اندرون لاہور میں ایک دن
میں لاہور کی محبت میں گرفتار ہوں، میری جوانی لاہور میں گزری۔ میں ایف ایس سی میں فیل ہونے کے بعد بھاگ کر لاہور چلا گیا۔ لاہور میں میرے تین کام ہوتے تھے۔ میں اپرمال سے پیدل چلتا ہوا، روز حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضری دیتا تھا۔ ہومیو پیتھی پڑھتا تھا اور لائبریریوں میں پرانی بوسیدہ کتابیں تلاش کرتا تھا۔ میں نے لاہور میں ایف اے کیا۔ ایف سی کالج میں بی اے کا طالب علم رہا اور پنجاب یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرتا رہا (مکمل نہیں کر سکا)۔ بہاولپور سے صحافت میں ایم اے کیا۔
لاہور واپس آیا اور نوائے وقت سے صحافت شروع کر دی یوں میری عمر کا بڑا حصہ لاہور میں بسر ہوا لیکن میں اس کے باوجود لاہور کو سیاح کی نظر سے نہ دیکھ سکا۔ میں نے جب دنیا دیکھنے کی خواہش میں ملکوں ملکوں پھرنا شروع کیا تو مجھے دنیا کے ہر پرانے شہر میں لاہور یاد آیا اور میں بے اختیار اس شہر کی گلیوں، قلعوں اور محلوں کا لاہور سے تقابل شروع کر دیتا تھا اور پھر یہ سوچ کر شرمندہ ہو جاتا " میں ہزاروں میل دور آگیا لیکن میں نے کبھی لاہور نہیں دیکھا"۔
میں نے گزشتہ اتوار یہ خفت مٹانے کا فیصلہ کیا۔ کامران لاشاری جیسے جادوگر "وال سٹی پراجیکٹ" کے سربراہ ہیں۔ پاکستان میں کامران لاشاری جیسا وژنری، فن دوست اور عملی بیورو کریٹ شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ یہ شخص جہاں جاتا ہے وہاں اپنے دائمی نقش چھوڑ کر آتا ہے۔ میں نے لاشاری صاحب سے رابطہ کیا اور لاشاری صاحب نے مجھے ٹوریسٹ گائیڈ دے دیا۔ جاوید صاحب وال سٹی پراجیکٹ میں سینٹر ٹورازم آفیسر ہیں۔ یہ خود کئی نسلوں سے پرانے لاہور کے باسی چلے آ رہے ہیں لہٰذا یہ اندرون لاہور کی انچ انچ سے واقف ہیں۔ میں اور قاسم علی شاہ سیاح کی حیثیت سے جاوید صاحب کی معیت میں اندرون لاہور میں داخل ہو گئے۔
ہم نے اپنا سفر دلی دروازے سے شروع کیا۔ لاہور کا قلعہ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے 1584ء میں تعمیر کرایا۔ اکبر نے قلعہ کے ساتھ ساتھ شہر کی حفاظت کے لیے 9 میٹر بلند دیوار بھی بنوائی۔ لاہور انگریز کے دور تک اس دیوار کے اندر تک محدود تھا۔ لاہور کی اسی فیصد آبادی دیوار کے اندر رہتی تھی۔ دیوار میں بارہ دروازے تھے۔ یہ بارہ دروازے لاہور میں داخلے اور خروج کا ذریعہ ہوتے تھے۔ بارہ میں سے چھ دروازے قائم ہیں۔ باقی دروازے وقت کے بہتے دریا کی نذر ہو چکے ہیں۔ دلی دروازہ آج بھی اپنی آن۔ شان اور بان کے ساتھ قائم ہے۔
یہ ایک دو منزلہ وسیع ڈیوڑھی ہے۔ انگریز کے دور میں نچلی منزل میں کوتوالی (تھانہ) تھی جب کہ بالائی منزل میں مجسٹریٹ کی عدالت اور رہائش گاہ تھی۔ لاہور کے زیادہ تر مقدمے اس ڈیوڑھی میں نبٹا دیے جاتے تھے۔ دلی دروازے کی بالائی منزل پر آج کل بچیوں کا اسکول قائم ہے۔ اکبر نے دلی دروازے کے ساتھ مصالحہ جات اور اناج کی منڈی بھی آباد کرائی۔ یہ منڈی آج 430 سال بعد بھی قائم ہے۔ یہ اکبری منڈی کہلاتی ہے اور یہ برصغیر کی مصالحہ جات کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ دلی دروازے سے شاہی گزر گاہ شروع ہوتی ہے۔ یہ بادشاہوں، شہزادوں اور شہزادیوں کی گزرگاہ تھی۔ گلی کے دونوں اطراف مغل دربار سے وابستہ امراء اور روساء کے محلات اور حویلیاں ہوتی تھیں۔ حویلیوں کے آثار آج تک موجود ہیں۔ کامران لاشاری نے گلی، محلات اور مکانات کی تزئین و آرائش کرا دی ہے۔
آپ جوں ہی گلی میں قدم رکھتے ہیں۔ آپ پانچ سو سال پیچھے چلے جاتے ہیں اور آپ کو اپنے دائیں بائیں گھوڑے ہنہناتے۔ ہاتھی چنگاڑتے اور پازیبیں بجتی سنائی دیتی ہیں۔ یہ گلی۔ یہ دروازہ شاہ جہاں کے درویش صفت شہزادے داراشکوہ کو بھی بہت پسند تھا۔ وہ روز فجر کے وقت اسی دروازے سے نکل کر حضرت میاں میرؒ کی درگاہ تک پیدل جاتا تھا۔ داراشکوہ نے گجرات کاٹھیا واڑ سے سرخ پتھر منگوایا اور یہ پتھر شاہی گزر گاہ سے حضرت میاں میرؒ کی درگاہ تک سارے راستے میں لگوا دیا۔ یہ راستہ پانچ کلومیٹر طویل تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر نے شہزادہ داراشکوہ کو30 اگست 1659ء میں قتل کرا دیا۔
لاہور کے لوگ شہزادے سے محبت کرتے تھے۔ یہ لوگ سوگ میں چلے گئے۔ بادشاہ نے دارا شکوہ کی زمین جائیداد نیلام کی۔ شاہی گزرگاہ سے حضرت میاں میرؒ تک سرخ پتھر اکھاڑہ اور داراشکوہ کی دولت اور راستے کے سرخ پتھر سے لاہور کے شاہی قلعے کے سامنے 1674ء میں مسجد اورنگ زیب بنوا دی۔ یہ مسجد آج تک قائم ہے اور لاہور کی شاہی مسجد کہلاتی ہے لیکن یہ بعد کی باتیں ہیں۔ ہم نے ابھی پچھلے زمانے کھوجنے ہیں۔
اکبر اعظم لاہور کا آرکیٹیکٹ تھا۔ اس نے لاہور میں قیام کے دوران شاہی قلعہ بھی بنوایا۔ لاہور کے گرد دیوار بھی تعمیر کروائی اور لاہور کے مضافات میں نئی بستیاں بھی آباد کیں۔ اکبر نے قلعے سے چار کلومیٹر دور دھرم پورہ اور خیر پورہ دو نئی آبادیوں کی بنیاد رکھی۔ دھرم پورہ میں ہندو آباد تھے جب کہ خیر پورہ میں یہودی۔ پارسی اور مسلمان آباد کیے گئے۔ خیر پورہ میں پارسیوں کا آتش کدہ بھی بنوایا گیا۔ اکبر کے نورتنوں میں شامل ابوالفصل آتش کدہ کا نگران تھا۔ اکبر کا رتن ٹورڈرمل بھی لاہور میں رہتا تھا۔ یہ لاہور ہی میں مرا اور کسی گم نام قبر میں دفن ہو گیا۔ ٹورڈرمل نے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار زمین کی تقسیم اور ریکارڈ کا بندوبست کیا۔
یہ پٹوار سسٹم کا بانی تھا۔ ٹورڈرمل لاہور میں کہاں دفن ہے کوئی نہیں جانتا۔ کاش حکومت ٹورڈرمل کی قبر تلاش کر لے۔ ہم دلی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو بائیں جانب طویل و عریض عمارت نظر آئی۔ یہ لاہور کا شاہی حمام تھا۔ یہ ہندوستان میں اس نوعیت کا سب سے بڑا حمام تھا۔ کامران لاشاری آج کل شاہی حمام کی بحالی میں مصروف ہیں۔ ہم عمارت میں داخل ہوئے تو عمارت کی خوبصورتی نے دل کھینچ لیا۔ یہ 21 کمروں کی طویل عمارت تھی۔
عمارت میں گرم پانی اور بھاپ کا زیر زمین نظام تھا۔ تین بھٹیاں تھیں۔ بھٹیوں میں لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ گرم ہوا عمارت کے نیچے موجود درجنوں سرنگوں سے گزرتی ہوئی۔ بھاپ اڑاتی ہوئی حماموں تک پہنچتی تھی اور نرم اور گداز بدنوں میں حرارت بھر دیتی تھی۔ کمروں میں قدرتی روشنی کے لیے چھتوں پر روشن دان بنائے گئے تھے۔
حمام کے اندر ٹھنڈے پانی کی آبشاریں اور فوارے بھی تھے جب کہ بھاپ کی ترسیل کا نظام بھی موجود تھا۔ دیواروں پر پچی کاری اور تصویریں تھیں۔ یہ حمام شاہ جہاں کے دور میں وزیر خان نے بنوایا تھا۔ وزیر خان جہانگیر اور شاہ جہاں دونوں کا منظور نظر تھا۔ چنیوٹ کا رہنے والا تھا۔ نام علاؤ الدین وزیر خان تھا۔ پیشے کا حکیم تھا۔ ملکہ نورجہاں کے پاؤں میں پھوڑا نکل آیا۔ ملکہ کا علاج کیا۔ بادشاہ کا قرب پایا اور لاہور کا گورنر بنا۔ شاہ جہاں نے بھی نوازشات کا سلسلہ جاری رکھا۔ وزیر آباد شہر بھی وزیر خان ہی سے منسوب ہے۔ وزیر خان نے لاہور شہر کو تین تحفے دیے۔ شاہی حمام۔ یہ کبھی لاہور کے رؤساء اور شاہی مہمانوں کی تفریح گاہ ہوتا تھا۔
حمام میں چند کمرے خواتین کے لیے مخصوص تھے۔ چند مرد حضرات کے لیے اور چند مشترکہ۔ آپ حمام سے قدیم لاہور کے لبرل ازم کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وزیر خان کا دوسرا تحفہ مسجد وزیر خان تھا۔ یہ مسجد دلی دروازے سے نصف کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ 1634ء میں بنی اور یہ کمال مسجد ہے۔ وزیر خان نے مسجد کے لیے چین سے پچی کاری کے ماہر لاہور بلوائے تھے۔ مسجد کے صحن میں پانی کا تالاب آج بھی موجود ہے۔ ڈیوڑھی میں کاتبوں کی درجنوں دکانیں ہوتی تھیں۔ یہ دکانیں بھی قائم ہیں۔ مسجد کے صحن میں درویشوں۔ مسافروں اور طلبہ کے حجرے بھی تھے۔
یہ حجرے آج بھی موجود ہیں۔ مسجد وزیر خان سمر قند اور بخارا کی قدیم مسجدوں اور مدارس کا پوری طرح مقابلہ کرتی ہے اور وزیر خان کا تیسرا تحفہ وزیر خان کی بارہ دری تھا۔ یہ بارہ دری عجائب گھر کی پشت پر پبلک لائبریری کے ساتھ موجود ہے اور غالباً وزیر خان کی قبر بھی اسی بارہ دری میں کسی جگہ موجود ہے۔ مجھے مسجد وزیر خان کے سامنے پانی کا قدیم کنواں نظر آیا۔ یہ کنواں بھی وزیر خان نے کھدوایا تھا اور یہ تین سو سال تک علاقے کے لوگوں کی پیاس بجھاتا رہا۔ کنوئیں کے بالکل سامنے پکوڑوں کی دکان تھی۔ مجھے لوگوں نے بتایا یہ دکان پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما جہانگیر بدر کی ملکیت تھی۔ جہانگیر بدر اور ان کے والد نے اس دکان سے اپنا کیریئر شروع کیا تھا۔ مسجد وزیرخان سے پہلے دنیا کی تنگ ترین گلی تھی۔ یہ گلی کوچہ غبارچیاں کہلاتی ہے۔
گلی کی وجہ تسمیہ کسی کو معلوم نہیں۔ شاید یہاں غبارے بیچنے والے رہتے ہوں گے اور ان کی وجہ سے گلی کا نام کوچہ غبارچیاں پڑ گیا۔ میں نے زندگی میں اتنی پتلی گلی نہیں دیکھی۔ گلی کے دونوں اطراف تین تین، چار چار منزلہ مکان ہیں اور مکانوں کے درمیان اتنی پتلی گلی ہے جس سے بمشکل ایک دبلا پتلا شخص گزر سکتا ہے۔ آپ کا وزن اگر سو کلو گرام سے زیادہ ہے تو آپ لازماً اس گلی میں پھنس جائیں گے۔ یہ گلی شاید ماضی میں حملہ آوروں کو پھانسنے اور پھانس کر مارنے کے کام آتی ہو گی۔ گلی کے ایک سرے پر حویلی الف شاہ ہے، حویلی میں اہل تشیع کی زیارت اور تین سو سال پرانا درخت ہے، درخت کے بارے میں مشہور ہے۔
اگر کنواری لڑکیاں نوچندی جمعرات کو حویلی میں آکر اس درخت پر سندور لگائیں اور دھاگہ باندھیں تو ان کی شادی ہو جاتی ہے، یہ رسم تین سو سال سے جاری ہے۔ میں نے درخت پر دھاگے اور سندور دونوں دیکھے۔ کوچہ غبارچیاں کی بغل میں جہانگیر نام کے ایک بزرگ رہتے ہیں۔ یہ 84 سال کے "جوان" لاہوری ہیں۔ یہ چار منزلہ پرانے مکان میں رہتے ہیں اور سیاحوں کو اپنی جوانی کے قصے اور شعر سنانا ان کا مشغلہ ہے۔
سنہری مسجد اندرون لاہور کے ماتھے کا جھومر ہے لیکن میں اس جھومر کے بارے میں آپ کو کل بتاؤں گا۔