امداد کے منتظر مزید دو ادارے
"مجھے گفٹ نہیں چاہیے، کپڑے بھی نہ دیں، مجھے تو بس"سجادہ"دے دیں، یہ مطالبہ حجاب میں ملبوس چھوٹی سی بچی کر رہی تھی، اس نے ہمیں گرم شال بھی واپس کر دی، مہمت نے بتایا یہ بچی کہہ رہی ہے مجھے جائے نماز چاہیے، میں نے کئی دنوں سے نماز نہیں پڑھی، میں نے فوراً اپنے بیگ سے بچی کو سفری جائے نماز نکال کر دے دی، اس نے اس کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لیا اور اس کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔
اس نے بڑے پیارے انداز میں ہمیں چوک تشکر یعنی بہت شکریہ کہا" یہ تحریر مجھے کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے بانی اور سربراہ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے بھجوائی، ان کا کہنا تھاکسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی ٹیم فروری کے مہینے میں ترکیہ کے زلزلہ زدہ علاقوں میں موجود تھی۔
9 بجے جہاز عدیمان ایئر پورٹ پر اترا، جنوبی ترکیہ کے اس شہر میں زلزلہ کی تباہ کاریاں واضح نظر آ رہی تھیں، ہمیں ہوٹل والوں نے صبح ناشتے کے پیکٹ دیے تھے، میں نے ایئر پورٹ پر ایک بچے کو پیکٹ دینے کی کوشش کی تو وہ ماں کی طرف دیکھنے لگا، ماں نے اثبات میں سرہلایا تو اس نے " تشکر" کہہ کر لے لیا، استنبول سے آنے والا ناشتہ عدیمان کے بچے کے نصیب میں تھا، عدیمان ایئر پورٹ پر دو گھنٹے سے زیادہ رکنا پڑا کیوں کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں جانے کے لیے گاڑیاں نہیں مل رہی تھیں، بڑی مشکل سے گاڑیاں ملیں توہم لوگ ایئر پورٹ سے روانہ ہوئے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے مزید لکھا "ہم ایئر پورٹ سے عدیمان کے علاقے گول باسی(Gol Basi) کے لیے روانہ ہوئے، ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد گول باسی پہنچ گئے، شہر میں داخل ہوتے ہی زلزلہ سے تباہی اور بربادی کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے، ہر طرف تباہی اور بربادی تھی، بڑے بڑے ٹاورز، پلازے، بلند و بالا عمارتیں اور گھر زمین بوس تھے۔
چاروں طرف مٹی، کنکریٹ اور سریے کے ڈھیر لگے تھے، چھ فروری کے زلزلہ میں گول باسی سارے کا سارا تباہ و برباد ہوگیا تھا، میں نے ایک ایسی دس منزلہ عمارت بھی دیکھی جس کی بنیادیں زمین سے نکل گئی تھیں، پوری عمارت ایک طرف جھک کر دوسری عمارت کے سہارے اپنی جگہ سے سرک گئی، اللہ کی قدرت تھی یہ اپنی بنیادوں سمیت ایک طرف جھک گئی، نہ شیشہ ٹوٹا اورنہ پوری عمارت میں کریک آئے۔
مقامی باشندوں نے بتایا عمارت میں رہنے والے تمام لوگ محفوظ رہے، کسی کو کوئی زخم نہیں آیا، اکثر جگہوں پر عمارتوں کے مکین اپنے اپنے گھروں کے سامنے بیٹھے حیرت سے اپنے گھروں کی طرف دیکھ رہے تھے مگر پر عزم تھے کہ ان شاء اللہ وہ دوبارہ سے اپنے گھروں میں آئیں گے، اپنے برباد گھروں کی تعمیر کریں گے، صدر طیب اردگان نے عدیمان آ کر اعلان کیا ان شاء اللہ ایک سال میں ان تمام شہروں کی تعمیر مکمل ہو جائے گی۔
ہم اپنے میزبان مہمت کے ساتھ گول باسی کے زلزلہ زدگان کے خیموں تک گئے، یمنیٰ نے بچوں کے لیے گفٹ بنائے تھے، ترکیہ آنے سے پہلے کی رات نرگس اعوان نے خوب صورت چادریں بھجوائی تھیں، زلزلہ زدہ افراد گول باسی میں کئی مقامات پر خیموں میں موجود تھے۔
وہاں جا کر ان سے اظہار ہمدردی کیا، بچوں میں گفٹ بانٹنے شروع کیے تو وہ کثیر تعداد میں جمع ہو گئے، یمنیٰ، حذیفہ نے بڑی محبت سے بچوں میں گفٹ تقسیم کیے، عورتوں اور لڑکیوں کو چادریں دیں تو وہ خوش ہوگئیں، اسکارف پہنے ایک بچی کو چادر دی تو اس نے کہا کہ میں کئی دنوں سے نماز نہیں پڑھ سکی۔
مجھے جائے نماز (سجادہ) چاہیے، ترکیہ آتے ہوئے بلال مسجد کے مولانا ذوالفقار نے پانچ سفری جائے نمازیں دی تھیں، ترکیہ کی بیٹی کو جائے نماز پیش کی تو اس کے آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس کو دیکھ کر ہماری آنکھیں بھی بھر آئیں، بیٹی نے سرجھکا کر بڑی محبت اور عقیدت سے تشکر کہہ کر شکریہ ادا کیا۔ یمنیٰ اور حذیفہ نے ٹینٹوں میں جا کر مکینوں میں"لیرا " بھی تقسیم کیے۔
وہ جمعہ کا دن تھا، میئر کے کنٹینر دفتر کے قریب ایک بڑے خیمے میں عارضی مسجد بنی ہوئی تھی اور ساتھ ہی بڑا دستر خوان لگا ہوا تھا، جمعہ کی نماز ہو چکی تھی، ڈاکٹر سعید اختر نے خطبہ دیا اور ہم نے ان کی اقتدا میں جمعہ کی نماز ادا کی، 2005 کے زلزلہ کی یاد آگئی جب باغ میں ایسے ہی ایک دن جمعہ کی نماز ادا کی تھی، جمعہ کی نماز کے بعد زلزلہ زدگان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا، زلزلہ زدگان کے اس کیمپ میں صبح و شام گول باسی کے باسی کھانا کھانے آتے ہیں۔
ایک طرف گرما گرم روٹیوں کا تنور لگا ہوا تھا، گرما گرم چائے بھی ملتی ہے، زلزلہ زدگان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا کر بہت اچھا لگا، کھانے کے انتظام کے لیے عطیہ بھی دیا، گول باسی میں اس وقت اگرچہ دھوپ نکل ہوئی تھی مگر آہستہ آہستہ ٹمپریچر کم ہو رہاتھا، ٹھنڈی ہوائیں اور سردی ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی۔
سردی سے بدن پر کپکپی طاری تھی، تھرمل جیکٹ پہن کر کچھ سکون ملا، باہر نکلے تو لوگ ایک جگہ لکڑیاں جلا کر بیٹھے تھے، ان کے ساتھ بیٹھ کر گرما گرم چائے نوش کی تو سردی کی حدت کم ہوئی۔
مغرب کی نماز کے بعد ویبل کنٹینر پہنچ گیا، الحمد للہ کنٹینر خیریت سے ویبل کے ساتھ گول باسی پہنچ گیا، ویبل 22 گھنٹہ سفر کے باوجود ترو تازہ اور ہشاش بشاش تھا، اے ایف اے ڈی اور بلدیہ کے ارکان جمع ہو گئے۔ فوڈ کے کارٹن کنٹینر سے اتار کر ویئر ہاؤس میں رکھوائے گئے، بلدیہ کے میئر کا دفتر زلزلہ کی نذر ہو چکا تھا، وہ زلزلہ زدگان کے ساتھ ایک کنٹینر میں اپنا دفتر لگائے بیٹھے تھے۔
صبح سے رات گئے تک زلزلہ زدگان کی خدمت میں مصروف رہتے تھے، آرام نہیں کرتے تھے، کہنے لگے جب سب زلزلہ زدگان سیٹل ہو جائیں گے تو آرام کروں گا، میئر کے دفتر کے ارکان نے کہا، ہم ترتیب کے ساتھ فوڈ کے کارٹن زلزلہ زدگان کے خیموں تک پہنچائیں گے، یمنیٰ نے زلزلہ زدگان کے لیے ایمرجنسی ادویات کے پیکٹ تیار کروائے تھے، وہ بھی میئر کے حوالے کر دیے، رات گئے کئی زلزلہ زدگان آ گئے۔
فوڈ کے کارٹن ان کے حوالے کیے تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے، اے ایف اے ڈی اور بلدیہ گول باسی کے لوگ ایک انگیٹھی کے گرد جمع تھے، ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیں، زبان یار ترکی کہ من دانم کے باوجود اشاروں، کنایوں اور مسکراہٹوں سے تبادلہ خیال کیا، نوجوان لڑکوں نے ہمارے ساتھ سیلفیاں بنوائیں، بلدیہ کے ارکان خاص کر نوجوان لڑکے ہمارے ساتھ فوٹو اور سیلفیاں بنوا کر خوش ہوتے رہے۔
گول باسی کے مضافات میں پھرتے ہوئے تباہی دیکھ کر دل بہت رنجیدہ ہوا مگر قربان جائیں ان لوگوں کے جہاں بھی کیمپ میں گئے۔ متاثرین کی خدمت میں حقیر نذرانے پیش کیے، لوگ بڑی محبت اور اپنائیت سے ملے، تشکر کہہ کر چہرے پہ مسکراہٹ کے ساتھ شکریہ ادا کیا۔ میئر نے ہماری رہائش کا انتظام ایک گھر میں کیا تھا، یہ زلزلہ سے متاثرہ گھر تھا، گھر کے مکین کسی اور جگہ شفٹ ہو گئے تھے۔
گھر زلزلہ سے سرکا ہوا تھا، شروع میں ڈر لگا کیوں کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری تھا تاہم اللہ کا نام لے کر آیت الکرسی پڑھ کر چاروں طرف پھونک ماری، بچوں پہ دم کیااور لیٹ گئے، وہ رات آرام سے گزر گئی۔
یہ کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی ترکی کے زلزلہ زدہ علاقے میں خدمت کی معمولی سی کوشش کی روداد تھی، ملک میں یا بیرون ملک جب بھی کوئی آفت آتی ہے کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی ٹیم آفت زدہ علاقوں میں پہنچ کر خدمت اور علاج میں مصروف ہو جاتی ہے، یہ لوگ تھرپارکر سندھ میں میٹھے پانی کے 1500 کنوئیں کھدوا کر وہاں گرین فام بنواچکے ہیں جن کی وجہ سے وہاں لہلہاتے گرین فارمز پر پنجاب کے کھیتوں کا گمان ہوتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ سال سیلاب کے فوراً بعد کسٹم ہیلتھ کیئر سوسائٹی کی ٹیموں نے فوری طور پر ریلیف اشیاء کے کئی ٹرک بھجوائے، خیمہ بستیاں بنوائیں اور ہزاروں مریضوں کا علاج کیا۔ یہ لوگ اب سیلاب زدہ علاقوں میں 1000 گھر تعمیرکر رہے ہیں، یہ بھی ایک جینوئن ادارہ ہے، آپ کے عطیات یہاں بھی محفوظ رہیں گے، آپ درج ذیل اکاؤنٹ میں اپنی زکوٰۃ اور عطیات جمع کرا سکتے ہیں۔
اکاؤنٹ ٹائٹل: کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی(Customs Health Care Society)
اکاؤنٹ نمبر 4011311614۔ برانچ کوڈ: 1887
آئی بین: PK76NBPA1887004011311614
سوئفٹ کوڈ: NBPAPKKA02L
نیشنل بینک آف پاکستان، مون مارکیٹ، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور
آپ کی امداد کا مستحق دوسرا ادارہ غوثیہ کالج مظفرگڑھ ہے، یہ 12 سال سے مظفرگڑھ میں چوتھی جماعت سے لے کر ایم اے تک 600 سے زائد غریب، یتیم اور نادار طلباء و طالبات کو تعلیم، کتابیں، یونیفارم، تین ٹائم کھانا، رہائش، اسٹیشنری اور علاج معالجہ فراہم کر رہا ہے، یہ وہ طلباء و طالبات ہیں جو اخراجات اور تعلیمی اسباب نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے تھے۔
ادارے میں طلباء و طالبات کے لیے علوم عصریہ کے ساتھ ساتھ حفظ، ناظرہ اور علوم شریعہ کی کلاسز کا اہتمام بھی ہے، بچیوں کے لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی کے ہنر کی تعلیم بھی دی جاتی ہے، اب تک سیکڑوں یتیم و نادار طلباء و طالبات سند فراغت حاصل کرکے مفید زندگی گزار رہے ہیں۔
ادارہ 75 رومز پر مشتمل ہے، طلباء و طالبات کے لیے الگ الگ کیمپس ہیں اور یہ تمام تر سہولیات سے آراستہ ہے، کراچی کے ایک بزرگ حاجی عبدالرزاق صاحب اس ادارے کی مکمل سر پرستی کرتے تھے، ان کے انتقال کے بعد معروف کالم نگار اور سابق سیکریٹری تعلیم ڈاکٹر صفدر محمود صاحب نے مکمل سرپرستی فرمائی، ان کے انتقال کے بعد ادارے کے مالی حالا ت بہت پیچیدہ ہیں۔
فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ادارہ مالی مشکلات کا شکار ہے اور 600 سے زائد یتیم و نادار بچوں کا مستقبل خطرے میں ہے، ادارے کے ماہانہ اخراجات جن میں راشن، تنخواہیں، بجلی کے بلز وغیرہ شامل ہیں 10 لاکھ روپے سے زائد ہیں، مخیر حضرات اپنی زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے اس ادارے کی معاونت بھی کر سکتے ہیں۔
پرنسپل ڈاکٹر محمد طارق، رابطہ نمبر: 0300-3312052
Account Title: GHOUSIA COLLEGE MUZAFFA RGARH
Bank of Punjab
Account number: 6020165747500028
IBAN: PK25BPUN6020165747500028