قیروان شہر میں چند گھنٹے
قیروان تیونس شہر سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے، شہر کی بنیاد حضرت عثمان غنیؓ کے دور میں عقبہ بن نافع نے رکھی اور یہ شمالی افریقہ میں مسلمانوں کا پہلا شہربن گیا، اس مقام کا انتخاب صحابی رسول حضرت ابوزمان البالوئیؓ (Balaoui) نے کیا تھا، آپؓ 654ء میں یہاں تشریف لائے اور بربر قبائل کو دعوت اسلام دی، یہ علاقہ میدانی، گرم اور خشک تھا، لوگوں نے آپؓ سے پانی کی کمی کا شکوہ کیا۔
آپؓ نے اپنے عصاء سے ایک جگہ کی نشان دہی فرمائی، کھدائی ہوئی اور وہاں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا، مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے یہ پانی مکہ مکرمہ کے زم زم کے چشمے سے یہاں آتا ہے، ابوزمانؓ کو نبی اکرم ؐ کی ریش مبارک تراشنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی تھی، آپؓ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک بھی تھے۔
آپؓ کے انتقال پر وہ موئے مبارک آپؓ کے کفن میں رکھ دیے گئے، آپؓ نے بہرحال اپنی عمر عزیز اس گرم اور خشک میدان میں گزار دی تھی، آپؓ کے وصال کے بعد زائرین نے مزار کے گرد انتہائی وسیع اور خوب صورت عمارت تعمیر کر دی، لوگ آپؓ کو "سیدی صحاب" کے نام سے یاد کرتے ہیں، آپؓ سے انتہائی عقیدت رکھتے ہیں، تیونس میں بارہ ربیع الاول "جشن مولود" کے نام سے منایا جاتا ہے۔
یہ تیونس کا سب سے بڑا مذہبی اور ثقافتی تہوار ہوتا ہے اور اس کی اہم ترین تقریب قیروان میں سیدی صحاب کے مزار پر ہوتی ہے، لوگ ان کے مزار کے گرد سات پھیرے تک لگاتے ہیں جو ظاہر ہے بدعت ہے۔
"سیدی صحاب" کا مزار بربری اور تیونسی فن تعمیر کا عظیم شاہ کار ہے، یہ فن تعمیر شام سے تیونس، تیونس سے مراکو اور مراکو سے اسپین گیا اور اس نے تعمیرات کی دنیا پر حیران کن اثرات چھوڑے، مجھے اللہ تعالیٰ نے شام، مراکو اور اسپین جانے کی بار بار توفیق دی لہٰذا میں اس طرز تعمیر سے اچھی طرح واقف ہوں، مراکو کے زیادہ تر گھر اسی طرز پر تعمیر ہوتے ہیں اور یہ ریاد کہلاتے ہیں، سیدی صحاب کا مزار بھی ریاد ہے۔
بیرونی دیواریں پرانی اینٹوں سے بنی ہیں اور ان کی مختلف لیئرز کے درمیان مٹی کی موٹی تہہ ہے، دیواروں پر نیلے اور سفید رنگ کے موزیک ہیں اور خط کوفی سے آیات تحریر ہیں، دیواروں اور چھتوں پر بربر روایات کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔
سیدی صحاب سے ذرا سے فاصلے پر مسجد عقبہ موجود ہے، یہ مسجد عقبہ بن نافع نے بنوائی اور یہ شمالی افریقہ میں پہلی مسجد تھی، مسجد کے ستون بازنطینی محلات اور عبادت گاہیں گرا کر قیروان لائے گئے، انھیں قطاروں میں کھڑا کر دیا گیا، ان پر چھتیں ڈالی گئیں اور یوں مسجد مکمل ہوگئی۔
یہ دنیا کی واحد مسجد ہے جس کے تمام ستون ہیت، رنگ اور سائز میں مختلف ہیں اور یہ مسجد سے پہلے کلیساؤں اور دیوی دیوتاؤں کے مندروں کی سپورٹ ہوتے تھے، ستونوں کے سائز مختلف ہیں لہٰذا انھیں برابر کرنے کے لیے ان کے اوپر لکڑی کے تختے اور تنے لگادیے گئے، برآمدے بازنطینی اسٹائل میں بنائے گئے اور یہ دور سے آیا صوفیہ کے برآمدوں کے بھائی دکھائی دیتے ہیں، مسجد کا منبر دنیا کا قدیم ترین اسلامی منبر ہے۔
یہ 14سو سال سے اللہ کا نامہ بر بن کر یہاں بیٹھا ہے، صحن وسیع اور خوب صورت ہے، چاروں اطراف حجرے ہیں، ان حجروں میں ساتویں اور آٹھویں عیسوی میں مدرسہ قائم تھا اور یہاں مسافر بھی ٹھہرتے تھے، صحن کے فرش پر سفید ماربل لگا ہوا ہے، ماربل تالاب کی طرح تھوڑا تھوڑا جھک کرسینٹر کے ایک نقطے پر اکٹھا ہو جاتا ہے۔
صحن کے وسط میں پانی جمع کرنے کے لیے ایک دل چسپ نظام بنایا گیا ہے، قیروان میں قدرتی پانی نہ ہونے کے برابر تھا لہٰذا مسجد کے معماروں نے صحن میں زیر زمین تالاب بنایا، بارش کا پانی اکٹھا کرنا شروع کیا، اسے فلٹر کرنے کا سسٹم ایجاد کیا اور پھر کنوئیں کے ڈولوں کے ذریعے پانی تالاب سے باہر لا کر نمازیوں کے لیے وضو کا بندوبست کر دیا، مسجد کا مینار شامی میناروں کی طرح چوکور اور نوکیلا ہے اور یہ ماضی میں شہر کے لیے واچ ٹاور کا کام بھی کرتا تھا، یہ بھی بازنطینی عمارتوں کے پتھروں سے بنایا گیا۔
پتھروں پر قدیم تحریریں تک دکھائی دیتی ہیں، مسجد کے بیرونی گیٹ اور دیواریں خوب صورت اور پرہیبت ہیں، یہ چند سیکنڈ میں دیکھنے والوں کے دلوں میں اتر جاتی ہیں، قیروان کا مدینہ چھوٹا لیکن خوب صورت ہے، ہمیں وہاں ایک قدیم کنواں دیکھنے کا اتفاق ہوا، کنواں بیئر بروطہ کہلاتا ہے اور یہ 796ء میں تعمیر ہوا، یہ ایک پتھریلی عمارت میں ہے، آج بھی ورکنگ کنڈیشن میں ہے اور اس سے اونٹ کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے۔
لوگ اس پانی کو بھی آب شفاء سمجھتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے آپ اگر ایک بار یہ پانی پی لیں تو آپ دوبارہ قیروان ضرور آتے ہیں، میں نے ایک گھونٹ پانی پی کر مستقبل میں قیروان میں ایک رات گزارنے کی بکنگ کرا لی، قیروان میں بھی سیدی بو سعید کی طرح سفید اور نیلا رنگ حاوی ہے، گھروں کی دیواریں سفید اور کھڑکیاں نیلی ہیں اور یہ صحرائی ہوا کے ساتھ بہت خوب صورت دکھائی دیتی ہیں۔
قیروان ماضی میں آج کے مقابلے میں زیادہ گرم اور خشک ہوتا تھا، زیر زمین پانی بہت نیچے تھا چناں چہ مسلمانوں نے پانی کی کمی دور کرنے اور زیرزمین پانی کا لیول بڑھانے کے لیے ایک دل چسپ تکنیک استعمال کی، انھوں نے شہر سے دور پہاڑوں کے دامن میں پانی کے درجنوں چینل بنائے، یہ بارش اور ندیوں کا پانی ان چینلز کے ذریعے قیروان لے آئے لیکن کیوں کہ شہر کا درجہ حرارت زیادہ ہوتا تھااور پانی چند دن میں بخارات بن کر اُڑ جاتا تھا۔
مسلمانوں نے اس کا بھی ایک دل چسپ حل نکالا، انھوں نے شہر کے ساتھ بڑے بڑے چالیس تالاب بنادیے، بارش اور ندیوں کا پانی ان تالابوں میں جمع ہونے لگا، اس جمع شدہ پانی سے شہر کا واٹر لیول بھی بلند ہوگیا اور شہر کے لیے ہر موسم میں پانی بھی دستیاب ہونے لگا، پانی کا یہ سسٹم نوریا کہلاتا ہے اور مسلمان یہ شام سے قیروان لے کر آئے تھے، یہ تالاب وقت برد ہو چکے ہیں لیکن ان میں سے دو آج بھی موجود ہیں اور اس وقت عالمی ورثہ ہیں، ہم وہاں بھی گئے اور یہ تکنیک دیکھ کر بڑی دیر تک قیروان کے مسلمانوں کی تعریف کرتے رہے۔
قیروان کا ایک کمال جامعۃ الزیتونہ بھی تھا، مسلمانوں نے ساتویں صدی میں قیروان میں زیتون مسجد بنائی اور اس میں قرآن، فقہ اور فلسفہ کی کلاسز شروع کر دیں، یہ کلاسز شروع میں صرف اعلیٰ خاندان کے بچوں کے لیے تھیں لیکن آہستہ آہستہ ان کا دائرہ پھیلتا چلا گیا اور درس گاہ کے دروازے ہر اہل طالب علم کے لیے کھل گئے۔
دنیا کے نامور مورخ اور سوشل ریفارمر ابن خلدون اسی یونیورسٹی کے طالب علم اور پھر معلم تھے، ان کا بچپن اور جوانی قیروان شہر میں گزری تھی، یہ بعدازاں مراکو کے شہر فاس شفٹ ہو گئے، سلطان کا قرب حاصل کیا اور شاہی خاندان کے اتالیق ہو گئے، یہ فاس شہر کی قدیم یونیورسٹی القروین میں بھی پڑھاتے رہے۔
استاد نے فاس شہر ہی میں اپنی معرکۃ الآراء کتاب تاریخ ابن خلدون لکھنا شروع کی، مجھے فاس میں ابن خلدون کے اس گھر میں چند لمحے گزارنے کا اتفاق ہوا جہاں انھوں نے "مقدمہ" تحریر کی تھی، وہ اپنی سیلانی طبیعت کے ہاتھوں مجبور ہو کر فاس سے قاہرہ اور پھر شام پہنچ گئے، حلب کے بادشاہ کے دربار میں رسائی ہوئی اور وہ سارا دن بادشاہ اور شہزادوں کو تاریخی واقعات سناتے رہتے تھے۔
استاد کی موجودگی میں امیر تیمور نے حلب پر حملہ کر دیا، کھوپڑیوں کے مینار بنانا اور شہر کے شہر جلا دینا امیر تیمور کا مشغلہ تھا، وہ دنیا میں صرف علماء کرام اور فن کاروں کی عزت کرتا تھا، حلب کے لوگ امیر تیمور کی اس عادت سے واقف تھے چناں چہ انھوں نے ابن خلدون کی منت کی، اسے قائل کیا اور پناہ کی درخواست کے ساتھ اسے ٹوکری میں رکھ کر قلعے کی دیوار سے نیچے اتار دیا، امیر تیمور ابن خلدون کے نام سے واقف تھا۔
اس نے اسے فوراً بلا لیا، ابن خلدون نے امیر کا ہاتھ چوما اور اس کی تعریفوں کے پُل باندھ دیے، امیر اس خوشامد سے متاثر ہوا اور ابن خلدون کو اپنے پاس ملازم رکھ لیا، استاد نے حلب اور حلب کے شہریوں پر لعنت بھیجی اور باقی زندگی امیر تیمور کے لیے وقف کر دی، امیر نے اسے مغربی ممالک (شمالی افریقہ) کی تاریخ لکھنے کا حکم دیا، یہ امیر سے اجازت لے کر قاہرہ گیا، چھ برس قاہرہ میں گزارے اور 1406 میں 73 سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔
اس کی زندگی کے آخری ایام کسمپرسی اور جیلوں میں گزرے تاہم وہ جیسے تیسے اپنی کتاب کا چھٹا حصہ مکمل کر گیا، اس کا مزار قاہرہ میں تھا لیکن یہ مزار بیسویں صدی میں سڑک کی توسیع کا لقمہ بن گیا، میں چھ سال قبل اس کی قبر تلاش کرتے کرتے سڑک کے اس کنارے تک پہنچ گیا جہاں وہ اس وقت آسودہ سڑک ہے اور اس کے جسد خاکی کے اوپر سے روزانہ سیکڑوں گاڑیاں گزرتی ہیں لیکن بہرحال وہ ایک عظیم مسلمان اسکالر تھا اور اس کا بچپن قیروان اور زیتونہ یونیورسٹی میں گزرا تھا۔
زیتونہ یونیورسٹی کی لائبریری ایک وقت میں پورے عالم اسلام کی سب سے بڑی لائبریری ہوتی تھی، نیشیا پور سے غرناطہ تک کے طالب علم اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے یہاں آتے تھے مگر بدقسمتی سے یہ لائبریری سولہویں صدی میں اسپینش حملہ آوروں کی نذر ہوگئی تاہم زیتونہ مسجد اور یونیورسٹی آج بھی قیروان میں موجود ہے اور یہ یہاں سے گزرنے والے ہر شخص کو مسلمانوں کے تاب ناک ماضی کی سند دیتی رہتی ہے۔
میں ابن خلدون کا فین ہوں لہٰذا میں نے زیتونہ مسجد کی دیواروں پر ہاتھ پھیرا، اس ہاتھ کو چوما اور آگے روانہ ہوگیا، قیروان اپنی تاریخ، اپنے تاب ناک ماضی اور اپنے سفید اور نیلے رنگوں کے ساتھ ہمارے قدموں میں بچھا ہوا تھا۔