میں جنرل بنوں گا
گلی لوگوں سے بھری تھی، ایک کونے سے دوسرے کونے تک لوگ ہی لوگ تھے، خواتین اور بزرگوں کی تعداد زیادہ تھی جب کہ بچے، بچیاں اور جوان مرد بھی موجود تھے، یہ مختلف گھروں کی دہلیزوں، کیاریوں، گملوں اور فٹ پاتھ کے کناروں پر بیٹھے تھے، میں اتنے لوگ دیکھ کر حیران رہ گیا، میں ان کے درمیان سے گزرتا ہوا گیٹ پر پہنچااور گھر کے اندر داخل ہوگیا، صحن میں بھی لوگوں کی قطار تھی، میرے دوست قطار کے آخر میں کھڑے ہو کر کھانا تقسیم کر رہے تھے۔
لوگ آتے تھے اور یہ کھانے کے پیکٹ انھیں تھما دیتے تھے، یہ لوگ گھروں میں موجود افراد کی تعداد بھی بتاتے تھے اور یہ انھیں ان کی تعداد کے برابر پیکٹ دے دیتے تھے، میں پہنچا تو میرے دوست نے ہاتھ صاف کیے، کھانا دینے کا کام اپنے بچوں اور ملازموں کے حوالے کیا اور مجھے لے کر ڈرائنگ روم میں چلا گیا، میری آنکھوں میں آنسو تھے، میرے دوست کی آنکھیں بھی گیلی ہو رہی تھیں، ہم ٹھنڈے ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، میں نے ان سے پوچھا "آپ یہ کب سے کر رہے ہیں" وہ سر جھکا کر بولے "یہ میرا چوتھا رمضان ہے۔
آج سے چار سال پہلے ہماری گلی کے ایک وکیل صاحب غریب لوگوں کو افطاری دیتے تھے، رمضان میں سیکڑوں لوگ آتے تھے، میں روز دیکھتا تھا، وہ انتقال کر گئے اور ان کا خاندان کراچی شفٹ ہو گیا، ضرورت مند لوگ یہ نہیں جانتے تھے، رمضان آیا تو لوگ افطاری کے لیے آنے لگے، نئے مالکان کنجوس تھے، وہ گیٹ نہیں کھولتے تھے، میں نے لوگوں کو مایوسی کے عالم میں واپس جاتے دیکھا تو میں نے اپنے گھر کا دروازہ کھول دیا، ہمارے گھر میں اس دن جو تھامیں نے وہ لوگوں میں تقسیم کر دیا، میں نے اگلے دن افطاری تقسیم کرنا شروع کر دی، نیا کک رکھا، راشن جمع کیا اور یہ سلسلہ شروع کر دیا، افطاری کھانے میں تبدیل ہوئی اور لوگ بڑھتے چلے گئے، میں کیٹرنگ کی مدد لینے پر مجبور ہو گیا، ہم روزانہ سو دیگیں تیار کرانے لگے، کھانا پیک کرنے کا سامان بھی خریدا اور ہم لوگوں میں افطاری اور کھانا بھی تقسیم کرنے لگے، ہمیں چند دن بعد پتہ چلا یہ لوگ خالی پیٹ روزہ کھتے ہیں۔
ہم پریشان ہو گئے چنانچہ ہم نے سحری بھی شروع کرا دی، ہمیں پھر پتہ چلا یہ لوگ اکیلے نہیں ہیں، یہ خاندان ہیں، خواتین، بزرگ اور بچے گھروں سے نہیں آ سکتے، ہم نے ان لوگوں کو کھانا گھر لے جانے کی اجازت بھی دے دی، عید آئی تو پتہ چلا یہ لوگ عید کے دن کھانا نہیں کھا سکیں گے، ہم نے خشک راشن بھی تقسیم کرنا شروع کر دیا، وہ رمضان گزر گیا، ہم نے اگلے رمضان سے پہلے راشن کا ذخیرہ کر لیا اور سحری اور افطاری شروع کرا دی، لوگوں میں اضافہ ہو گیا، اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دیتا گیا اور ہم یہ سلسلہ بڑھاتے چلے گئے، میں اب اس خدمت میں اکیلا نہیں ہوں، میرا پورا خاندان کارخیر میں شامل ہو چکا ہے، میرے بچے، میرے بھائی، میری بہنیں اور میرے دوست یہ سب خدمت کر رہے ہیں، ہم کھانا بھی پکوا کر تقسیم کرتے ہیں، خشک راشن بھی دیتے ہیں اور ضرورت مند خاندانوں کی رقم سے بھی مدد کرتے ہیں، وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے پوچھا "آپ نے اس خدمت کے دوران کیا سیکھا" وہ مسکرا کر بولے "میری عمر ستر سال ہو چکی ہے، میں چار سال سے یہ خدمت کر رہا ہوں، میں نے ان چار برسوں میں چار سبق سیکھے اور یہ چاروں حیران کن ہیں" وہ خاموش ہو گئے، میں نے پوچھا "مثلاً" وہ بولے "مثلاً ہمارے ملک میں غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ہمارے پاس پہلے سال صرف کچی آبادی کے بے روزگار، بیمار اور معذور لوگ آتے تھے، دوسرے سال ان میں مزدوروں، مستریوں، مکینکس، چپڑاسیوں، چوکیداروں اور سینیٹری ورکرز کا اضافہ ہو گیا۔
یہ لوگ چار بجے تک کام کرتے تھے اور ساڑھے چار بجے ہمارے گیٹ کے سامنے بیٹھ جاتے تھے، ہم ساڑھے پانچ بجے سے سات بجے تک کھانا تقسیم کرتے تھے، یہ لوگ کھانا لے کر گھر چلے جاتے تھے، تیسرے سال ان میں کلرکس، بینکوں کے چھوٹے ملازمین، ٹیکسی ڈرائیور، رکشے والے، چھوٹے دکاندار، گھریلو ڈرائیورز اور پراپرٹی ایجنٹس بھی شامل ہو گئے، ہمیں اب وائیٹ کالرز بھی قطاروں میں کھڑے نظر آتے تھے اور اس سال سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
آپ کو میرے گھر کے باہر بے شمار موٹر سائیکلیں اور چھوٹی گاڑیاں نظر آئیں گی، لوگ اب کھانا لینے کے لیے موٹر سائیکلوں اور چھوٹی گاڑیوں پر بھی آتے ہیں، موٹر سائیکل اور چھوٹی گاڑیوں کے مالک مڈل کلاس سمجھے جاتے تھے لیکن میں جب ان لوگوں کو کھانے کی لائین میں دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، یہ لوگ ثابت کر رہے ہیں ہمارے ملک میں اب مڈل کلاس بھی دو وقت کا کھانا افورڈ نہیں کر پاتی، یہ لوگ بھی سحری اور افطاری کا بوجھ نہیں اٹھا پاتے، میں یہ دیکھتا ہوں تو میری روح کانپ جاتی ہے، مجھے محسوس ہوتا ہے یہ لوگ چند سال بعد کیا کریں گے؟ یہ بھوک سے مجبور ہو کر لوگوں کے گھروں اور گاڑیوں پر حملے کریں گے، آپ یقین کریں ہمارا ملک اس وقت انارکی کے دہانے پر کھڑا ہے، لوگ لقمے کو ترس رہے ہیں اور یہ بات انتہائی خطرناک بھی ہے اور الارمنگ بھی۔ دوسرا سبق، میرے بچپن اور میری جوانی میں لوگ بھوک سے مر جاتے تھے لیکن یہ دوسروں سے کھانا لے کر نہیں کھاتے تھے۔
لوگ شادی بیاہ کے فنکشنز میں بھی جب بارات کو کھانا دیتے تھے تولڑکی والے مہمان لقمہ تک نہیں توڑتے تھے، لوگ انتقال کا کھانا بھی نہیں کھاتے تھے، لوگ کھانوں کے اوقات میں لوگوں کے گھروں میں بھی نہیں جاتے تھے اور اگر کوئی شخص چلا جاتا تھا تو لوگ اسے "چول" کہتے تھے، ہمارے دیہات اور قصبوں میں صرف کمیوں کو گھر لے جانے کے لیے کھانا دیا جاتا تھا، باعزت لوگ کھانے کا برتن لے کر گلی میں نہیں نکلتے تھے، یہ دودھ اور دہی بھی چھپا کر خریدتے تھے اور چھپا کر گھر لاتے تھے۔
لوگ گھر کا سودا بھی خود نہیں لاتے تھے، نوکر لاتے تھے اور وہ بھی یہ سامان تھیلوں اور بوریوں میں بند کر کے لاتے تھے، گلی محلے کا جو شخص سودے کی نمائش کرتا تھا یا سائیکل یا موٹر سائیکل پر سودا لاتا تھا تو لوگ اسے "شودا" کہتے تھے لیکن آپ آج غربت کی انتہا دیکھئے لوگوں کی عزت نفس تک ختم ہو چکی ہے، معزز لوگوں کی بہو بیٹیاں کھانے کے لیے لوگوں کے دروازوں پر بیٹھ جاتی ہیں اور سفید کالر لوگ کھانے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ اپنی شناخت تک کی پرواہ نہیں کرتے، یہ غربت، بے بسی اور لاچاری کی انتہا ہے۔ تیسرا سبق، میں نے جب یہ خدمت شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے میرے اور میرے خاندان کے لیے رحمتوں کے دروازے کھول دیے، ہمارے کاروبار میں بے شمار ایشوز ہوتے تھے، لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات بھی خراب رہتے تھے، ہم کورٹ کچہریوں اور بیماریوں کا شکار بھی تھے اور ہماری ٹینشن اور پریشانیاں بھی ختم نہیں ہوتی تھیں لیکن ہم نے جب یہ خدمت شروع کی تو اللہ تعالیٰ نے ہم پر مہربانیوں کی بارش کر دی، ہماری پریشانیاں بھی ختم ہو گئیں، ہم بیماریوں اور کوٹ کچہریوں کے ایشوز سے بھی نکل گئے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا رزق بھی وسیع کر دیا، آپ یقین کریں یہ دنیا ہمارے لیے جنت بن گئی، میرا ارادہ ہے میں اپنا سب کچھ لوگوں کے لیے وقف کر کے دنیا سے جاؤں گا اور چوتھا اور آخری سبق، حکومت کو مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔
مہنگائی اور غربت اب لوگوں کے چہروں پر دکھائی دے رہی ہے، یہ زندگی کا بوجھ نہیں اٹھا پا رہے، یہ کریش ہو رہے ہیں، حکومت نے اگر اب بھی کنٹرول نہ کیا تو یہ ملک ختم ہو جائے گا، لوگ لوگوں کو کھا جائیں گے" وہ خاموش ہو گئے، میں اٹھ کر جانے لگا تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بولے، آپ لوگوں سے اپیل کریں یہ اگر دو روٹیاں بنا رہے ہیں تو یہ ایک روٹی اﷲ کے نام پر کسی نہ کسی ضرورت مند کو دے دیں، ہم سب جب تک اکٹھے نہیں ہوں گے ہم عوام کو اس وقت تک غربت، پسماندگی اور بیماری سے نہیں نکال سکیں گے، میں باہر آ گیا، گیٹ کے باہر واقعی موٹر سائیکلوں اور چھوٹی گاڑیوں کا سیلاب تھا، لوگ گھروں سے پتیلے اور پتیلیاں لے کر کھانا لینے آئے تھے، میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میں واک کرتا ہوا گھر جا رہا تھا، میرے دوست سیف اﷲ ضیاء کا فون آگیا، یہ راولپنڈی کے چاندنی چوک میں رحمانی دستر خوان کے نام سے دستر خوان چلا رہے ہیں، یہ روز ہزار لوگوں کو یہاں افطار کراتے ہیں اور ہر دوسرے دن پچاس لوگوں کو خشک راشن دیتے ہیں، یہ مجھے وہاں لے جانا چاہتے تھے، میری عادت ہے میں جب بھی پریشان یا دکھی ہوتا ہوں تو میں لمبی واک کرتا ہوں، میں چودہ پندرہ کلو میٹر پیدل چلتا ہوں، میں دکھی تھا چنانچہ میں پیدل چل رہا تھا۔
میں نے ان سے عرض کیا، آپ مجھے دو گھنٹے بعد راستے سے لے لیجیے گا، میں چلتا رہا، یہ دو گھنٹے بعد آئے اور مجھے راولپنڈی لے گئے، رحمانی دستر خوان کے سامنے پچاس خواتین بچوں کے ساتھ راشن لینے کے لیے کرسیوں پر بیٹھی تھیں، سیف اﷲ ضیاء کا سسٹم اچھا تھا، یہ خاندانوں کو کارڈ دے دیتے ہیں، لوگ آتے ہیں، اپنا کارڈ دیتے ہیں اور راشن کا تھیلا لے جاتے ہیں، ایک خاتون تین بچوں کے ساتھ وہاں موجود تھی، خاوند رکشہ چلاتا تھا، آمدنی کم تھی اور اخراجات زیادہ چنانچہ وہ مجبور ہو کر راشن کے لیے پہنچ گئی۔
بڑا بیٹا سات برس اور درمیانہ پانچ سال کا تھا، میں نے دونوں بچوں سے پوچھا، آپ بڑے ہو کر کیا بنیں گے، بڑے نے جواب دیا، میں فوج میں جاؤں گا اور چھوٹا بولا، میں پولیس مین بنوں گا، میں نے دونوں سے کہا، یاد رکھو تم نے صرف فوجی یا پولیس مین نہیں بننا تم نے آئی جی اور جنرل بننا ہے، وہ پورے یقین سے بولے، ہاں ہم بنیں گے، میں جتنی دیر وہاں موجود رہا میں ان بچوں سے پوچھتا رہا، آپ کیا بنیں گے اور وہ پورے یقین اور عزم کے ساتھ کہتے رہے، میں جنرل بنوں گا، میں آئی جی بنوں گا، مجھے ان کے عزم سے محسوس ہوا، یہ بچے جو کہہ رہے ہیں یہ واقعی کبھی نہ کبھی دنیا کو بن کر دکھا دیں گے، کیوں؟ کیونکہ خدا پہلے غریبوں کا ہوتا ہے اور پھر امیروں کا اور مجھے ان بچوں کی آنکھوں میں خدا کی رحمت نظر آ رہی تھی، اﷲ کی رحمت اس رحمانی دسترخوان کے دائیں بائیں کہیں موجود تھی۔