کتنی دیر
آپ کو ریمنڈ ڈیوس یقیناً یاد ہوگا۔
ریمنڈ ڈیوس امریکی فوج میں ویپن سارجنٹ تھا، یہ 1993ء میں فوج میں بھرتی ہوا اور یہ 2003ء میں ریٹائر ہو گیا، یہ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا کی مختلف سیکیورٹی کمپنیوں میں ملازمت کرتا رہا، اس کی آخری جاب سیکیورٹی ایجنسی میں تھی، یہ ایجنسی کانٹریکٹ پر سی آئی اے کے لیے کام کرتی تھی، سی آئی اے نے2007ء میں ایجنسی کو پاکستان میں کانٹریکٹ دے دیا، ایجنسی نے اپنے ملازم پاکستان بھجوا دیے، ریمنڈ ڈیوس بھی ان ملازمین میں شامل تھا، یہ 2011ء کے شروع تک نو مرتبہ پاکستان آیا اور ملک کے مختلف حصوں میں کام کرتا رہا، یہ 27 جنوری 2011ء کو لاہور میں کسی خفیہ مشن پر تھا۔
یہ دن بارہ بجے کے قریب اپنی گاڑی پر لاہور کے علاقے قرطبہ چوک میں گھوم رہا تھا، اسے اچانک محسوس ہوا موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان فہیم اورفیضان اس کا پیچھا کر رہے ہیں، یہ گاڑی سے نکلا اور اس نے ان دونوں نوجوانوں کو سر عام گولی مار دی، لوگوں نے ریمنڈ ڈیوس کا محاصرہ کر لیا، امریکی قونصل خانے کی دوسری گاڑی اسے بچانے کے لیے وہاں پہنچی لیکن اس کی عبادالرحمن کی موٹر سائیکل سے ٹکر ہو گئی، گاڑی اسے روندتے اور گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھی لیکن یہ ریمنڈ ڈیوس تک نہ پہنچ سکی، عبادالرحمن بھی اس حادثے میں مارا گیا، ریمنڈ ڈیوس گرفتار ہو گیا۔
یہ دو پاکستانی نوجوانوں کا سیدھا سادا قاتل تھا، امریکی حکومت درمیان میں کود پڑی، پوری امریکی مشینری جس میں وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن، وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور امریکا کے افغانستان میں ایساف کمانڈرڈیوڈ پیٹریاس شامل تھے، ان سب نے پاکستان پر دبائو بڑھا دیا، صدر اوبامہ نے اسے سفارت کار قرار دے دیا، سینیٹر جان کیری ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لیے پاکستان پہنچ گئے، امریکا ریمنڈ ڈیوس کو ہر صورت بچانا چاہتا تھا خواہ اسے دنیا میں اپنا سب سے بڑا اور سستا ترین اتحادی پاکستان ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے، ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے پاک فوج اور امریکی فوج کے تعلقات خراب ہو گئے، امریکی جرنیلوں نے جنرل کیانی کو " کولڈ شولڈر" دینا شروع کر دیا، پاکستان نے جرمنی میں نیٹو کانفرنس میں شریک ہونا تھا مگر ہیلری کلنٹن نے عین وقت پر پاکستان کو کانفرنس سے ڈراپ کر دیا۔
پاکستان کا امدادی چیک بھی روک دیا گیا اور امریکا نے نیٹو میں شامل دوسرے ممالک کے ذریعے بھی پاکستان پر دبائو ڈالنا شروع کر دیا، پاکستانی حکومت دبائو میں آ گئی، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو " درمیانی راستہ" نکالنے کی ہدایت کی گئی مگر شاہ محمود قریشی نے انکار کر دیا، وزیر خارجہ نے کردار کا مظاہرہ کیا، یہ وزارت سے مستعفی ہوئے اور یہ بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، ہماری حکومت شاہ محمود قریشی کی قربانی کے باوجود امریکی دبائو میں رہی یہاں تک کہ حکومتی اداروں نے 16 مارچ 2011ء کو مقتول فہیم اور فیضان کے لواحقین کو راضی کر لیا، انھیں 20 کروڑ روپے خون بہا ادا کیا گیا اور ریمنڈ ڈیوس کو جیل میں امریکی حکام کے حوالے کر دیا گیا، امریکی حکام اسے خصوصی جہاز پر بگرام لے گئے، وہاں اسے نیا پاسپورٹ دیا گیا اور یہ امریکا واپس چلا گیا۔
آپ اگر ریمنڈ ڈیوس کے ایشو کا تجزیہ کریں تو آپ کے سامنے چار چیزیں آئیں گی، ایک، افغانستان میں نیٹو فورسز کی موجودگی کی وجہ سے پاکستان امریکا کے لیے ناگزیر ہے، امریکا اور نیٹو فورسز پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں ٹک سکتی ہیں اور نہ ہی کامیاب ہو سکتی ہیں، نیٹو فورسز کے لیے پٹرول، کھانا، پانی، ادویات حتیٰ کہ پیمپر تک پاکستان کے ذریعے افغانستان پہنچتے ہیں مگر امریکا نے اپنے صرف ایک شہری کے لیے اپنے ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی جان اور آرام دائو پر لگا دیا۔ دو، پاکستان اور امریکا ایک دوسرے کے پرانے اتحادی ہیں، پاکستان نے چین امریکا تعلقات، افغان وار اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی اوقات سے بڑھ کر امریکا کا ساتھ دیا، پاکستان مستقبل میں بھی امریکا کے لیے ضروری ہے کیونکہ یہ ملک تین عالمی طاقتوں کے درمیان واقع ہے۔
اس کے ایک طرف چین جیسی ابھرتی ہوئی سپر پاور ہے، دوسری طرف بھارت جیسا معاشی اور معاشرتی جن ہے اور تیسری طرف روس جیسی سابق سپر پاور موجود ہے اور امریکا پاکستان میں رہ کر ان تینوں طاقتوں کا مقابلہ کر سکتا ہے مگر امریکا نے ریمنڈ ڈیوس جیسے معمولی اور نفسیاتی مریض کے لیے اپنا بہت بڑا سفارتی اتحاد بھی دائو پر لگا دیا اور تین، ریمنڈ ڈیوس کی کشمکش نے آگے چل کر امریکا کو شدید مالیاتی نقصان پہنچایا، ٹینشن کی وجہ سے امریکا نے سلالہ چیک پوسٹ پرحملہ کر دیا اور پاکستان نے 27 نومبر 2011ء کو نیٹو سپلائی بند کر دی، امریکا کو نیٹو سپلائی کے متبادل روٹس پر جانا پڑا اور یوں اربوں ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا اور چار، اس واقعے نے ثابت کر دیا امریکی حکومت اور قوم اپنے شہریوں کو خواہ یہ نفسیاتی مریض ہی کیوں نہ ہوں یا یہ اجنبی ملک میں سڑک پر کھڑے ہو کر سر عام دو معصوم شہریوں کو گولی ہی کیوں نہ مار دیں، یہ اسے سفارتی اور عسکری تعلقات سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
یہ اس واقعے کا ایک پہلو ہے آپ اب دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے، ریمنڈ ڈیوس پاکستان سے رہا ہونے کے بعد اپنی آبائی ریاست کولوراڈو پہنچ گیا، یہ یکم اکتوبر 2011ء کو اپنے قصبے ہائی لینڈ رینج کی ایک مارکیٹ میں گاڑی کھڑی کر رہا تھا، وہاں اس کا ایک عام شہری جیف میز کے ساتھ جھگڑا ہو گیا، ریمنڈ ڈیوس گاڑی سے اترا اور اس نے جیف کو مکے اور لاتیں مارنا شروع کر دیں، پولیس آئی اور اس نے ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کر لیا، اس کے خلاف عوامی مقام پر غنڈہ گردی، شہری پر تشدد اور ملکی قانون کو ہاتھ میں لینے کا مقدمہ قائم ہوا۔
یہ مقدمہ ڈیڑھ سال تک چلتا رہا اور عدالت نے آج سے چھ دن قبل یکم مارچ 2013ء کو ریمنڈ ڈیوس کو دو سال قید، اینگرمینجمنٹ کی کلاسز لینے اور جرمانے کی سزا سنا دی اور یوں آج وہ ریمنڈ ڈیوس جس کے لیے امریکا نے اپنا سب سے بڑا عسکری اور سفارتی اتحادی ناراض کردیا تھا، جس کے لیے شاہ محمود قریشی جیسے ذہین اور ایماندار سیاستدان کا سیاسی مستقبل تباہ ہوگیا اور امریکا کو جسے بچانے کے لیے نیٹو سپلائی تک کی قربانی دینا پڑی وہ ریمنڈ ڈیوس امریکی جیل میں پڑا ہے اور اپنے پولیس سسٹم کو گالیاں دے رہا ہے۔
ریمنڈ ڈیوس کی کہانی کا یہ کلائمیکس ثابت کرتا ہے، امریکا اپنے پاگل شہری کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے مگر وہ اپنے ملک میں اس شخص کا معمولی سا جرم بھی برداشت نہیں کرتا، ریمنڈ ڈیوس نے پاکستان میں دو لوگ قتل کر دیے تو ہیلری کلنٹن سے لے کر صدر اوبامہ تک پوری امریکی حکومت اس کی سفارشی بن گئی لیکن جب اس نے امریکی سرزمین پر دوسرے امریکی شہری کو دو مکے اور تین لاتیں ماریں تو وائٹ ہائوس، وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کا کوئی کلرک تک اس کی مدد کے لیے نہیں آیا اور جیل اس شخص کا مقدر بن گئی جو مارچ 2011ء میں دنیا کے ہر اخبار، ہر میگزین اور ہر نیوز چینل کی کور اسٹوری تھا، یہ کلائمیکس ثابت کرتا ہے معاشروں کی اصل طاقت قانون ہوتا ہے اور ہمارے ملک میں یہ طاقت نہیں۔
چنانچہ پاکستان میں کوئی غیر ملکی دو شہریوں کو سر عام گولی مارنے کے باوجود باعزت رہا ہو جاتا ہے جب کہ امریکا میں قانون مضبوط ہے چنانچہ وہاں جرم کے بعد ریمنڈ ڈیوس بھی سزا سے نہیں بچ سکتا، آپ اس واقعے کو ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد کراچی کے عباس ٹائون میں ہونے والے تین مارچ کے واقعے کو دیکھئے، عباس ٹائون بم دھماکے میں 50 لوگ مارے گئے، سپریم کورٹ نے تڑپ کر اس واقعے کا نوٹس لے لیا، چیف جسٹس کراچی میں بیٹھ کر حکومت، رینجرز اور پولیس سے جواب مانگ رہے ہیں لیکن حکومت اور حکومتی ادارے برف کی سل پر بیٹھے ہیں۔
ان کے ضمیر کی آنکھ تک گیلی نہیں ہوئی اور یہ وہ بے حسی ہے جس کے پھندے پر کبھی ذوالفقار علی بھٹو جھول جاتا ہے اور کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو سڑک پر ماری جاتی ہیں اور اگر بنکروں میں رہنے والے موجودہ لیڈر بھی خدانخواستہ اس انجام کا شکار ہو جائیں تو اس ملک میں انھیں بھی انصاف نہیں مل سکے گا کیونکہ یہ وہ جنس ہے جو اس ملک میں پائی ہی نہیں جاتی اور اگر ہو گی تو ملے گی کہاں سے؟ آج ریمنڈ ڈیوس ہمارے پورے جسٹس سسٹم پر ہنس رہا ہے وہ کولوراڈو کی جیل میں بیٹھ کر پاکستان کے اٹھارہ کروڑ لوگوں سے پوچھ رہا ہے کیا تم لوگ انصاف کے بغیر زندہ رہ سکو گے، اگر ہاں تو کتنی دیر؟ اس سوال کا جواب عباس ٹائون کی پچاس نعشیں اور گڑھی خدا بخش میں محترمہ بے نظیر بھٹو کا سرخ کفن دے رہا ہے، یہ کہہ رہے ہیں ملک میں جب انصاف نہ ہو تو عباس ٹائون کی نعشوں کو انصاف ملتا ہے اور نہ بے نظیربھٹو کو، تمام مرنے والے مٹی کی ڈھیری ہوتے ہیں۔