ہم انکار نہیں کر سکیں گے
آپ کو یمن سعودی عرب ایشو اور پاکستان کی مجبوری سمجھنے کے لیے تھوڑا سا ماضی میں جانا ہو گا، آپ چند لمحوں کے لیے 1999ء میں آ جائیے۔
8مئی 1999ء کو کارگل کی پہاڑیوں پر قبضہ ہوا جس کے بعد پاک فوج اور بھارتی فوج میں لڑائی شروع ہوگئی، جنگ میں ایک ایسا موقع آیا جب امریکی مصنوعی سیاروں نے سی آئی اے اور پینٹا گان کو اطلاع دی، پاکستان اپنے جوہری ہتھیار اور میزائل سرحد پر منتقل کر رہا ہے، امریکا نے اس اطلاع کے بعد خطے میں براہ راست مداخلت کا فیصلہ کر لیا، امریکی صدر بل کلنٹن اور میاں نواز شریف کے درمیان رابطہ ہوا اور میاں نواز شریف 4 جولائی 1999ء کو واشنگٹن روانہ ہو گئے۔
میاں صاحب امریکا پہنچے تو بروس ریڈل اسٹوری میں داخل ہوا، بروس ریڈل 1999ء میں ساؤتھ ایشیا ایشوز پر بل کلنٹن کے معاون خصوصی تھے، یہ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں ساؤتھ ایشیا کے سینئر ڈائریکٹر بھی تھے۔ میاں نواز شریف اور بل کلنٹن کے درمیان وہائٹ ہاؤس کے بلیئرہاؤس میں ملاقات ہوئی، بروس ریڈل ملاقات کے دوران وہاں موجود رہا، یہ ملاقات کے نوٹس بھی لیتا رہا۔
امریکی صدر نے ملاقات کے دوران بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو جگایا، پاکستان اور بھارت کے وزراء اعظم کے درمیان بات چیت کرائی اور پاکستان سے کارگل سے فوجیں ہٹانے کا وعدہ لیا، بروس ریڈل نے 2002ء میں بل کلنٹن اور میاں نواز شریف کی اس ملاقات کے بارے میں American Diplomacy and the 1999 Kargil Summit at Blair House کے ٹائٹل سے ایک طویل مضمون لکھا، یہ مضمون آج بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے۔
یہ چشم کشا مضمون تھا، آپ کو اس مضمون میں اپنی قیادت کے اعصاب اور معیار کا اندازہ ہوتا ہے، میں مضمون میں درج بروس ریڈل کے تین تاثرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں، بروس ریڈل نے مضمون کے آٹھویں صفحے پر لکھا "نواز شریف اپنی بیگم اور بچوں کو واشنگٹن ساتھ لائے تھے، یہ وزیراعظم کی پریشانی کا اشارہ تھا، ان کا خیال تھا یہ اس ملاقات کے بعد شاید پاکستان واپس نہ جا سکیں یا پھر فوج نے انھیں ملک چھوڑنے کا اشارہ دے دیا تھا" بروس ریڈل نے صفحہ 9 پر انکشاف کیا " مجھے امریکا میں سعودی عرب کے سفیر پرنس بندر بن سلطان نے بتایا، نواز شریف نے ان سے ملاقات بھی کی۔
نواز شریف دو معاملات پر بہت پریشان تھے، ایک، اپنے اقتدار اور دوسرے آرمی چیف کی طرف سے دھمکی۔ آرمی چیف وزیراعظم کو کارگل پر سخت موقف اختیار کرنے پر مجبور کر رہے تھے"۔ بروس ریڈل نے صفحہ 15 پر لکھا " میاں نواز شریف نے ستمبر 1999ء میں اپنے بھائی شہباز شریف کو واشنگٹن بھیجا، ہم ملاقات کے دوران شہباز شریف سے یہ جاننے کی کوشش کر رہے تھے وزیراعظم مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہم سے کیا چاہتے ہیں جب کہ میاں شہباز شریف صرف یہ ڈسکس کررہے تھے، امریکا ان کے بھائی کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کیا مدد کر سکتا ہے"۔
آپ میاں نواز شریف کے صرف اس امریکی دورے کا تجزیہ کریں تو آپ کو پاکستانی سیاست میں امریکا اور سعودی عرب کے موجودہ عمل دخل کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا، کارگل پر میاں نواز شریف اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا، میاں صاحب واشنگٹن گئے، صدر بل کلنٹن اور سعودی سفیر بندر بن سلطان سے ملاقات کی اور بل کلنٹن اور پرنس بندر بن سلطان نے انھیں جان اور خاندان کی سلامتی کی یقین دہانی کرائی۔
جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو "ٹیک اوور" لیا، میاں نواز شریف خاندان سمیت گرفتار ہوئے، مقدمات قائم ہوئے اور یہ بڑی تیزی سے بھٹو جیسے انجام کی طرف بڑھنے لگے لیکن پھر میاں نواز شریف کے ضامن آگے بڑھے، بل کلنٹن نے اپنی بائیو گرافی میں لکھا "میں نواز شریف کو بچانے کے لیے پاکستان گیا اور جنرل مشرف سے ملاقات کی" جب کہ بروس ریڈل نے ایک دوسرے مضمون میں لکھا، میں نے شریف کی جان بخشی کے لیے پرنس بندر بن سلطان کی مدد لی۔
سعودی عرب کے شاہ فہد نے زور لگایا اور جنرل پرویز مشرف مان گئے، تحریری معاہدے کا وقت آیا تو سعودی عرب نے لبنان کی حریری فیملی کو آگے کر دیا، ہوا بازی پر وزیراعظم کے موجودہ خصوصی مشیر شجاعت عظیم اس وقت حریری خاندان کے ذاتی پائلٹ تھے، شجاعت عظیم نے خصوصی کردار ادا کیا۔
جنرل پرویز مشرف اور میاں نواز شریف کے درمیان دس سال کا معاہدہ طے پایا اور میاں نواز شریف 10دسمبر 2000ء کو سعودی شاہ کے خصوصی طیارے پر حجاز مقدس چلے گئے اور سات سال سعودی میزبانی کا لطف اٹھاتے رہے، بل کلنٹن کی جنوری 2001ء میں صدارتی مدت ختم ہوئی، یہ آکسفورڈ میں لیکچر دینے گئے، بل کلنٹن نے وہاں تقریر کے دوران انکشاف کیا " میں نے نواز شریف سے وعدہ کیا تھا اور میں نے صدارتی مدت ختم ہونے سے پہلے یہ وعدہ پورا کر دیا"۔
آپ یہ کہانی چند لمحوں کے لیے یہاں روکیں اور متحدہ عرب امارات اور بے نظیر بھٹو کے تعلقات کی نوعیت ملاحظہ کریں، محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1999ء میں ملک چھوڑا، پاکستان میں ان کے خلاف کرپشن، منی لانڈرنگ اور اختیارات سے تجاوز کے درجنوں مقدمات قائم تھے، یہ پاکستان سے نکلیں اور دوبئی کو اپنا مستقل گھر بنا لیا، یہ 8 سال دوبئی میں مقیم رہیں۔
میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف محترمہ کے لیے یو اے ای پردباؤ ڈالتے رہے لیکن یو اے ای کا حکمران محترمہ کو سپورٹ کرتا رہا، جنرل مشرف کو 2007ء میں فارغ کرنے اور محترمہ کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ ہوا توجنرل مشرف اور محترمہ کے درمیان یو اے ای کے ذریعے این آر او کروایا گیا، جنرل مشرف خصوصی طیارے پر ابوظہبی آئے اورمحترمہ سے ملاقات ہوئی، متحدہ عرب امارات اس معاہدے کا ضامن تھا، آصف علی زرداری بھی 2004ء میں جیل سے رہا ہو کر دوبئی آ چکے تھے، محترمہ پاکستان آئیں اور 27 دسمبر 2007ء کو شہید کر دی گئیں۔
آصف علی زرداری پاکستان آئے اور عنان اقتدار سنبھال لی، آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کے خلاف مواخذے کا فیصلہ کیا، جنرل مشرف نے زرداری اور نواز شریف کے ضامنوں سے رابطہ کیا، امریکا، برطانیہ، سعودی عرب اور یو اے ای ایکٹو ہوئے، جنرل مشرف کا میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سے معاہدہ ہوا، جنرل مشرف نے صدارت سے استعفیٰ دیا اور یہ بھی دوبئی اور لندن کے باسی ہو گئے، سعودی شاہی خاندان ان کا کیئر ٹیکر ہو گیا۔
جنرل مشرف نے لندن میں 1۔ 3 ملین پاؤنڈ کا فلیٹ خریدا، فلیٹ کی قیمت یو اے ای کے ایک شہزادے نے ادا کی، شاہ عبداللہ آخری وقت تک جنرل مشرف کے سپورٹر رہے، حکومت نے 2008ء میں جنرل کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا تو شاہ عبداللہ نے جنرل کیانی کو ریاض طلب کیا اور ان سے کہا " مشرف میرا صدر ہے اسے کوئی تکلیف ہوئی تو میں اپنا ذاتی جہاز بھجوا کر اسے اسی محل میں رکھوں گا جہاں میں نے نواز شریف کو رکھا تھا" یہ پیغام صدر زرداری صاحب کو بھی دیا گیا، آپ کو یاد ہو گا۔
چوہدری نثار نے 2009ء میں قومی اسمبلی میں جیب سے ایک کاغذ نکالا اور لہراکر کہا " یہ ہے آرٹیکل سکس کا وہ مسودہ جس کے تحت ہم جنرل مشرف کے خلاف کارروائی کریں گے"۔ یہ کاغذ لہرانے کے چند دن بعد برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ پاکستان آئے، لاہور میں جاتی عمرہ میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور میاں نوازشریف جنرل مشرف ایشو پر خاموش ہو گئے۔
پاکستان میں تین مضبوط ترین سفیر ہوتے ہیں، امریکی سفیر، برطانوی سفیر اور سعودی سفیر، آپ کو یقین نہ آئے تو آپ انٹرنیٹ پر سعودی سفیر کی دعوت کی تصویریں نکال کر دیکھ لیں، سعودی سفیر عبدالعزیز الغدیر نے27 اگست 2009ء کو پاکستانی سیاستدانوں کو افطار ڈنر پرمدعو کیا، اس دعوت میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی سمیت وہ تمام لوگ موجود تھے جو عام حالات میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنا بھی مناسب نہیں سمجھتے، نواز شریف بھی وہاں تھے اور چوہدری شجاعت بھی، آج بھی سعودی عرب، امریکا اور یو اے ای جنرل مشرف کے ضامن ہیں اور یہ اس ضمانت کا کمال ہے۔
جنرل مشرف آرٹیکل سکس کی کارروائی کے باوجود کراچی میں آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں اور میاں نوازشریف کوشش کے باوجود ان کا بال تک بیکا نہیں کر سکتے۔ آپ پاکستانی معاشرے پر بھی سعودی عرب کی نوازشات فراموش نہیں کر سکتے، ہم نے افغان جہاد سعودی عرب کے پیسے سے لڑا تھا، ہمارے نیو کلیئر پروگرام میں سعودی عرب کی معاونت تھی، سعودی عرب نے ایٹمی دھماکوں کے بعد تین سال تک پاکستان کو مفت پٹرول دیا، سعودی عرب سے زکوٰۃ اور صدقات بھی آتے ہیں اور یہ مدارس میں تقسیم ہوتے ہیں۔
ہمارا سعودی عرب سے فوجی تعاون بھی چل رہا ہے، پاکستان کے سیاستدانوں بزنس مینوں، بیوروکریٹس اور سابق فوجی افسروں نے یو اے ای میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، پاکستان میں دوبئی سے روزانہ 29فلائٹس آتی اور جاتی ہیں، کراچی میں ایسے بزنس مین بھی ہیں جو صبح پاکستان آتے ہیں اور رات کو واپس دوبئی چلے جاتے ہیں اور ہمارے 30 لاکھ ہنرمند عرب ممالک میں کام کر رہے ہیں۔
یہ ساری مجبوریاں مل کر کیا بتاتی ہیں، یہ بتاتی ہیں، ہم چوں کریں یا چاں کریں ہمیں بہر حال سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہونا پڑے گا، ہمارے حکمران زیادہ دیر تک سعودی عرب کے سامنے انکار نہیں کر سکیں گے، آج مولانا فضل الرحمن جو فرما رہے ہیں کل ملک کے تمام سیاستدان یہی فرمائیں گے۔
ہم سعودی عرب کی بات مانیں گے، ہم اپنی فوج گلف بھجوائیں گے اور ہم نے اگر انکار کیا تو پھر ہمیں واقعی بھاری قیمت چکانا ہو گی اور اس قیمت کا آغاز نواز شریف، آصف علی زرداری اور جنرل مشرف سے ہو گا، کیا ہم یہ سزا بھگت لیں گے، ہم عوام شاید یہ بھگت لیں لیکن ہمارے حکمران نہیں بھگت سکیں گے، کیوں؟ کیونکہ یہ دوبئی اور سعودی عرب کے محلات کے دروازے بند نہیں ہونے دیں گے۔
یہ امریکا اور برطانیہ کے ائیر پورٹس پر اپنی انٹری بھی "بین، نہیں ہونے دیں گے لہٰذا ہو گا کیا؟ ہو گا یہ حوثی باغیوں کی طرف سے مکہ مدینہ پر حملے کا ایک جعلی بیان آئے گا اور پاکستانی حکومت کو سعودی عرب کی مدد کا جواز مل جائے گا، ہم سعودی عرب کی مدد کریں گے اوریوں ہمارا تیسرا ہمسایہ ایران بھی ہم سے ناراض ہو جائے گا، ہم ایک اور جنگ میں گر جائیں گے، آخری جنگ میں، ہمیں یہ جنگ بالآخر لڑنا ہو گی کیونکہ بھکاری قوموں کے پاس کبھی دوسرا آپشن نہیں ہوا کرتا، ہمارے پاس بھی دوسرا آپشن نہیں۔