دو دانت ہمارا قرضہ اتار سکتے ہیں
مہاتما بودھ 483 قبل مسیح میں اترپردیش کے شہر کوشی نگر میں انتقال فرما گئے، ہندوستان اس وقت آٹھ ریاستوں میں تقسیم تھا، بودھ علماء نے مہاتما بودھ کی راکھ کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا اور یہ آٹھ ریاستوں کے اسٹوپوں میں دفن کر دی، مہاتما بودھ کی راکھ سے ان کے سات دانت ملے تھے، یہ سات دانت بودھ مت کے مقدس ترین اثاثے ہیں، ان میں سے چار ٹیکسلا لائے گئے تھے، یہ ٹیکسلا کیوں لائے گئے؟
وجہ بہت دلچسپ تھی، ٹیکسلا بودھ گیا اور کوشی نگر کے بعد بودھوں کا مقدس ترین شہر تھا، بودھوں نے مہاتما کی زندگی میں یہاں بودھ مت کی پہلی یونیورسٹی بنائی تھی، یونیورسٹی کا سینٹر جولیاں میں تھا جب کہ اس کی فیکلٹیز سوات، پشاور، تخت بھائی اور افغانستان کے شہر بامیان تک پھیلی تھیں، یہ علاقہ گندھارا کہلاتا تھا اور ہنڈ اس کا دارالحکومت تھا، ہنڈ آج بھی آپ کو موٹروے پر پشاور جاتے ہوئے دریائے سندھ سے ذرا پہلے نظر آتا ہے تاہم یہ شہر وقت کے ہاتھوں برباد ہو کر چھوٹا سا گائوں بن چکا ہے۔
سوات بھی اس زمانے میں گندھارا کا حصہ ہوتا تھا، بودھ ازم کے تین فرقے بہت اہم ہیں، مہایانا، ہنیانا(تھیرواڈا) اور تنتریانا(واجریانا)، بودھوں کے تیسرے فرقے تنتریانا نے سوات میں جنم لیا تھا، اس کا بانی پدماسمباوا کا تعلق سوات سے تھا، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی بودھ مت چین، تبت اور کوریا میں ٹیکسلا سے پہنچا تھا، ٹیکسلا کے بھکشو تبت، چین اور کوریا پہنچے اور یہ ان کی کوشش تھی جس کے نتیجے میں ایشیا کے جنوبی ممالک نے بودھ مت قبول کیا۔
بھوٹان میں آج بھی صبح کی عبادت سوات کے نام سے شروع ہوتی ہے، آپ بھوٹان، کوریا، تبت اور سری لنکا جائیں، آپ وہاں سوات کانام لیں لوگ آپ کے ہاتھ چومنے لگیں گے، چانکیہ کا تعلق بھی ٹیکسلا سے تھا، چندر گپت موریہ نے بھی 322 قبل مسیح میں چانکیہ کے ساتھ مل کرٹیکسلا میں موریہ سلطنت کی پلاننگ کی تھی، اشوک اعظم اسی موریہ سلطنت سے تعلق رکھتا تھا اور یہ ہندوستان کا پہلا بادشاہ تھا جس نے 260 قبل مسیح میں بنگال سے لے کر کابل تک پورے برصغیر پر حکومت کی، ٹیکسلا اڑھائی ہزار سال سے بودھ مت کا مقدس ترین شہر چلا آ رہا ہے۔
یہ اس دوران اجڑتا اور آباد ہوتا رہا، یہاں تک کہ یہ مٹی کا ڈھیر بن کر زمین کا رزق بن گیا، جان مارشل نے 1913ء میں ٹیکسلا کے آثار کھودنا شروع کیے اور کمال کر دیا، وہ بودھوں کے مقدس ترین اثاثوں یعنی مہاتما کے چار دانتوں تک بھی پہنچ گیا، جان مارشل نے ایک دانت وائسرائے کو پیش کر دیا اور وائسرائے نے یہ اوڑیسہ میں رکھوا دیا، اوڑیسہ آج بھی اس دانت کی وجہ سے بودھوں کے مقدس ترین مقامات میں شامل ہے، دوسرا دانت چٹا گانگ پہنچ گیا جب کہ باقی دو ٹیکسلا میں ہی رکھ دیے گئے۔
مہاتما بودھ کے باقی تین دانت سفر کرتے کرتے سری لنکا، چین اور تائیوان پہنچ گئے اور یہ بودھوں کی مقدس زیارت گاہ بن گئے، سری لنکا کا دانت کینڈی میں ہے، یہ سونے کی دیوار کے پیچھے سونے کے صندوق میں رکھا ہے، دنیا کا کوئی شخص اس کی براہ راست زیارت نہیں کر سکتا، ایوب خان نے چٹاگانگ کا دانت جاپان کو گفٹ کر دیا تھا، جاپان کی پوری کابینہ اور بادشاہ نے ایئرپورٹ پر آ کراس دانت کا استقبال کیا تھا اور پورے ملک نے سڑکوں پر کھڑے ہو کر اس کی زیارت کی تھی، وہ دانت کاماکوراشہر میں خصوصی ٹمپل بنا کر رکھ دیا گیا۔
جاپان اس تحفے کی وجہ سے آج بھی پاکستان اور پاکستانیوں کی عزت کرتا ہے یوں پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے پاس مہاتما بودھ کے دو دانت ہیں اور یہ دو مقدس ترین دانت آج بھی ٹیکسلا کے میوزیم میں موجود ہیں، یہ دونوں کتنے مقدس ہیں آپ اس کا اندازہ صرف ایک مثال سے لگا لیجیے، پاکستان یہ دانت 2016ء اور 2018ء میں دو مرتبہ سری لنکا لے کر گیا، لاکھوں لوگوں نے ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا، صدر اور وزیراعظم نے آ کر یہ وصول کیے اور لاکھوں لوگوں نے قطار میں کھڑے ہو کر ان کی زیارت کی، یہ کتنی بڑی دولت ہیں۔
ہم یہ جانتے ہی نہیں ہیں، ہم یہ بھی نہیں جانتے ٹیکسلا بودھوں کے لیے کتنا اہم ہے، آپ ٹیکسلا میں جولیاں جائیں، آپ کو وہاں مہاتما بودھ کا ایک ایسا مجسمہ ملے گا جس کی ناف میں سوراخ ہے، بودھوں کا عقیدہ ہے جو شخص اس سوراخ میں انگلی ڈال کر شفاء کی دعا کرے وہ صحت یاب ہو جاتا ہے، یہ مجسمہ پوری دنیا میں ایک ہے اوراڑھائی ہزار سال سے جولیاں میں پڑا ہے، جولیاں میں دیواروں میں بڑے بڑے طاق بھی ہیں۔
یہ مانسٹک سیل کہلاتے ہیں اور یہ بودھوں کے لیے اتنے ہی مقدس ہیں جتنا ہمارے لیے ریاض الجنہ، پاکستان کے پاس اس وقت لاکھوں کی تعداد میں بودھ مورتیاں، مجسمے اور مہاتما بودھ کی راکھ بھی ہے، یہ تمام اشیاء اتنی قیمتی ہیں کہ یہ پاکستان کے سارے قرضے اتار سکتی ہیں لیکن ہم ان خزانوں کے باوجود کنگال ہیں، کیوں؟ کیونکہ ہم مارکیٹنگ میں بری طرح ناکام ہیں، ہمیں چیزوں کو بیچنا نہیں آتا، ہم اگر مہاتما بودھ کے یہ دونوں دانت فروخت کر دیں تو پاکستان کا سارا قرضہ ادا ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ظاہر ہے عقل چاہیے اور وہ ہم میں نہیں۔
حکومت ملک میں سیاحت کو انڈسٹری بنانا چاہتی ہے، یہ بہت اچھا فیصلہ ہے، سیاحت اس وقت دنیا کی طاقتور ترین انڈسٹری ہے، دنیا اس سے اربوں ڈالر سالانہ کماتی ہے، فرانس صرف لوہے کے ڈھانچے آئفل ٹاور سے سالانہ 22 ارب ڈالر کما لیتا ہے اور یہ رقم پاکستان کی کل برآمدات کے برابر ہے جب کہ ہم دنیا کے ان دس ملکوں میں شامل ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے رکھا ہے، ہمارے پاس نو ہزار سال کی ہسٹری بھی ہے۔
دنیا کے پانچ بلند ترین پہاڑ بھی ہیں، سمندر بھی ہے، صحرا بھی، میدان بھی، برفستان بھی، گلیشیئرز بھی اور جنگل بھی لہٰذا ہمیں یہ فیصلہ بہت پہلے کر لینا چاہیے تھا تاہم دیر آئد درست آئد لیکن میں کیونکہ دائمی سیاح ہوں چنانچہ میرا خیال ہے ہم روایتی سیاحت میں پٹ جائیں گے، ہمارے ملک میں اچھے بیچ ایریاز ہیں، صاف ستھرے شہر اور نہ ہی پہاڑوں میں انفرااسٹرکچر، ہم بین الاقوامی اسٹینڈر کے ہوٹل اور واش رومز تک نہیں بنا سکے۔
سیکیورٹی کے حالات بھی اچھے نہیں ہیں اور دوسرا سیاحوں کو شام کے وقت ایکٹویٹیز بھی درکار ہوتی ہیں اور ہم مسلمان ملک ہونے کی وجہ سے انھیں یہ ایکٹویٹیز فراہم نہیں کر سکتے، ہمارے خطے میں بھارت، ایران، ازبکستان، تاجکستان، ترکی اور آذر بائیجان جیسے لبرل ملک موجود ہیں، یہ ملک سستے بھی ہیں اور ٹورازم فرینڈلی بھی، ہم روایتی سیاحت میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے لہٰذا ہمارے پاس صرف ایک آپشن بچتا ہے اور وہ آپشن ہے تاریخی اور مذہبی سیاحت، ہم اگر اس پر توجہ دیں تو ہم بڑی آسانی سے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں، پاکستان کے پاس بودھ مت کے مقدس ترین اثاثے ہیں۔
ہم اگر اسلام آباد میں مہاتما بودھ کے دانتوں کا ٹمپل بنائیں اور بودھ دنیا کو دعوت دیں تو لاکھوں سیاح پاکستان آ سکتے ہیں، ہم اسی طرح جاپان، چین، تھائی لینڈ، تائیوان اور کوریا جیسے بودھ ملکوں میں مہاتما بودھ کے دانتوں کی نمائش بھی کر سکتے ہیں اور ہم اس سے بھی کروڑوں ڈالر سالانہ کما سکتے ہیں، ہمارے ملک میں ہندوئوں کے مقدس ترین مقامات بھی ہیں، آپ ٹلہ جوگیاں اور راج کٹاس کو لے لیجیے، یہ دونوں مقامات ہندو پرانوں اور گیتا کا حصہ ہیں، ہردوار ہندوئوں کا یوروشلم ہے، یہ مقام 1947ء میں ٹلہ جوگیاں کے جوگیوں نے ہندوستان جاکر آباد کیا تھا۔
ہم اگر واہگہ سے راج کٹاس تک سیاحتی کوریڈور بنا دیں اور بھارتی زائرین کو دو دن کے لیے فری انٹری دے دیں تو ہم اس سے بھی کروڑوں ڈالر کما سکتے ہیں، سکھر میں دریائے سندھ کے عین درمیان سادھ بیلا کا مندر ہے، یہ مندر بھی ہندوئوں کی مقدس جگہ ہے، ہم یہ بھی سیاحت کے لیے کھول سکتے ہیں، آپ اگر کوسٹل ہائی وے پر کراچی سے گوادر جائیں تو راستے میں ہنگول آتا ہے، یہ 6100 مربع کلو میٹر کا نیچرل پارک ہے، اس میں ہنگلاج ماتا کا مندر ہے، یہ بھی ہندوستان کے قدیم ترین مندروں میں شمار ہوتا ہے، اپریل کے مہینے میں یہاں تیرتھ یاترا ہوتی ہے اور اس یاترا میں چالیس ہزار ہندو آتے ہیں۔
ہم زائرین کی اس تعداد کو چار پانچ لاکھ تک بڑھا سکتے ہیں، سکھ مت کے تمام مقدس مقامات پاکستان میں ہیں، ننکانہ صاحب گرونانک کی جنم بھومی ہے، آپ نے کرتار پور میں انتقال فرمایا، یہ دونوں مقامات گولڈن ٹمپل بن سکتے ہیں، آپ یہ دونوں شہر سکھوں کو فروخت کر دیں یا پھر جدید سہولتیں دے کر یاتریوں کے لیے اوپن کر دیں، چالیس پچاس لاکھ سکھ ہر سال یہاں آ جائیں گے، مہر گڑھ اور موہن جو داڑو بھی سونے کی کانیں ہیں، مہر گڑھ بلوچستان میں ہے اور یہ نو ہزار سال پرانی تہذیب ہے۔
دنیا میں دانت کا پہلا آپریشن اور ہندوستان کی پہلی مورتی مہر گڑھ میں بنائی گئی تھی جب کہ موہن جو داڑو دنیا میں ساڑھے چار ہزار سال پرانا واحد شہر ہے، یہ شہر ہندو مت سے بھی قدیم ہے، یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں اناج کے اجتماعی ذخیرے کا بندوبست کیا گیا اور سوئمنگ پول بنایا گیا، اس میں دو اور تین منزل کے مکانات بھی تھے، یہ تھیوری بھی موجود ہے آسٹریلیا بلوچستان کا حصہ ہوتا تھا، یہ آج سے ہزاروں لاکھوں سال پہلے بلوچستان سے ٹوٹا اور سمندر پر تیرتا ہوا قطب جنوبی کے قریب پہنچ گیا۔
ہم اس تھیوری پربھی کام کر کے بلوچستان کو آسٹریلیا کے لیے کھول سکتے ہیں اور پاکستان میں وار برٹن، جیکب آباد، لائل پور (فیصل آباد)، منٹگمری (ساہیوال)، ایبٹ آباد اور کیمبل پور (اٹک) جیسے گوروں کے بے شمار شہر موجود ہیں، ہم ان شہروں کوبھی پرانی وضع میں تبدیل کر کے یورپی سیاحوں کو متوجہ کر سکتے ہیں، ہم اگر سارا شہر نہیں بدل سکتے تو بھی ہم شہروں کے چند حصوں کو پرانی طرز میں تعمیر کر کے سیاحوں کو ضرور بلا سکتے ہیں اور ہمیں جلد یا بدیر کراچی اور گوادر کے درمیان نئے انٹرنیشنل سیاحتی شہر بھی آباد کرنا پڑیں گے لیکن یہ اتنی جلدی نہیں ہو سکے گاتا ہم ہم فوری طور پر مذہبی سیاحت کھول سکتے ہیں۔
ہمیں اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے ورنہ دوسری صورت میں ہم یہ موقع بھی کھو دیں گے اور آخری تجویز، ہم شاہراہ ریشم کا پاکستانی حصہ بھی کھول سکتے ہیں، سیاح آئیں، شاہراہ ریشم پر سفر کریں اور دوسرے ملکوں میں نکل جائیں، یہ بھی ہمارے ریونیو میں اضافہ کرے گا، باقی جو عمران خان چاہیں، یہ عقل کل ہیں۔