عظیم اسلامی ریاست کا دارالحکومت بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے مگر اس سے قبل سروں کی تیار فصل کاٹی جائے گی۔
میں داڑھیوں سے خون ٹپکتا اور منافقوں کو سولیوں پر چڑھتا دیکھ رہا ہوں " افسوس میں نے سی ایس پی آفیسر بننے کا موقع ضائع کر دیا ورنہ میں ایک ہاتھ سے استعماری نظام سے پوری تنخواہ وصول کرتا، گریجویٹی لیتا، تنخواہ کے اس حصے کا پورا سود وصول کرتا جو میری 35 سال کی سروس کے دوران کٹتا رہا، میں سرکاری پلاٹ لیتا، پنشن لیتا اور کانٹریکٹ جاب کی کوشش کرتا جب کہ میں دوسرے ہاتھ میں انقلاب کا جھنڈا اٹھا لیتا، میں بیک وقت اس استعماری نظام کا بینی فیشری بھی ہوتا اور میں اسے غلامی کا جدید نظام بھی قرار دیتا، میں زندگی بھر اپنے کسی بچے کو کسی مدرسے کے قریب سے نہ گزرنے دیتا، میں اپنے کسی بچے کو پاکستان بھی نہ رہنے دیتا مگر میں پوری قوم سے اپیل کرتا آپ خدا کے لیے اپنے بچوں کو مذہبی تعلیم دلائیں۔
میں خود پوری زندگی دنیاداری کا کوئی موقع ضایع نہ کرتا لیکن قوم کو بتاتا "یہ دنیا عارضی ہے، یہ فانی ہے، دنیا پرستی ترک کر دو، اللہ تعالیٰ کے سچے پیغام کی طرف لوٹ آئو، مادیت چھوڑ و، اللہ سے لو لگائو اور اولیاء کرام کی تعلیمات پر عمل کرو" میں خود ہوانا کے سگار پیتا، پائپ میں کیوبا کا تمباکو ڈال کر خوشبو سے لطف لیتا، میں فرانسیسی خوشبوئیں استعمال کرتا، اطالوی کپڑے کے سوٹ سلواتا، جوتے لندن سے خریدتا لیکن قوم کو فضائے بدر پیدا کرنے کی تلقین کرتا، یوں میں دنیا میں بھی سرفراز ہو جاتا اور آخرت بھی میری مٹھی میں رہتی لیکن میں نے اپنی حماقت، اپنی سادگی، اپنی بے وقوفی سے یہ موقع ضایع کر دیا۔
میں سی ایس ایس نہ کر سکا چنانچہ میں صوفی بن سکا، ولی ہو سکا، شیخ الحدیث کے درجے تک پہنچ سکا اور نہ ہی میں عظیم دانشور کا ٹائٹل پا سکا، میں صرف قلم مزدور اور کتابی کیڑا بن کر رہ گیا، میں اپنی اس کوتاہی، اس غلطی پر نادم ہوں، مجھے اپنے دور جاہلیت کی اس حماقت پر شرمندگی بھی ہے، میں قوم سے اس غلطی پر معافی کا خواستگار ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے اگر دوسرا موقع دیا تو میں وعدہ کرتا ہوں میں اپنی اس غلطی کی تلافی کروں گا، میں ملک کا عظیم صوفی بیوروکریٹ بنوں گا، ایسا صوفی بیوروکریٹ جو دنیاداروں کو ٹھیکے دے کر ان کے لیے وسیلہ رزق بھی بنے گا، الیکشنوں میں دھاندلی کرا کر گناہ گار سیاستدانوں کو اصلاح کا موقع بھی دے گا۔
ملک میں فحاشی، عریانی اور افراتفری پھیلانے والے میڈیا کی سمت ٹھیک کرنے کے لیے ڈرامے بھی لکھے گا، روحانی سیاسی ٹاک شو بھی کرے گا، صوفیانہ کالم بھی تحریر کرے گا، الہامی شاعری بھی کرے گا، سگار اور پائپ بنانے والے غرباء کی مالی مدد کے لیے تمباکو بھی پھونکے گا، جو یورپ اور امریکا کو اسلام سے روشناس کرانے کے لیے اپنے بچے بھی وہاں سیٹل کرائے گا اور جو سرکار کے استعماری نظام کی اصلاح کے لیے پنشن بھی لے گا، پلاٹ بھی لے گا، غیر مسلم خواتین کے گناہ دھونے کے لیے ان پر روحانی پھونکیں بھی بھی مارے گا اور ریٹائرمنٹ کے بعد قوم میں فضائے بدر بھی پیدا کرے گا۔
نوٹ: اوریا مقبول جان میرے دوست ہیں، یہ پاکستان کے پڑھے لکھے، ایماندار اور صاحب ذوق بیوروکریٹ ہیں، یہ وسیع المطالعہ بھی ہیں، انھوں نے دنیا بھی دیکھی اور یہ ٹیلی ویژن، اخبارات اور رسائل سے بھی وابستہ ہیں، میں ہمیشہ سے ان کا مداح ہوں، اوریا صاحب نے ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی کتاب "دو اسلام" پر میری اصلاح فرمائی، انھوں نے "تفہیم الاسلام، کے تین خطوط کا حوالہ دیا، یہ خطوط ڈاکٹر برق نے مولانا مسعود احمد کو لکھے تھے۔
میں اوریا صاحب جیسے محقق اور صاحب علم کو رد نہیں کر سکتا، ہو سکتا ہے اوریا صاحب کا دعویٰ درست ہو اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق واقعی اپنی ابتدائی تحقیق اور کتابوں پر نادم بھی ہوں اور وہ انھیں دور جہالت کی پیداوار بھی سمجھتے ہوں، میں صرف طالبعلم ہوں، میں اتھارٹی نہیں ہوں چنانچہ میں اوریا صاحب کی تحقیق اور اتھارٹی کو تسلیم کر لیتا ہوں تاہم مجھے ڈاکٹر برق کی روح سے ایک شکوہ رہے گا "آپ اپنی کتابوں پر نادم بھی تھے، آپ انھیں دور جہالت کی پیداوار بھی سمجھتے تھے لیکن ساتھ ہی آپ کی کتابیں بھی چھپ رہی تھیں، کیوں؟ آپ کی زندگی میں آپ کی کتاب آخری بار 1981ء میں شائع ہوئی۔
آپ نے اشاعت سے قبل اس کی اصلاح بھی کی، کیوں جناب؟ اور آپ انگریزی، فارسی، عربی اور اردو چار زبانوں کے ماہر بھی تھے لیکن آپ کو ندامت، معذرت اور اپنے کام کو دور جہالت کی پیداوار قرار دینے کے لیے چاروں زبانوں سے مناسب الفاظ نہ مل سکے اور یہ کام بالآخر ہمارے دوست اوریا مقبول جان کو2015ء میں سرانجام دینا پڑا کیوں؟" میں اوریا صاحب کا ممنون ہوں، میں یہ بحث یہاں ختم کر رہا ہوں، عوام دعا، دعا اور صرف دعا یا علم، عمل اور پھر دعا کا فیصلہ خود کریں۔