خدا خوفی کریں
شوکت عزیزکا دور تھا، چین کے صدر ہوجن تاؤپاکستان کے دورے پر آئے، شوکت عزیز چینی صدر کو بلیو ایریا کے راستے ایوان صدر لائے، وزیراعظم نے صدر کو بتایا، بلیو ایریا اسلام آباد کاکمرشل ڈسٹرکٹ ہے، اس کے پلاٹس بیجنگ اور شنگھائی سے زیادہ مہنگے ہیں، ہمارا سی ڈی اے ایک پلاٹ بیچ کر اپنے ملازمین کی سالانہ تنخواہیں پوری کر لیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہوجن تاؤنے بات مکمل ہونے کے بعد پوچھا "پرائم منسٹر یہ بتائیے اسلام آباد کا میئر کون ہے" شوکت عزیز نے بتایا "دارالحکومت میں میئر نہیں، تمام انتظامات ایک سول سرونٹ چلا رہا ہے" چینی صدر نے مسکرا کر کہا "یہ شخص اگر چین میں ہوتا تو ہم اسے پھانسی دے دیتے" وزیراعظم نے حیرت سے پوچھا "سر وہ کیوں؟" ہوجن تاؤنے جواب دیا "اسلام آباد اگر ہمارے پاس ہوتا اور اس کے کمرشل ڈسٹرکٹ کی دو سائیڈوں پر بڑی بڑی لفٹیں نہ لگی ہوتیں اور دائیں اور بائیں سو سو منزل کی عمارتیں نہ کھڑی ہوتیں تو ہم اپنے میئر کو عبرت کی نشانی بنا دیتے، آپ بھی اس شہر کے باس کو پھانسی دے دیں اور یہ اس شخص کے حوالے کریں جو آپ کے بلیو ایریا کو بیجنگ اور شنگھائی کی طرح کا کمرشل ڈسٹرکٹ بنا دے" شوکت عزیز مسکرا کر رہ گئے۔
چینی صدر دورے کے بعد واپس چلے گئے لیکن ان کا فقرہ شوکت عزیز کے دل میں چبھتا رہا، ہو جن تاؤ کے بعد وزیراعظم نے چیئرمین سی ڈی اے کو بلوایا، سارا واقعہ سنایا اور اس سے کہا" مجھے بلیو ایریا کی دونوں سائیڈ پر بڑی بڑی کنسٹرکشن لفٹیں اوپر نیچے جاتی نظر آنی چاہئیں، پلاٹس ہیں تو نیلام کر دو، پلازے بنے ہیں تو انھیں نئی منزلیں بنانے کی اجازت دے دو، یہ شہر اب بیجنگ یا شنگھائی نظر آنا چاہیے اور آپ نے اگر یہ نہ کیا تو میں وہی کروں گا جس کا مشورہ چینی صدر نے دیا تھا" چیئرمین نے اثبات میں سر ہلایا اور بلیو ایریا کو شنگھائی اور بیجنگ بنانا شروع کر دیا۔
آپ اگر آج بلیو ایریا میں نکلیں تو آپ کو نصف درجن اونچی عمارتیں نظر آتی ہیں، یہ تمام عمارتیں اس چیئرمین کا کمال ہے، وہ آیا، کام کیا اور پورا شہر بدل دیا لیکن آپ ستم ظریفی دیکھیے، وہ اس وقت کنسٹرکشن لفٹیں لگوا کر پھانسی سے بچ گیا مگر وہ پرفارم کرنے، کام کرنے اور ڈیلیور کرنے کے جرم میں پچھلے 11 سال سے پھانسی پر لٹک رہا ہے، یہ اس شخص کی ہمت ہے یہ 11 برس پھانسی گھاٹ پر لٹکنے کے باوجود ابھی تک زندہ ہے ورنہ یہ بریگیڈیئر اسد منیر سے کہیں پہلے مرکھپ گیا ہوتا۔
وہ شخص کون ہے، وہ کامران لاشاری ہے، میں دل سے سمجھتا ہوں پاکستان کی بیورو کریسی نے کامران لاشاری جیسے بہت کم لوگ پیدا کیے ہیں، یہ شخص صرف شخص نہیں یہ حسن ذوق، ڈیلیوری اور پرفارمنس کا ہمالیہ ہے، آپ پاکستان میں کسی سائیڈ پر نکل جائیں آپ کو اگر وہاں خوبصورتی اور سہولت دونوں اکٹھے مل جائیں تو آپ آنکھیں بند کرکے اعلان کر دیں یہ جگہ، یہ محکمہ کبھی نہ کبھی کامران لاشاری کے اختیار میں رہا ہوگا۔
مجھے اس شخص کی صلاحیتیں اور کام کرنے کی استطاعت حیران کر دیتی ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں انسان اگر کچھ کرنا چاہے تو یہ اس چھوٹی سی زندگی میں بھی نسلوں کا کام کر جاتا ہے لیکن جب میں اس شخص کے ساتھ ہونے والا سلوک دیکھتا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، ہم جانتے ہی نہیں ہیں ہم نے کتنا بڑا شخص سسٹم کی تنگ اور تاریک گلیوں میں روند دیا اور یہ شخص اگر اکیلا ہوتا تو بھی شاید زیادہ خرابی نہ ہوتی لیکن یہ سول بیورو کریسی کا ہیرو تھا، آپ آج سے بیس سال پہلے ڈی ایم جی کے جس افسر سے بھی پوچھتے تھے تم سروس میں کیا بننا چاہتے ہو تو وہ فوراً جواب دیتا تھا کامران لاشاری لیکن آپ آج کسی نوجوان افسر سے پوچھ لیں وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر جواب دے گا میں صرف نوکری کرنا چاہتا ہوں۔
میں لاشاری بن کر عبرت کی نشانی نہیں بننا چاہتا، کیا یہ زیادتی نہیں! کامران لاشاری2003ء سے 2008ء تک سی ڈی اے کے چیئرمین رہے، یہ 11سال سے چارج چھوڑ چکے ہیں، یہ 2012ء میں ریٹائر بھی ہو گئے لیکن احتساب نے آج تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑا، یہ آج بھی فائلیں اٹھا اٹھا کر پھر رہے ہیں، ان کی زندگی کے 11قیمتی سال بریگیڈیئر اسد منیر کی طرح خود کو بے گناہ ثابت کرتے گزر گئے مگر مسائل کا دور ختم نہیں ہو رہا، ان کے خلاف چھ سو موٹو نوٹس ہوئے اور 12 کیس بنے، زندگی کا مشکل ترین سوموٹو ایف نائین پارک میں کنٹری کلب تھا، افتخار محمد چوہدری ان دنوں ملک کے ایماندار ترین، محب وطن ترین اور عقل مند ترین شخص تھے، کامران لاشاری ان کی عقل مندی، حب الوطنی اور ایمانداری کی زد میں آگئے۔
میں آج بھی ایف نائین پارک میں کنٹری کلب کی ادھوری عمارت کے قریب سے گزرتا ہوں تورک کر قوم کی عقل پر فاتحہ پڑھتا ہوں، ملک کے اربوں روپے افتخار محمد چوہدری کی انا کی نذر ہو گئے، کلب بنانے والے بھی قبروں میں پہنچ گئے، زمین بھی برباد ہوئی، عمارت بھی اور الٹا عمارت کی حفاظت پر ہر مہینے لاکھوں روپے بھی خرچ ہو رہے ہیں، یہ عمارت کسی دن استعمال کے بغیر ہی گر جائے گی اور ذمے دار کون ہوگا؟ آپ کمال دیکھیے، عمارت بنانے والے پھنس گئے اور جن کی وجہ سے اربوں روپے برباد ہو گئے وہ مزے کر رہے ہیں اور اب کامران لاشاری کے خلاف ایک تازہ ریفرنس تیار ہو رہا ہے اور یہ اس شخص کے لیے ذلت کی انتہا ہے۔
یہ ذلت کیا ہے؟ آپ ملاحظہ کیجیے، جنرل پرویز مشرف کے دور میں دہشت گردی شروع ہوئی، سفارت خانے دہشت گردوں کا خصوصی نشانہ تھے، حکومت نے سفارتی علاقے کے گرد حفاظتی دیوار بنا دی اور یہ علاقہ عام لوگوں کے لیے ممنوعہ قرار دے دیا، ملک بھر سے سیکڑوں لوگ ویزے کے لیے آتے تھے، یہ لوگ ڈپلومیٹک انکلیو میں اپنی گاڑیاں لے جا سکتے تھے اور نہ ہی پیدل جا سکتے تھے، پولیس نے ایک پرائیویٹ شخص محمد حسین کو سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد شٹل ٹرانسپورٹ چلانے کی اجازت دے دی، اس کے پاس صرف دو ہائی روف گاڑیاں تھیں، ایک گاڑی مسافروں کو چھوڑنے جاتی تھی اور دوسری واپس لے کر آتی تھی، درمیان کے وقفے میں لوگ خاندان سمیت کھلے آسمان کے نیچے انتظار کرتے تھے اور یہ ان لوگوں کی تذلیل تھی۔
چیئرمین سی ڈی اے ایک دن اس سائیڈ سے گزرے، لوگوں کو سڑک کے کنارے کھڑے دیکھا، پوچھا، پتہ چلا یہ بے چارے ویزوں کے لیے آئے ہیں، کامران لاشاری کو دکھ ہوا، یہ دنیا دیکھ چکے ہیں، ان کا خیال تھا دنیا کے برے سے برے ملک میں بھی سفارت خانوں کے وزیٹرز کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوتا، سی ڈی اے بورڈ کی میٹنگ میں ایشو لایا گیا، آج جہاں چین کی ایمبیسی ہے اس کے سامنے جنگل میں ایک ویران سی جگہ تلاش کی گئی، سی ڈی اے نے ٹریکٹر چلا کر وہ زمین سیدھی کی، اشتہار دیا اور یہ زمین سات سال کے لیے شٹل سروس کے لیے الاٹ کر دی، الاٹی کو اپنی جیب سے ویٹنگ روم تیار کرنے کی اجازت دے دی گئی، سی ڈی اے کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا، یہ جگہ سات سال بعد سی ڈی اے کو واپس مل گئی۔
کمرشل ایکٹویٹی کی وجہ سے جگہ کی مالیت بڑھ گئی، یہ اربوں روپے کی ہو چکی ہے، سی ڈی اے اگر آج نیلام کرے تو اسے ایک سے دو ارب روپے مل جائیں گے، یہ جگہ اب کامران لاشاری اور اس کی بنائی کمیٹی کے گلے پڑ گئی ہے، کمیٹی کے دو ارکان سابق ممبر پلاننگ بریگیڈیئر نصرت اللہ اورڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پلاننگ غلام سرور سندھواس وقت جیل میں ہیں جب کہ نیب کامران لاشاری کے خلاف ریفرنس تیار کر رہا ہے، نیب کا خیال ہے یہ ٹھیکہ غلط دیا گیا تھا، یہ کم از کم آٹھ دس کروڑ روپے میں ہونا چاہیے تھا، لاشاری صاحب بار بار اپنی پوزیشن واضح کررہے ہیں، یہ بتارہے ہیں شہر میں اس وقت ویزے کے لیے آنے والے لوگوں کے لیے کوئی انتظار گاہ نہیں تھی۔
یہ زمین بھی ویرانہ تھی اور کوئی پارٹی اس ویرانے پر کروڑ روپے خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں تھی، ملزم محمد حسین پہلے سے شٹل سروس چلا رہا تھا، یہ سیکیورٹی کلیئرڈ بھی تھا چنانچہ ہم نے "خود بناؤ اور خود چلاؤ" کی بنیاد پر یہ زمین اسے لیز کر دی، سی ڈی اے کا اس پر ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا لیکن ملک کا سینئر ترین بیورو کریٹ جونیئر ترین تفتیشی افسر کو یہ بات سمجھا نہیں پا رہا، وہ ان کا موقف سننے اور سمجھنے کے لیے تیار نہیں، کمیٹی کے ارکان بریگیڈیئر نصرت اللہ اورغلام سرورسندھو جیسے سینئر افسر تھے، یہ اس وقت جیل میں پڑے ہیں اور کامران لاشاری اپنی گردن کا ناپ لے رہے ہیں۔
آپ ستم ظریفی ملاحظہ کیجیے کامران لاشاری کا بیٹا بلال لاشاری فلمیں بناتا ہے، اس کے بیڈروم میں ایوارڈز کی الماری ہے جب کہ کامران لاشاری کے کمرے میں مقدموں اور ریفرنسز کی الماری پڑی ہے، بیٹا ایوارڈز دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے جب کہ یہ مقدموں کی فائلوں کے درمیان سوتے ہیں اور درمیان میں اٹھتے ہیں، یہ کہتے ہیں میں نے زندگی میں صرف دو مواقعے پر محنت کی، میں جب سی ایس ایس کررہا تھا اور میں نے جب مقدمے بھگتنا شروع کیے اور یہ وہ حالات ہیں جن میں بریگیڈیئر اسد منیر خودکشی کر چکے ہیں اور بریگیڈیئر نصرت اور کامران لاشاری ڈپریشن کے اس لیول پر پہنچ چکے ہیں جس پر اگر یہ خودکشی نہیں کرتے تو یہ فوت ضرور ہو جائیں گے، کیا کام کرنے والوں کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے۔
کیا ہم انھیں یہ ایوارڈ دیتے ہیں؟ آج کامران لاشاری، احد چیمہ اور فواد حسن فواد کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اور جس سلوک سے تنگ آ کر اسد منیر نے خودکشی کر لی اس سے پوری بیورو کریسی ڈی مورلائزڈ ہو چکی ہے، آج افسر فائل کو ہاتھ لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں، حکومت کو آدھے سے زیادہ اداروں کے سربراہ نہیں مل رہے اور جو ہیں وہ کام نہیں کر رہے، ہم نے اگر حالات کی اس سنگینی کا ادراک نہ کیا تو یہ حکومت سرکاری مشینری کی سست روی کا شکار ہو جائے گی، نیب پچھلی دو حکومتوں کو کھا گیا اور یہ اب تیسری کو بھی نگل جائے گا چنانچہ خدا خوفی کریں، لوگوں پر رحم کریں، آپ کو مزید کتنی لاشیں چاہئیں! کیا اس ملک میں اب ہر شخص کو خود کو بے گناہ اور ایماندار ثابت کرنے کے لیے بریگیڈیئر اسد منیر کی طرح مرنا پڑے گا، کیا اب صرف لاشوں کے ذریعے فائلیں بند ہوں گی، خدا خوفی کریں!