بلا صلاحیت قوم
دیوان سنگھ مفتون متحدہ ہندوستان کے نامور صحافی تھے، یہ ہندوستان میں "ریاست" کے نام سے میگزین نکالتے تھے، یہ اپنے دور کا مشہور رسالہ تھا، مفتون صاحب ہندوستان میں بے باک صحافت کے بانی بھی تھے اور لیڈر بھی، انھوں نے غربت میں آنکھ کھولی، یہ بچپن میں یتیم بھی ہو گئے چنانچہ یہ باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کر سکے، والدہ نے بچپن میں انھیں کپڑے کی دکان پر ملازم کروا دیا، یہ چھوٹی سی دکان تھی، مالک نے اس کا ایک حصہ کسی درزی کو کرائے پر دے رکھا تھا، یہ درزی کوٹ پتلون سینے کا ماہر تھا، شہر کے زیادہ تر رئیس اس سے سوٹ سلواتے تھے، درزی کے گاہکوں میں ایک کنجوس سکھ رئیس بھی شامل تھا، یہ سردار ہمیشہ اس سے کوٹ سلواتا تھا مگر وہ پیسے دیتے وقت حیل و حجت سے کام لیتا تھا، درزی اس سے بہت تنگ تھا مگر اپنی شرافت کی وجہ سے خاموش رہتا تھا، درزی کو ایک بار کسی کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا پڑ گیا، سکھ رئیس کا کوٹ سلنے کے لیے آیا ہوا تھا، یہ مخمل کا انتہائی مہنگا اور خوبصورت کپڑا تھا۔
درزی نے کپڑا اپنے بیٹے کو دیا اور چھٹی چلا گیا، بیٹے نے کوٹ سی دیا، درزی واپس آیا، اس نے کوٹ دیکھا تو اس کے دماغ کو آگ لگ گئی، بیٹے نے کوٹ کے بٹن دوسرے رنگ کے دھاگے سے لگا دیے تھے، درزی نے جوتا اتارا اور بیٹے کو بھر ے بازار میں جوتے مارنا شروع کر دیے، بیٹے نے روتے ہوئے باپ سے کہا " ابا تم مجھے ایسے شخص کی وجہ سے مار رہے ہو جس نے کبھی ہمیں پورے پیسے نہیں دیے" باپ بیٹے کی پشت پر جوتا مار کر بولا " بدبخت مجھے کپڑے کے مالک سے کوئی دلچسپی نہیں، میں کپڑے کی وجہ سے غصے میں ہوں، تمہیں اتنے خوبصورت کپڑے پر بھی رحم نہیں آیا" دیوان سنگھ مفتون نے یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد لکھا، میں نے اس درزی کی بات ہمیشہ کے لیے پلے باندھ لی، میں نے زندگی میں کبھی معاوضے کے لالچ میں کام نہیں کیا، میں نے ہمیشہ کام کو صرف کام سمجھا اور یہ میری کامیابی کا واحد گُر تھا۔ یہ واقعہ پروفیشنل ازم کی ایک مثال ہے، آپ جب تک اپنے کام کو معاوضے، ماحول اور مالکان کے رویے سے الگ نہیں کرتے آپ زندگی میں اس وقت تک پروفیشنل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی کامیاب۔
طارق باجوہ اس وقت ایف بی آر کے چیئرمین ہیں، یہ سن اسی کی دہائی میں سول سروسز اکیڈمی میں زیر تربیت تھے، اکیڈمی کے سربراہ افسروں کو مختلف کام سونپ دیتے تھے، ڈی جی نے طارق باجوہ کو شیروانی سلوانے کی ذمے داری سونپ دی، باجوہ صاحب کے ایک کزن کے پاس امپورٹیڈ کپڑا تھا، یہ کپڑا ذرا سا چمکیلا تھا، یہ دونوں دھنی رام روڈ کے ایک درزی کے پاس گئے، یہ درزی ہندوستان سے ہجرت کر کے لاہور آیا تھا اور شیروانی سینے کا ماہر تھا، باجوہ صاحب نے اسے ناپ دیا اور درخواست کی آپ کپڑے کی چمکیلی سائیڈ اندر کی طرف کر دیں، ماسٹر صاحب نے کپڑا واپس کیا اور کہا، ناں صاحب ناں میں یہ نہیں کر سکتا، میرا نام خراب ہو جائے گا، لوگ کہیں گے درزی اتنا نالائق تھاکہ کپڑا الٹا سی دیا، باجوہ صاحب نے کہا "آپ کو کیا اعتراض ہے، ہم خود الٹا سلوا رہے ہیں اور آپ کو اس کا پورا معاوضہ ملے گا" ماسٹر نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا "صاحب میں تھوڑے سے پیسوں کے لیے اپنے پیشے سے بددیانتی نہیں کر سکتا" یہ پروفیشنل ازم تھا مگر بدقسمتی سے اب ملک کے کسی شعبے میں یہ پروفیشنل ازم دکھائی نہیں دیتا، ملک میں اس وقت ایک کروڑ 45 لاکھ تعلیم یافتہ بے روزگار موجود ہیں مگر آپ کو شہر میں پنکچر لگانے، ٹونٹی ٹھیک کرنے، کرسی میز بنانے، پینٹ کرنے اور ٹائپ کرنے والا نہیں ملتا۔
آپ کو ملک میں اچھا پی اے ملتا ہے اور نہ ہی وفاقی سیکریٹری، پروفیشنل ازم اور مہارت کی حالت یہ ہے حکومت تاریخ میں پہلی بار لاء سیکریٹری کی پوسٹ کے لیے اشتہار دینے پر مجبور ہو گئی، کیوں؟ کیونکہ پوری بیورو کریسی دنیا کی ساتویں جوہری طاقت کو ایک ایماندار اور اہل لاء سیکریٹری فراہم کرنے میں ناکام ہے اور یہ صرف ایک محکمے کا حال نہیں، پوری بیورو کریسی نالائقی کے اس دور سے گزر رہی ہے، مجھے کسی نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا ایک واقعہ سنایا، انھوں نے اپنے پریس سیکریٹری کو پریس ریلیز بنانے کی ہدایت کی، یہ سارا دن لگا رہا مگر شام تک پریس ریلیز نہ بن سکی، حکومت "بیرونی امداد" لینے پر مجبور ہو گئی، ایک صحافی نے مدد کی، یوں حکومت پریس ریلیز جاری کرنے میں کامیاب ہوئی، وزیراعظم نے پریس سیکریٹری بدل دیا، نیا سیکریٹری اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا، وزیراعظم خوش تھے، یہ ان کے مسائل ختم کر دے گا، وزیراعظم نے دو دن بعد اسے بلا کر کہا آپ میری طرف سے میڈیا کو ایک پریس ریلیز جاری کر دیں۔
اس نے حیرت سے پوچھا "سر یہ پریس ریلیز کیا ہوتی ہے" اور وزیر اعظم سر پکڑ کر بیٹھ گئے، ہماری پروفیشنل ازم اور دفتری مہارت کے ایسے ہزاروں واقعات ہیں، آپ ملک میں علم اور دانش کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے، ایک شخص سکھر سے اسلام آباد آیا، اس نے پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ کیا، تین بڑی سیاسی جماعتوں کے نامور سیاستدان اس کے سفارشی بنے، ملک کے چار بڑے سائنسی اداروں نے اس کے کارنامے کی تصدیق کی، ہمارے میڈیا نے اس کی تعریف میں پروگرام کر دیے اور پوری دنیا ہمارے کمال پر قہقہے لگاتی رہی، آپ پروفیشنل ازم کی حالت ملاحظہ کیجیے، میرے پاس چند دن قبل انفارمیشن منسٹری کے چار نوجوان افسر آئے، یہ سی ایس ایس کرنے کے بعد انفارمیشن اکیڈمی میں زیر تربیت تھے، یہ آئے، میرے دفتر میں بیٹھے اور انھوں نے مجھ سے کہا "سر آپ پہلے اپنا تعارف کروا دیں " میں نے ان سے عرض کیا " میں کالم لکھتا ہوں اور ٹی وی پروگرام کرتا ہوں " ان کا اگلا سوال تھا " آپ کس اخبار میں کالم لکھتے ہیں اور کس چینل پر پروگرام کرتے ہیں " میں نے قہقہہ لگایا اور ان سے پوچھا " آپ لوگ اخبار پڑھتے ہیں " انھوں نے انکار میں سر ہلا دیا، میں نے پوچھا "کیا ٹی وی دیکھتے ہیں "۔
انھوں نے جواب دیا "ہماری اکیڈمی کی کیبل کٹ چکی ہے چنانچہ ٹی وی دیکھنے کا موقع نہیں ملتا" میں نے پوچھا " آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں " خواتین خاموش رہیں جب کہ نوجوان بولا "صوفی ز ورلڈ" میں نے عرض کیا " یہ پرانی کتاب ہے آپ نے کوئی تازہ کتاب نہیں پڑھی" میرے سوال پر وہ چاروں ناراض ہو گئے، میرا معاون اس وقت تک میز پر چائے رکھ چکا تھا، وہ چاروں اٹھ کر جانے لگے، میں نے ان سے درخواست کی " آپ چائے پی لیں " خاتون افسر نے چمک کر جواب دیا "ہم نے آپ سے چائے نہیں مانگی تھی" میں نے ان سے معذرت کی، گیٹ تک آیا اور انھیں جھک کر رخصت کر دیا، یہ بیورو کریسی کی نئی پود ہے، یہ آئے گی تو سیکریٹری کی تلاش کے لیے یقینا اشتہار چھاپے جائیں گے۔
یہ حکومت کی صورتحال ہے پرائیویٹ سیکٹر اس سے کہیں زیادہ خوفناک حالت کا شکار ہے، آپ چھوٹی سی جاب کا اشتہار دیتے ہیں، آپ کو چار ہزار سی وی مل جاتے ہیں، آپ ان میں سو لوگوں کو شارٹ لسٹ کرتے ہیں، ان کے انٹرویو کرتے ہیں، ان میں سے تین چار لوگوں کو ٹرائل پر رکھ لیتے ہیں اور یہ چاروں آپ کو چار دن میں تارے دکھا دیتے ہیں، آپ ڈرائیور رکھنا چاہتے ہیں، لوگ دس سال پرانا ڈرائیونگ لائسنس اور ڈرائیونگ سرٹیفکیٹ لے کر آ جائیں گے، آپ اسے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیں، وہ پہلے ہی دن آپ کی گاڑی مار دے گا، آپ کو اگر نسبتاً بہتر ڈرائیور مل گیا تو وہ گاڑی صاف کرنے سے انکار کر دے گا یا گاڑی لے کر اپنے رشتے داروں سے ملاقات کے لیے چلا جائے گا۔
آپ اس کو ڈانٹیں گے تو وہ چابی آپ کی میز پر رکھ دے گا، آپ کے ساتھ اگر یہ نہیں ہوتا اور آپ کو خوش قسمتی سے اچھا ڈرائیور مل گیا تو وہ اسکولوں کی چھٹیوں کے دوران نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ کام کرے گا مگر جوں ہی بچوں کے اسکول شروع ہوں گے وہ چھٹی لے کر گائوں چلا جائے گا اور آپ اسے تلاش ہی کرتے رہ جائیں گے، آپ کا اکائونٹینٹ آپ کی چیک بکس لے کر غائب ہو جائے گا، ریسپشنسٹ فون پر کلائنٹس کے ساتھ بدتمیزی کرے گا، گارڈ اہم مہمانوں کو روک لے گا اور غیر اہم لوگ منہ اٹھا کر آپ کے کمرے تک پہنچ جائیں گے، ملازمین کام عین درمیان میں چھوڑ کر غائب ہو جائیں گے اور آپ سر پیٹ کر رہ جائیں گے، آپ آپریشن کے لیے جائیں گے تو سرجن آپ کا تندرست گردہ نکال دے گا یا صحت مند آنکھ میں لیزر مار دے گا۔
آپ کو غلط انجیکشن لگا دیا جائے گا یا پھر قینچی یا تولیہ آپ کے پیٹ میں سی دیا جائے گا اور آپ خدانخواستہ کسی مکینک کے ہتھے چڑھ گئے تو آپ کے پاس گاڑی بیچنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا اور آپ کسی گھر میں چلے جائیں آپ کو گھر کی چھت اور دیواروں پر سیم ملے گی اور باتھ روموں سے بو آئے گی، یہ ملک کے ماہر ترین مستریوں اور پلمبروں کا کمال ہو گا، یہ کیا ہے، یہ ملک میں پروفیشنل ازم اور مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ہم اس مہارت کی وجہ سے آج اس لیول پر آ گئے ہیں کہ ہمیں لاء سیکریٹری کے لیے باقاعدہ اشتہار دینا پڑ گیا، مجھے خطرہ ہے یہ صورتحال اسی طرح جاری رہی تو وہ وقت آ جائے گا جب ہمیں صدر، وزیراعظم، آرمی چیف اور چیف جسٹس کے لیے اشتہار دینا پڑے گا اور ہم اٹھارہ کروڑ لوگوں کو چیف جسٹس، آرمی چیف، وزیراعظم اور صدر نہیں ملے گا اور اگر ملا تو ہم خود سے کہیں گے ہم اس کے بغیر ہی ٹھیک تھے، ہمیں اس کی کیا ضرورت تھی، کاش ہم لوگوں کو سمجھا سکیں، آپ جب تک دھنی رام روڈ کے درزی کی طرح پروفیشنل نہیں ہوتے آپ اس وقت تک خوش حال اور کامیاب نہیں ہو سکتے۔