جنگل کا زمانہ
وہ صدر آصف علی زرداری یار اجہ پرویز اشرف کا دور نہیں تھا، اس دور میں ڈیجیٹل کمیونی کیشن بھی نہیں تھی، موبائل فون، انٹرنیٹ، ویڈیو کانفرنسنگ، سیٹلائٹ فون، فیکس اور برق رفتار جیٹ بھی نہیں تھے، اس دور میں ملک کے مختلف علاقے چھوٹے انتظامی یونٹوں میں بھی تقسیم نہیں تھے اور ہر یونٹ دوسرے یونٹ سے منسلک بھی نہیں تھا اور اس دور میں ٹرین، بس اور کار بھی نہیں تھی، وہ پرانا دور تھا جس میں فریادی کو حکومت تک پہنچنے میں کئی سال لگ جاتے تھے اور حکومتی احکامات پر عمل کے لیے اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود بڑھیا شیر شاہ سوری کے دربار تک پہنچ گئی، ظلم کی آگ انسان کو یک سو بھی کر دیتی ہے، اس میں تسلسل بھی پیدا کر دیتی ہے اور اس کو جرأت مند بھی بنا دیتی ہے، بڑھیا کا اکلوتا جوان بیٹا لکڑیاں کاٹنے کے لیے جنگل میں گیا اور اسے کسی نے قتل کر دیا، وہ مقامی ناظم کے پاس گئی لیکن اس نے گواہوں کی غیر موجودگی کارونا رو کر معذرت کر لی، وہ گورنر کے پاس گئی، اس نے بھی مقدمہ داخل دفتر کر دیا چنانچہ بڑھیا جہلم سے پیدل نکلی اور مہینوں کا سفر کرتے ہوئے دارلحکومت پہنچ گئی، شیر شاہ سوری ہفتے کے ایک دن دربار عام لگاتا تھا، اس دن کوئی بھی فریادی اس کے دربار میں پیش ہو سکتا تھا، بڑھیا بھی اپنی باری پر کھڑی ہو گئی۔
بادشاہ نے ماجرا پوچھا، بڑھیا کے سارے دکھ آنسوئوں میں بہنے لگے، وہ روتی رہی، چیختی رہی اور بادشاہ سنتا رہا، پتہ چلا بڑھیا کے بیٹے کو کسی نے جنگل میں مار دیا اور پولیس اور انتظامیہ مجرم کا پتہ نہیں لگا سکی، بادشاہ نے بڑھیا سے وعدہ کیا میں ایک ہفتے میں تمہارے مجرم تمہارے سامنے پیش کروں گا، مدعیہ کو اس کے ساتھ ہی شاہی مہمان خانے میں ٹھہرا دیا گیا، دو دن گزرے تو جہلم کے پولیس چیف اور ناظم کو اطلاع ملی چند لوگ جنگل میں درخت کاٹ رہے ہیں، یہ فوراً فورس لے کر جنگل پہنچ گئے، انھوں نے دیکھا لوگ واقعی دھڑا دھڑ درخت کاٹ رہے ہیں، فورس نے جنگل کاٹنے والوں کو گرفتار کر لیا، چند لمحے بعد شیر شاہ سوری کی فوج جہلم پہنچی اور اس نے ناظم اور پولیس چیف کو گرفتار کر لیا، جنگل کاٹنے والے لوگ بادشاہ کے ملازم تھے، ناظم اور پولیس چیف کو برق رفتار گھوڑوں کے ذریعے دربار تک پہنچایا گیا، بادشاہ نے ان سے صرف ایک سوال پوچھا " جنگل میں لکڑی کاٹی جا رہی تھی تو تمہیں ایک پہر میں اطلاع مل گئی لیکن انسان قتل ہوا تو تمہیں آج تک گواہ نہیں ملا" دونوں نے بادشاہ کے سامنے جھک کر تین دن کی مہلت مانگی، بادشاہ نے حکم لکھوایا یہ اگر تین دن میں مجرم پیش نہیں کرتے تو ان کی گردن اتار کر نعشیں جہلم شہر کے درمیان لٹکا دی جائیں، پولیس چیف اور ناظم واپس بھاگے، مجرم ڈھونڈا اور دربار میں بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا، مجرم نے اعتراف جرم کیا، بادشاہ نے جرم کی وجہ پوچھی، وجہ سن کر سنجیدہ ترین بادشاہ کی ہنسی چھوٹ گئی، بادشاہ نے ہنستے ہنستے مجرم بڑھیا کے حوالے کر دیا اوراس کے ساتھ ہی حکم جاری کیا ہماری سلطنت میں قتل کا مجرم ایک ہفتے کے اندرگرفتار ہونا چاہیے، اگر مقامی انتظامیہ سات دن کے اندر مجرم گرفتار نہیں کرتی تو بادشاہ کے حکم کے مطابق ان کا سر اتار دیا جائے اور نعش شہر میں اس وقت تک کے لیے لٹکا دی جائے جب تک مجرم گرفتار نہیں ہوتا، اس حکم کے بعد شیر شاہ سوری کے دور میں ہندوستان میں کوئی قتل نہیں ہوا اور اگر ہوا تو مجرم دوسرے دن عدالت کے کٹہرے میں تھا۔
یہ آج سے 472 سال پرانی، اس دور کی مثال ہے جب دنیا میں کار تھی، بس تھی اور نہ ہی ٹرین، انتظامی یونٹس بھی ایک دوسرے کے ساتھ منسلک نہیں تھے، ملک بڑے بڑے یونٹس میں تقسیم تھا، دنیا میں برق رفتار جہاز، فیکس مشین، سیٹلائٹ فون، ویڈیو کانفرنس کی سہولت، انٹرنیٹ اور موبائل فون بھی نہیں تھا، ملک میں مجرموں کا ڈیٹا بھی نہیں تھا، انگوٹھے کے نشان، فنگر پرنٹس، ڈی این اے اور فرانزک سسٹم بھی نہیں تھا، دنیا میں ریڈوارنٹ کا سسٹم بھی شروع نہیں ہوا تھا، اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی آنکھ نہیں کھولی تھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں مجرموں کی تحویل کے ایگریمنٹس بھی نہیں ہوئے تھے، پولیسنگ، تفتیش اور مجرم سے اعتراف جرم کے نئے طریقے بھی ایجاد نہیں ہوئے تھے اور شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نہیں لگے تھے اور اس زمانے میں صرف ایک خوبی تھی، اس دور میں راجہ پرویز اشرف، آصف علی زرداری اور نواب اسلم رئیسانی جیسے لوگ حکمران نہیں تھے، اس دور میں ہندوستان کی حکومت شیر شاہ سوری جیسے وژنری، انصاف پسند اور ایماندار شخص کے ہاتھ میں تھی اور اس ایک شخص نے پانچ سال میں نہ صرف پورے ہندوستان کی زمین کی پیمائش کرا دی بلکہ اس نے مالیے کا وہ شاندار نظام بھی وضع کیا جو آج تک اس خطے میں قائم ہے، اس نے پانچ برسوں میں دنیا کی سب سے بڑی سڑک یعنی جی ٹی روڈ بھی بنا دی، اس نے ہر دس کلو میٹر بعد ایک چھوٹا سا قلعہ، ڈاک خانہ، سرائے اور میٹھے پانی کا کنواں بھی بنوا دیا۔
شیر شاہ سوری نے ہر شہر میں اپنا ناظم اور پولیس چیف (داروغہ) بھی تعینات کر دیا اور اس نے پورے ہندوستان سے جرائم کی بیخ کنی بھی کر دی لیکن آج کے ڈیجیٹل دور میں کوئٹہ میں سو سو لوگ مارے جاتے ہیں لیکن دنیا کی ساتویں جوہری طاقت مجرم گرفتار کر سکتی ہے اور نہ ہی قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ بند کروا سکتی ہے، آپ کوئٹہ میں ہونے والی زیادتی کا ڈیٹا نکال لیجیے، کوئٹہ میں پچھلے چار سال میں 800سے زائدافراد دہشتگردی کا شکار ہوچکے ہیں، 10 جنوری2013ء کو تین بم دھماکے ہوئے، پہلا دھماکہ باچا خان چوک میں ہوا جس میں 25 افراد جاں بحق اور 40 زخمی ہوئے جب کہ اسی روز شام کو علمدار روڈ پردو بم دھماکوں میں 91 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہو ئے جس کے بعد لواحقین 86 لاشیں سڑک پر رکھ کر تین دن تک منفی درجہ حرارت میں بیٹھے رہے، حکومت نے انھیں اٹھانے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے جب اٹھنے سے انکار کر دیا تو بلوچستان میں گورنر راج لگا دیا گیا۔
گورنر راج لگ گیا مگر حالات اس کے باوجود نہ سنبھل سکے یہاں تک کہ 16فروری کوکوئٹہ میں کیرانی روڈ پر ایک بار پھر ہزارہ ٹائون کی مارکیٹ میں ریموٹ کنٹرول بم دھماکے میں 110افراد جاں بحق اور 180 زخمی ہو گئے اور لواحقین ایک بار پھر دھرنا دے کر بیٹھ گئے ہیں، ان کی حمایت میں ملک کے 12سے زائد شہروں میں دھرنے شروع ہو گئے، یہ لوگ کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے بعد صورت حال دلچسپ شکل اختیار کر گئی، بلوچستان کی تمام قوم پرست جماعتیں فوج اور ایجنسیوں کو صورتحال کی خرابی کا ذمے دار قرار دے رہی ہیں جب کہ کوئٹہ کی شیعہ یا ہزارہ کمیونٹی فوج کو نجات دہندہ سمجھ کر اقتدار اس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے اور حکومت اور اپوزیشن اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں بیٹھ کر مرضی کی کیئر ٹیکر حکومت بنانے اور الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے، ملک کی چھوٹی بڑی جماعتیں میٹرو بس کی مذمت کر رہی ہیں، یہ میاں شہباز شریف کا احتساب کرنے کے مطالبے کر رہی ہیں لیکن کوئٹہ میں مرنے والے ہزارہ کے لیے کوئی بات نہیں کر رہا، لوگ لشکر جھنگوی کو اس قتل و غارت کا ذمے دار قرار دے رہے ہیں، ہو سکتا ہے یہ کام خفیہ طاقتیں ملک میں شیعہ اور سنی فساد کرانا چاہتی ہوں تا کہ ملک میں خانہ جنگی شروع ہو جائے اور ہمارے دشمن اس خانہ جنگی کا فائدہ اٹھاسکیں، یہ کوئی نہیں سوچ رہا دنیا کو اس قسم کے واقعات کے ذریعے یہ پیغام دیا جا رہا ہے پاکستان میں ریاست نام کی کوئی چیز موجود نہیں، اس ملک میں نوے نوے لاشیں سڑکوں پر پڑی رہتی ہیں مگر ریاست اور حکومت اقتدار کے مزے لوٹتی رہتی ہے، یہ لوگ نگران حکومتوں کے لیے سیاست بازی کرتے رہتے ہیں اور یہ بات غلط بھی نہیں کیونکہ اگر ریاست کسی ایک شہر کی کسی ایک کمیونٹی کو نہیں بچا سکتی۔
اگر ریاست بم دھماکے، خود کش حملے اور ٹارگٹ کلنگ نہیں روک سکتی تو پھر اس کے ہونے کا کیا فائدہ؟ آپ کراچی میں سڑکوں پر محفوظ نہیں ہیں اور آپ کوئٹہ میں گھر، اسکول، دفتر اور مارکیٹ میں مار دیے جاتے ہیں اور ریاست لوگوں کو کراچی میں بچا سکتی ہے اور نہ ہی کوئٹہ میں، دنیا میں جو خوراک آپ کو توانائی نہ دے، جو پانی آپ کو گیلا نہ کرے اور جو ریاست آپ کو اپنے ہونے کا احساس نہ دلائے وہ ریاست ریاست، وہ پانی پانی اور وہ خوراک خوراک نہیں ہوتی، اگر شہر لوگوں کا تحفظ نہ کر سکیں تو پھر جنگل شہروں سے بہتر ہوجاتے ہیں اور اگر جنگلوں کے دور میں شیر شاہ سوری جیسے بادشاہ ہوں تو جنگلوں کا زمانہ ڈیجیٹل ایج سے بہتر ہو جاتا ہے، یہ ملک اگر جنگل ہے تو کاش اس جنگل کوشیر بھی مل جائے، شیر شاہ سوری! وہ شیر شاہ سوری جوانسانی جان کو آئین، پارلیمنٹ اور نگران حکومت سے زیادہ اہمیت دے، جو انسان کو انسان سمجھے۔