کارکردگی
اسلام آباد میں ہمارے آگے اور پیچھے سیکیورٹی گاڑیاں تھیں، اسمارٹ کمانڈوز نے بلٹ پروف جیکٹس پہن رکھی تھیں، سرپر ہیلمٹ تھے جب کہ ہاتھ میں کلاشنکوفیں تھیں، دو کمانڈوز کی رائفلیں ہماری گاڑی کی طرف تھیں، دو نے آگے کا راستہ کلیئر کر رکھا تھا اور دو دو کمانڈوز دائیں بائیں نظر رکھے ہوئے تھے۔
ہماری بلٹ پروف گاڑی کے پیچھے بھی اسی قسم کی سیکیورٹی جیپ تھی جب کہ کارواں کے آگے پولیس کی گاڑی تھی، پولیس کار کا سائرن اور سرخ اور نیلی روشنیاں آن تھیں، سگنل پر پہنچنے سے قبل سارجنٹ کو ہماری اطلاع مل جاتی تھی چنانچہ وہ ٹریفک کنٹرول کر لیتا تھا اور یوں ہم ساں ساں کر کے سگنل پار کر جاتے تھے، ہمیں سرینا ہوٹل سے ائیرپورٹ پہنچنے میں صرف دس منٹ لگے، ائیرپورٹ پر ہمارے لیے رن وے کا گیٹ کھول دیا گیا، کمانڈوز اور پولیس باہر رک گئی مگر ہماری گاڑی جہاز تک پہنچ گئی، پروٹوکول آفیسر جہاز کی سیڑھی پر ہمارے بورڈنگ پاس لے کر کھڑا تھا، اس نے بورڈنگ کارڈ پی آئی اے کے اہلکار کو تھما دیے، اہلکار نے مسکرا کر ہماری طرف دیکھا، ذرا سا جھکا، ترچھی آنکھ سے بورڈنگ کارڈ دیکھے اور سلپ پھاڑ کر پروٹوکول آفیسر کے حوالے کر دی، ہمارے پیچھے اسسٹنٹ سیکریٹری ہمارے بیگ اٹھا کر کھڑا تھا، اس نے یہ بیگ کس وقت چیک کرائے، ان پر ٹیگ کس وقت لگا یا، مجھے اس کی خبر تک نہیں ہوئی، ہم بس گاڑی سے اترے اور سیدھے جہاز میں سوار ہو گئے، جہاز پرواز کے لیے تیار تھا، ہمارے بیٹھتے ہی جہاز کے دروازے بند ہو گئے، ائیر ہوسٹس نے اناؤنسمنٹ کی، ہم نے بیلٹس باندھیں اور جہاز ٹیکسی کرنے لگا۔
یہ اپنی نوعیت کا انوکھا سفر تھا، میں وزیر صاحب کے ساتھ دبئی جا رہا تھا، مجھے ان کے ڈرائیور نے گھر سے لیا، ہم سرینا پہنچے، وزیر وہاں ایک تقریب میں چیف گیسٹ تھا، میں فنکشن ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا، ہماری فلائٹ کا ٹائم ہو گیا مگر وزیر صاحب تقریر فرماتے رہے، میرا خیال تھا ہم فلائٹ مس کر چکے ہیں مگر صاحب اور اس کے اسٹاف کے چہرے پر اطمینان تھا، فنکشن ختم ہوا، ہم باہر گیٹ کی طرف بھاگے، ہماری گاڑیاں تیار تھیں اور ہم دس منٹ میں ائیر پورٹ پر تھے، وزیر کا اسٹاف اس وقت تک ہمارے پاسپورٹس پر مہریں بھی لگوا چکا تھا، ہمارے بورڈنگ پاس بھی نکلوا چکا تھا اور اس نے ہمارے سامان کے لیے ٹیگ بھی لے لیے تھے اور یوں ہم جہاز میں پہنچ گئے۔
ہماری منزل دبئی تھی جہاں ہم نے ایک پناہ گزین سیاسی شخصیت سے ملاقات کرنی تھی، میں اس ملاقات کے لیے کیوں جا رہا تھا، مجھے اس کی وجہ معلوم نہیں تھی، وزیر میرا دوست تھا اور اس نے مجھے عین وقت پر راضی کر لیا، میں نے حامی بھر لی، ہم دو گھنٹے بعد دبئی پہنچ گئے، دبئی کی صورتحال اسلام آباد سے یکسر مختلف تھی، ہم جہاز سے اترے، ہم نے اپنے بیگ خود اٹھائے، ہم جہاز سے اکیلے باہر نکلے، ہم امیگریشن کی لائین میں کھڑے ہوئے، ہم نے امیگریشن آفیسر کے سامنے اپنے پاسپورٹ رکھے، میرے دوست کا پاسپورٹ سرخ تھا مگر آفیسر نے اس کے باوجود وہ پاسپورٹ غور سے دیکھا، تصویر میرے دوست کے ساتھ میچ کی، آمد کی وجوہات پوچھیں، کریڈٹ کارڈ چیک کیا اور باہر جانے کا اشارہ کر دیا، میرا پاسپورٹ گرین تھا چنانچہ مجھ سے چند اضافی سوال پوچھے گئے اور آخر میں میرے پاسپورٹ پر مہر لگا کر مجھے بھی باہر جانے کا اشارہ کر دیا گیا۔
ہم باہر نکلے، پاکستانی ایمبیسی نے ہمارے لیے گاڑی بھجوانا تھی، گاڑی نہیں پہنچی، ہم نے ائیرپورٹ سے ٹیکسی لی اور ہوٹل کی طرف روانہ ہو گئے، ہمارے آگے پیچھے اور دائیں بائیں پولیس اور کمانڈوز کی کوئی گاڑی نہیں تھی، ہم ٹریفک کے سمندر میں یک و تنہا سفر کر رہے تھے، ہمیں ہوٹل میں بھی فرنٹ ڈیسک پر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑا، ہم میٹنگ سے لیٹ ہو رہے تھے، ہم نے سامان کمرے میں پھینکا اور میٹرو پر بیٹھ کر میٹنگ کے لیے روانہ ہو گئے، ہم میٹرو میں عام لوگوں کے درمیان کھڑے تھے، ہم نے مال آف دبئی کے اسٹاپ پر اتر کر دوبارہ ٹیکسی لی اور میٹنگ کی جگہ پہنچ گئے، یہ اس دن کا آغاز تھا، ہم دبئی میں تین دن رہے، ان تین دنوں میں ہمیں سرکاری سیکیورٹی، پروٹوکول اور سرکاری گاڑیوں کی ضرورت نہیں پڑی، ہم شہر میں بھی گھومتے رہے، ہم ریستورانوں میں بھی گئے، ہم نے شاپنگ بھی کی، ہم بیچ پر بھی گئے اور ہم نے ڈیزرٹ سفاری بھی لی مگر ہمیں کسی جگہ سیکیورٹی کی ضرورت نہیں پڑی۔
ہم تین دن بعد اپنا سامان خود اٹھا کر جہاز میں سوار ہوئے جہاز اڑا، اسلام آباد پہنچااور ہم نے جوں ہی جہاز سے باہر قدم رکھا، سیکیورٹی اور پروٹوکول دونوں جہاز کے باہر کھڑے تھے، وزیر کے اسٹاف نے جہاز کے اندر آکر ہمارا سامان اٹھایا، اسٹاف آفیسر ہمارے پاسپورٹ لے کر امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا، ہماری گاڑی جہاز کے ساتھ کھڑی تھی اور ہم جوں ہی ائیر پورٹ سے باہر نکلے، سیکیورٹی کی گاڑیوں نے ہماری گاڑی کو نرغے میں لے لیا۔
میں نے اس وقت سوچا ہمارا ملک کون سا ہے؟ دبئی یا پاکستان، ہم اگر پاکستانی شہری ہیں تو پھر ہم اپنے ملک میں اتنے غیر محفوظ کیوں ہیں؟ ہمیں اپنے لوگوں کے درمیان بلٹ پروف گاڑی، کمانڈوز، پولیس فورس اور پروٹوکول کی ضرورت کیوں پڑتی ہے اور اگر دبئی اجنبی ملک ہے تو پھر ہم خود کو وہاں اتنا محفوظ کیوں سمجھتے ہیں، ہم وہاں قطار میں کیوں کھڑے ہو جاتے تھے، ہم وہاں پروٹیکشن کے بغیر ٹیکسیوں اور میٹروز میں کیوں پھرتے تھے، ہم وہاں اکیلے صحرا میں کیوں چلے جاتے تھے، ہم وہاں پیدل کیوں پھرتے ہیں اور ہمیں وہاں اجنبی لوگوں سے ڈر کیوں نہیں لگتا، میں جوں جوں شہر کی طرف بڑھتا رہا، یہ سوال سوئیوں کی طرح میرے دماغ میں چبھتا رہا۔
ہم انسان اجنبی جگہوں، اجنبی شہروں اور اجنبی لوگوں سے گھبراتے ہیں، ہم خود کو اجنبیوں میں غیر محفوظ بھی محسوس کرتے ہیں اور پریشان بھی جب کہ اپنا شہر، اپنے لوگ، اپنے عزیز، رشتے دار اور اپنے دوست ہمیں تقویت دیتے ہیں، امریکی خود کو امریکا میں جتنا محفوظ سمجھے گا یہ کسی دوسرے خطے میں خود کو اتنا کمفرٹیبل نہیں پائے گا، یورپ کے لوگ، جاپان، چین، سنگا پور اور آسٹریلیا کے لوگ بھی خود کو اپنے اپنے ملکوں میں محفوظ اور خوش محسوس کرتے ہیں لیکن ہم لوگ ان سے مختلف ہیں، ہم اپنے ملک میں پریشان ہوتے ہیں، ہم اپنے لوگوں سے ڈرتے ہیں، ہم اپنے بچوں کو ہمسایوں سے ڈراتے رہتے ہیں، ہم خوف کی وجہ سے شاپنگ کے لیے نہیں نکلتے، ہم خود کو ریستورانوں میں بھی غیر محفوظ سمجھتے ہیں، ہم اس وقت تک اطمینان سے نہیں سو سکتے جب تک ہمارے دروازے پر مسلح گارڈ یا چوکیدار نہ ہو، لوگ اب گھروں میں شفٹوں میں سوتے ہیں، آدھے افراد سوتے ہیں اور باقی آدھے ان ہونی سے بچنے کے لیے جاگتے رہتے ہیں۔
یہ غلط ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہمیں برطانیہ، امریکا، جاپان، یورپ اور آسٹریلیا کے شہریوں کی طرح خود کو اپنے ملک میں محفوظ سمجھنا چاہیے اور دوسرے ملکوں میں غیرمحفوظ۔ ہمیں دبئی میں سیکیورٹی کی ضرورت پڑنی چاہیے مگر ایساہوتا نہیں، ہم وہاں محفوظ ہوتے ہیں اور اپنے ملک میں غیر محفوظ، آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ آج کے اخبار پڑھ لیں، آپ یہ خبر پڑھ کر حیران رہ جائیں گے حکومت ختم ہوتے ہی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خاندان کے 26 افراد پاکستان سے دبئی شفٹ ہو گئے۔
ان میں مسز گیلانی سے لے کر ان کی تمام صاحبزادیاں، ان کے خاوند، صاحبزادے اور ان کی بیگمات اور ان کے پوتے، پوتیاں اور نواسے نواسیاں شامل ہیں، یہ لوگ نگراں حکومت کے ممکنہ احتساب اور سیکیورٹی کی کمی کی وجہ سے دبئی شفٹ ہوئے ہیں، ان کو خدشہ ہے نگراں حکومت حج، ایفی ڈرین اور این آئی سی ایل سکینڈلز میں گیلانی صاحب کے صاحبزادوں کو گرفتار کر لے گی اور حکومت کے خاتمے کے بعد گیلانی فیملی کی سیکیورٹی بھی واپس ہو جائے گی اور یوں انھیں سیکیورٹی حصار اور پروٹوکول کے بغیر بدتمیز عوام میں گھومنا پھرنا پڑیگا اور اقتدار زادوں کواس کی عادت نہیں رہی چنانچہ یہ غیر محفوظ ملک سے محفوظ ملک میں شفٹ ہو گئے ہیں اور یہ حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کا پہلا عملی ثبوت ہے، عوام کو اگلا ثبوت اس دن ملے گا جب راجہ پرویز اشرف کا خاندان بھی لندن شفٹ ہو جائے گا۔
رحمن ملک توہین عدالت کی سزا سے قبل بیمار ہو کر کسی انٹرنیشنل اسپتال میں داخل ہو جائیں گے اور قمر زمان کائرہ، مخدوم امین فہیم، سید خورشید شاہ، نوید قمر اور احمد مختار اپنے حلقوں میں واپس نہیں جا سکیں گے۔ یہ ایوان صدر میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے اور بلاول زرداری بھٹو لندن میں بیٹھ کر وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پارٹی کی قیادت کریں گے اور ٹیلی فون پر آنٹیوں اور انکلوں سے خطاب کریں گے اور رہ گئے ڈپٹی وزیراعظم تو یہ بھی اسپین کی راہ لیں گے، یہ ہے جمہوریت کا وہ انتقام جس کے نتیجے میں آج سابق حکومت کا کوئی وزیر اپنے خاندان کو پاکستان میں محفوظ نہیں سمجھ رہا اور یہ وہ "کھپے" تھا جس کا قوم نے پانچ سال تک انتظار کیا، قوم کو یہ کھپے مبارک ہو۔