کاش ہمارے بادشاہ بھی
میں اورخان غازی کے مقبرے میں داخل ہوا، فاتحہ پڑھی اور دائیں بائیں اور پائنتی کی قبروں کے کتبے پڑھنے لگا اور میں پھر دو قبروں کے بعد اس قبرتک پہنچ گیا میں جس کی تلاش میں چھ مرتبہ ترکی گیا، دو مرتبہ بورسا پہنچنے کی کوشش کی، ناکام ہوا، تیسری بار بورسا پہنچا، خلافت عثمانیہ کے بانیان کے مقبروں تک پہنچا اور بالآخر اس قبر تک پہنچ گیا، وہ بایزید یلدرم کی قبر تھی، یلدرم خلافت عثمانیہ کا چوتھا خلیفہ تھا، بہادر تھا، سمجھ دار تھا لیکن تکبر کا شکار ہوا اور یہ تکبر اس کے زوال، اس کی موت کا باعث بن گیا۔
یلدرم کی کہانی امیر تیمور نے اپنی بائیو گرافی میں بڑی تفصیل سے لکھی، میں یہ کتاب تیرہ مرتبہ پڑھ چکا ہوں، میں نے آخری مرتبہ سینٹرل ایشیا، مڈل ایسٹ، برصغیر، مشرقی یورپ اور روس کے نقشے سامنے رکھے۔"گوگل ارتھ" کھولا اور تیمور کی کتاب پڑھنا شروع کر دی، میں کتاب پڑھتا جاتا تھا اور وہ تمام مقامات، شہر، دریا اور پہاڑ تلاش کرتا جاتا تھا جن کا تذکرہ تیمور نے اپنی بائیو گرافی میں کیا، تیمور کے زمانے کے زیادہ تر شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں یا ان کے نام تبدیل ہو چکے ہیں یا پھر یہ وقت کی بے رحم لہروں کا نشانہ بن کر اپنی آن بان کھو بیٹھے ہیں تاہم درجن بھر شہر آج بھی قائم ہیں۔
پاکستان میں کوئٹہ اور ملتان اور بھارت میں دلی موجود ہیں تاہم دلی کے مضافات کے دو شہر لونی اور جومبہ اب دلی شہر کا حصہ بن چکے ہیں، تیمور کے دور کا شیراز، گیلانی، تبریز، اصفہان، سمر قند، بخارہ، بغداد، دمشق، حلب اور ہرات آج بھی اسی نام سے قائم ہیں، افغانستان میں غور نام کا ایک ملک تھا، یہ کابل تک وسیع تھا، ہندوستان کے غوری سلطان اسی ملک سے تعلق رکھتے تھے، یہ ختم ہو چکا ہے تاہم اس کا ایک حصہ اب کابل میں شامل ہے۔
شہر سکندر اب قندہار بن چکا ہے، بیزان تیوم اب استنبول ہے، جارجیا، آرمینیا اور آذر بائیجان کی جگہ ایک طویل ملک ہوتا تھا قچاق۔ یہ ملک اب ختم ہو گیا، دریاوالگا کا نام طرخان تھا، دریا کے گرد آباد شہر ختم ہو گئے، نیا ملک قزاقستان بنا، لہرستان کا ملک بھی ختم ہو گیا، خراسان کا ملک تین ملکوں میں تقسیم ہو گیا اور شہر تاریخ کے صفحوں میں گم ہو گئے، تیمور سو محلات کا مالک تھا، سمر قند میں اس کے اٹھارہ محل تھے، کیش (یہ شہر اب شہر سبز کہلاتا ہے) میں بیس، بغداد میں پندرہ، اصفہان میں بارہ اور شیراز میں سات محل تھے، یہ سارے محلات پیوند خاک ہو گئے۔
امیر تیمور کی سلطنت تین براعظموں تک پھیلی تھی لیکن آج صرف چھ سو سال بعد دنیا میں تیمور کی قبر اور ایک کتاب کے سوا کچھ نہیں بچا، اس کی ہر کامیابی ریت کے نقش کی طرح دنیا سے غائب ہو چکی ہے، دنیا کے ہر متکبر سیاستدان، ہر بے مہار حکمران اور ناگزیر ڈان کو زندگی میں ایک بار امیر تیمور کی بائیو گرافی ضرور پڑھنی چاہیے، اسے امیر تیمور کی قبر پر بھی جانا چاہیے اور اگر ہو سکے تو اسے امیر تیمور کی گم شدہ ریاست کی سیر بھی کرنی چاہیے، مجھے یقین ہے اس شخص کو دنیا کی بے ثباتی کا یقین آ جائے گا لیکن تیمور، تیمور کی گم شدہ ریاست اور تیمور کی حسرتیں ہمارا مقصد نہیں، ہمارا مقصد بایزیدیلدرم اور امیر تیمور کی جنگ ہے۔
بایزید 1389ء میں عثمانی خلافت کا بادشاہ بنا، سلطنت کی حدیں دور دور تک پھیلی تھیں، امیر تیمور عثمانیوں کو چھیڑنا نہیں چاہتا تھا، یہ ہمیشہ ترکی کی سرحدوں کے قریب سے چپ چاپ گزر جاتا تھا لیکن یہ جب حلب اور دمشق پہنچا تو اسے حلب اور دمشق کے علماء نے بتایا " دنیا کی اصل دولت تو ترک اور استنبول کے عیسائی حکمرانوں کے پاس ہے" تو امیر تیمور لالچ میں آ گیا، اس نے ترکی فتح کرنے کا فیصلہ کر لیا، امیر تیمور اس وقت تک دنیا کا نامور فاتح بن چکا تھا، وہ دمشق سے واپس جانے لگا تو اس نے انگوریہ کی راہ لے لی۔
انگوریہ انقرہ کا پرانا نام تھا اور یہ اس وقت تک ترک سلطنت کا دارالحکومت تھا، تیمور نے قونیہ فتح کیا اور دریائے قزل ایرماق کے ساتھ ساتھ انگوریہ کی طرف سفر شروع کر دیا، وہ انگوریہ کے مضافات میں پہنچا تو بایزید یلدرم فوج لے کر پہنچ گیا، تیمور اور بایزید افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات طے کر سکتے تھے لیکن بایزید کے تکبر نے معاملہ بگاڑ دیا، بایزید نے تیمور کو خط لکھا اور خط میں اسے برا بھلا کہہ دیا، تیمور مزید بگڑ گیا، جنگ شروع ہوئی، ترکوں کی فوج تکنیک میں تیموری فوج سے زیادہ مضبوط تھی، ان کے پاس ایسی گھوڑا گاڑیاں تھیں جن کے پہیوں پر تلوار نما درانتیاں لگی تھیں۔
یہ درانتیاں راستے میں آنے والے سپاہیوں اور گھوڑوں کو کاٹ ڈالتی تھیں، آپ کو یہ گاڑیاں بن ہر اور گلیڈی ایٹر جیسی فلموں میں اکثر نظر آتی ہیں، تیمور کے لیے یہ گاڑیاں نئی تھیں چنانچہ تیموری فوج کو بھاری نقصان ہوا، تیمور نے اس وقت تک بارود کا استعمال سیکھ لیا تھا، یہ لوگ مٹی کے کوزوں میں بارود بھر کر دستی بم بناتے تھے، یہ بم کو رسی سے باندھتے، فلیتے کو آگ لگاتے، کوزے کو سر پر گھماتے اور دشمن کی فوج میں پھینک دیتے، بم پھٹتا اور زد میں آنے والوں کو اڑا دیتا، ترک فوج کے لیے یہ بم نئے تھے چنانچہ خوفناک جنگ ہوئی، تیمور کو بھاری نقصان پہنچا لیکن یہ جنگ جیت گیا، بایزید یلدرم اپنے بیٹوں سمیت گرفتارہو گیا، ترکوں کی فوج میں تاتاری، قمیش اور کرد سپاہی تھے۔
یہ سپاہی سلطان کی گرفتاری کے باوجود لڑتے رہے، یہ تمام سپاہی مر گئے مگر انھوں نے ہتھیار نہ ڈالے، سپاہیوں کی شجاعت اور بہادری نے تیمور کو حیران کر دیا، جنگ کے بعد تیمور میدان جنگ میں گیا، ترک سپاہیوں کی لاشیں دیکھیں، سپاہی مر چکے تھے لیکن ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں، تیمور نے بایزیدیلدرم کو بلایا اور حیران ہو کر اس سے پوچھا "یلدرم تم بہت بے وقوف ہو، تمہارے پاس ایسے شاندار سپاہی تھے مگر تم نے ان سے فائدہ نہیں اٹھایا، تمہیں چاہیے تھا تم ایسے ثابت قدم دلیروں کی ایک ایسی فوج بناتے جس کی موجودگی میں کوئی تمہیں فتح نہ کر سکتا، تم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ " شکست خوردہ یلدرم نے کف افسوس ملا اور تیمور سے کہا"یا امیر انسان کو نعمت کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب یہ اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
یہ دلیر لوگ واقعی نعمت تھے، افسوس میں اس نعمت سے فائدہ نہ اٹھا سکا" امیر تیمور عجیب و غریب شخص تھا، وہ اپنے مفتوحہ علاقوں کے شاہی خاندان کے چیدہ چیدہ لوگوں کو زر ضمانت بنا کر اپنے پاس رکھ لیتا تھا، یہ لوگ اپنے مقامی لباس میں اس کے دربار میں بیٹھتے تھے، تیمور ان لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا، تیمور نے بایزید یلدرم اور اس کے بیٹوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا، یہ یلدرم کو عزت دیتا تھا لیکن ترکی جیسی سلطنت کی بادشاہت اور پھر امیر تیمور کے دربار کا ایک مہرہ بننا، یلدرم کے لیے زندگی اذیت بن گئی۔
وہ روز اپنی کھوئی ہوئی سلطنت کو یاد کرتا، انگوریہ کو یاد کرتا، قونیہ کے درویشوں کا رقص یاد کرتا اور اپنے دربار کی شان و شوکت کو یاد کرتا اور پھر اپنی فوج کی شجاعت کو یاد کرتا اور پھر اپنی بے وقوفیوں اور حماقتوں کو یاد کرتا اور پھر دیر تک غمناک ہو کر بیٹھا رہتا، عثمانی خلافت کا بوجھ اسے آہستہ آہستہ کھوکھلا کر گیا، امیر تیمور آذربائیجان کی مہم کے لیے روانہ ہوا تو وہ بایزید یلدرم کو بھی ساتھ لے گیا، یلدرم غلام کی طرح تیمور کے ساتھ ساتھ چلتا تھا، یہ ذلت اس سے برداشت نہ ہو سکی چنانچہ وہ دیار بکر کے مقام پر شدید بیمار ہو گیا، تیمور کو اس پر ترس آگیا، اس نے اسے علاج کے لیے دیار بکر میں قیام کی اجازت دے دی، تیمور کا سفر جاری تھا کہ اسے یلدرم کا خط موصول ہوا، یلدرم نے خط میں لکھا "یا امیر طویل زمانوں کی روایت ہے، بادشاہوں کو اسیری مار دیتی ہے، میں تمہارا قیدی ہوں، مجھے یقین ہے مجھے یہ قید مار دے گی۔
ایک مرتا ہوا بادشاہ زندہ بادشاہ سے درخواست کرتاہے، آپ میری موت کے بعد میرے بیٹے سلطان محمد کو عثمانی خلافت کا بادشاہ بنا دیں تاکہ ہماری خلافت کا چراغ جلتا رہے، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں میرا بیٹا تمہارا وفادار رہے گا، یہ کبھی تمہارے سامنے سر نہیں اٹھائے گا" تیمور کو ترس آگیا، اس نے اسی وقت یلدرم کے بیٹے کو ترکی کا سلطان بنا دیا، یہ خبر یلدرم تک پہنچی تو اس نے کلمہ پڑھا اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، یلدرم کی موت کے بعد تیمور کو اس کا دوسرا خط ملا، یلدرم نے تیمور سے درخواست کی۔
آپ اگر مہربانی فرمائیں تو آپ میری لاش کو بورسا میں میرے خاندان کے قبرستان میں تدفین کی اجازت دیں، تیمور نے یلدرم کی یہ درخواست بھی منظور کر لی چنانچہ یلدرم کی لاش دیار بکر سے بورسا لائی گئی اور اسے بورسا میں اور خان غازی کی پائنتی میں دفن کر دیا گیا۔
میں نے بایزید یلدرم کی داستان امیر تیمور کی بائیوگرافی میں پڑھی تھی، میں اس کی قبر پر جانا چاہتا تھا، مجھے فروری کے شروع میں یہ موقع مل گیا، میں اورخان غازی کے مقبرے میں داخل ہوا، اورخان کی قبر پر کھڑا ہو کر فاتحہ پڑھی اور قبروں کے کتبے پڑھتے پڑھتے بایزید یلدرم کی قبر تک جا پہنچا، ترک اپنے بادشاہوں کی قبروں پر پگڑیاں باندھتے ہیں، یہ پگڑیاں بادشاہت کی نشانی ہوتی ہیں، آپ جوں ہی کسی مقبرے میں داخل ہوتے ہیں۔
آپ کو جس قبر پر پگڑی نظر آئے آپ سمجھ جائیں یہ ترک بادشاہ کی قبر ہے، یلدرم کی قبر پر بھی پگڑی تھی لیکن پگڑی کے باوجود یلدرم کی قبر سے مظلومیت کی ہوا آتی تھی، قبریں اگر تاسف کا اظہار کر سکتی ہیں تو یلدرم کی قبر اس وقت کف تاسف مل رہی تھی، میں قبر کے قریب کھڑا ہو کر دکھی ہو گیا، میں نے گیلی آنکھوں سے فاتحہ پڑھی اور مقبرے سے باہر آگیا، مقبرہ بلندی پر واقع ہے، بورسا کا آدھا شہر مقبرے کے نیچے دور دور تک بکھرا ہوا ہے، خنک ہوائیں مقبرے سے ہو کر شہر کی چھتوں پر اتر رہی تھیں، دور بحیرہ مرمرا کی لہریں اٹھتی تھیں، گرتی تھیں اور خنک ہواؤں سے گلے ملتی تھیں۔
اس سارے پس منظر میں بایزید یلدرم کی اداس قبر دنیا بھر کے حکمرانوں کو یہ پیغام دے رہی تھی، بادشاہ اگر نالائق ہوں، کوتاہ فہم ہوں اور متکبر ہوں تو ان کو قبریں بھی خیرات میں نصیب ہوتی ہیں، امیر تیمور کو اگر یلدرم پر ترس نہ آتا اور وہ بیمار سلطان کی دونوں خواہشیں نہ مانتا تو عثمانی خلافت 1400ء میں دم توڑ دیتی اور وہ اگر غلام بادشاہ کی لاش کو بورسا لے جانے کی اجازت بھی نہ دیتا تو یلدرم جیسا بادشاہ کسی نامعلوم مقام پر دفن کر دیا جاتا اور آج اس کی قبر ہوتی اور نہ ہی اس قبر پر پگڑی، یہ سب ایک بادشاہ کی مہربانی تھی۔
کاش ہمارے بادشاہ بایزید یلدرم کا یہ فقرہ سمجھ جائیں " یا امیرانسان کو نعمت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ ہاتھ سے نکل جاتی ہے" کاش ہمارے حکمران جان لیں نعمتیں ان کے ہاتھ سے بھی پھسل رہی ہیں، یہ بھی اب انجام سے زیادہ دور نہیں ہیں۔